سید شہزاد ناصر
محفلین

اروڑ کا محل وقوع۔
اروڑ شہر کے مختلف نام۔