قرآن اور قرآن کے تراجم (اقتباس)

تجمل حسین

محفلین
ناول : مصحَف (Mushaf)
مصنفہ: نمرہ احمد


’’یہ فیصلہ آج نہیں ہوا تھا، بلکہ بیسویں صدر کے اوائل میں ہی ہوگیا تھا کہ قرآن صرف عربی کا قرآن ہے۔ اس کے تراجم قرآن نہیں ہیں۔‘‘

وہ روشن چہرے والا شخص اپنے خوبصورت انگریزی لب و لہجے میں کہہ رہا تھا۔ وہ تھری پیس سوٹ میں ملبوس تھا۔ چہرے پر نفاست سے تراشیدہ داڑھی تھی اور سر پہ سفید جالی دار ٹوپی۔ اس کی آنکھیں بہت خوبصورت تھیں کانچ سی بھوری، چمکتی ہوئی، اور مسکراہٹ بہت دلفریب تھی۔ کچھ تھا اس کی مسحور کُن شخصیت میں کہ ہزاروں لوگوں سے بھرے ہال میں سناٹا تھا۔ سب سانس روکے اس کی بات سن رہے تھے۔

’’آج کے دور کا مسلم جب قرآن کھولتا ہے تو کہتا ہے کہ اسے اس میں وہ انداز کلام نظر نہیں آرہا جس کے قصے وہ بچپن سے سنتا آیا ہے، وہ انداز کلام جسے سنتے ہی عرب کے لوگ لاجواب ہوجاتے تھے، سجدے میں گرجاتے تھے، فوراََ ایمان لے آتے تھے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ اس قرآن کا لاکھ انکار کرنے کے باوجود ابوجہل بن ہشام جیسے لوگ بھی چھپ چھپ کر اسے سننے آتے تھے؟ اور کیا جہ ہے کہ ہمیں اس میں وہ بات نہیں نظر آتی جو ان عربوں کو نظر آتی تھی؟ ہمیں کیوں یہ صرف قصوں کا مجموعہ لگتا ہے جن کے درمیان چند نصیحتیں ہیں اور نماز روزے کے احکام؟

کیا آپ نے ڈاکٹر موریس بکائی کا واقعہ سنا ہے؟ ‘‘ اس نے لمحہ بھر کو توقف کیا اور پورے ہال پہ نگاہ دوڑائی۔ سب دم سادھے اس کو سن رہے تھے۔

’’ڈاکٹر موریس بکائی ایک فرنچ ڈاکٹر تھے۔ وہ اپنے پاس آنے والے ہر مسلمان مریض سے کہتے تھے کہ قرآن حق نہیں ہے بلکہ ایک من گھڑت کتاب ہے۔ مریض بے چارے آگے سے خاموش ہوجاتے۔ پھر ایک دفعہ جب شاہ فیصل ان کے پاس زیر علاج تھے تو انہوں نے یہی بات شاہ فیصل سے کہی تو انہوں نے پوچھا ’’کیا تم نے قرآن پڑھا ہے؟‘‘ڈاکٹر بکائی نے کہا کہ ’’ہاں پڑھا ہے‘‘۔ شاہ فیصل نے پوچھا کہ کیا پڑھا ہے؟ تو انہوں نے بتایا کہ قرآن کا ترجمہ پڑھا ہے۔ اس پر شاہ فیصل نے کہا ’’پھر تم نے قرآن نہیں پڑھا کیونکہ قرآن صرف عربی میں ہے۔‘‘

ڈاکٹر بکائی نے اس کے بعد دوسال لگاکر عربی سیکھی اور پھر جب انہوں نے اصل قرآن پڑھا تو وہ فوراً مسلمان ہوگئے۔ بات دراصل یہ ہے کہ ہم میں سے اکثر لوگوں نے قرآن نہیں پڑھا ہوتا۔ جو ہم عربی میں پڑھتے ہیں اس کا لیٹررڈ ورڈ میننگ Litrered word meaning ہمیں نہیں آتا ہوتا اور اس کا جو اردو ترجمہ ہم پڑھتے ہیں وہ اللہ نے نہیں اتارا ہوتا۔ کسی حد تک یہ تراجم اثر کرتے ہیں لیکن اگر کوئی قرآن کا اصل جاننا چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ عربی کا قرآن پڑھے۔

اب اس کے دو طریقے ہیں، یا تو آپ پوری عربی سیکھیں، یا آپ صرف قرآن کی عربی سیکھیں اور صرف قرآن کی عربی سیکھ کر بھی آپ بالکل درست طور پہ اصل قرآن سمجھ سکتے ہیں۔ اینی کوئسچن (کوئی سوال)؟‘‘

اس نے رک کر ہال پہ نگائی دوڑائی۔ اسٹیج کے سامنے نیچے لگے مائیک کے قریب کھڑی ایک پاکستان لڑکی فوراً آگے بڑھی اور مائیک تھاما۔
’’السلام علیکم ڈاکٹر تیمور‘‘۔
’’وعلیکم السلام!‘‘ وہ سر کے خفیف اشارے سے جواب دیتے ہوئے اس کی طرف متوجہ ہوا۔

’’سر مجھے آپ کی بات سن کر یہ سب بہت مشکل لگ رہا ہے۔ عربی بہت مشکل زبان ہے اورپیچیدہ اور ہماری مادری زبان نہیں ہے۔ عام آدمی اسے کیسے سیکھ سکتا ہے؟‘‘

وہ ذرا سا مسکرایا اور اپنا چہرہ مائیک کے قریب لایا۔
’’بالکل ایسے، جیسے ہمارے ملک کے عام آدمی نے دنیا کے علوم حاصل کرنے کے لیے انگریزی سیکھی ہے وہ بھی ہماری زبان نہیں ہے مگر ہمیں آتی ہے۔ کیا نہیں آتی؟ عربی سیکھنا تو زیادہ آسان اس لیے بھی ہے کہ یہ اردو سے بہت قریب ہے۔‘‘

لڑکی نے لاجواب ہوکر گہری سانس بھری ۔ پیچھے پورے ہال میں ایک تبسم بکھر گیا۔
’’میرا ایک کوئسچن ہے سر!‘‘ ایک نوعمر لمبا سا لڑکا مائیک پہ آیا۔ ’’میں نے آپ کے پچھلے لیکچر سے متاثر ہوکر قرآن سیکھنا شروع کیا تھا مگر قرآن پڑھتے اب مجھ پر پہلے والی کیفیت طاری نہیں ہوتی۔ دل میں گداز نہیں پیدا ہوتا، میں قرآن پڑھتا ہوں تو میرا ذہن بھٹک رہا ہوتا ہے۔‘‘

تیمور نے مائیک قریب کیا، پھر بغور اس لڑکے کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔ ’’آپ کہیں جھوٹ تو نہیں بولتے؟‘‘
’’جی؟‘‘ وہ بھونچکا رہ گیا۔

’’ایک بات یاد رکھیئے گا، قرآن صرف صادق اور امین کے دل میں اترتا ہے۔ میں نے اس کتاب کے بڑے بڑے علماء کو دیکھا ہے جو امانت کی راہ سے ذرا سے پھسلے اور پھر ان سے قرآن کی حلاوت چھین لی گئی اور پھر کبھی وہ اس کتاب کو ہاتھ نہ لگا سکے۔ جس شخص میں صداقت اور امانت ہوتی ہے اور وہ واقعی قرآن حاصل کرنا چاہتا ہے تو قرآن اس کو دے دیا جا تا ہے۔‘‘ اسکرین پہ وہ روشن چہرے والا شخص کہہ رہا تھا۔

’’ہم حضرت محمد ﷺ کے زمانے کے عرب معاشرے کے بارے میں عمومی تاثر یہ رکھتے ہیں کہ وہ بہت جاہل، گنوار لوگ تھے اور بیٹیوں کو زندہ دبانے والے وحشی تھے لیکن! ان لوگوں میں بہت سی خوبیاں بھی تھیں۔ وہ مہمان نواز تھے، عہد کی پاسداری کرتے تھے۔ جہاں تک بیٹیوں کو زندہ درگور کرنے کا تعلق ہے تو یہ کام عرب کے کچھ غریب قبائل کرتے تھے اور اس وقت بھی انسانی حقوق کی تنظمیں تھیں جو فدیہ دے کر ان بچیوں کو چھڑاتی تھیں۔ اور رہی بات صداقت کی۔۔۔۔ تو عرب معاشرے میں جھوٹ بولنا انتہائی قبیح عمل سمجھا جاتا تھا اور لوگ اس شخص پہ حیران ہوتے تھے جو جھوٹ بولتا ہو۔ اسی لیے ان لوگوں کو قرآن دیا گیا تھا اور اسی لیے ہم لوگ اس کی سمجھ سے محروم کر دیے گئے ہیں کیونکہ نہ تو ہم سچ بولتے ہیں اور نہ ہی امانت کا خیال رکھتے ہیں، بھلے وہ امانت کسی ذمہ داری کی امانت ہو، کسی کی عزت کی یا کسی کے راز کی۔‘‘

ناول ’’مصحف‘‘ سے اقتباس
 
Top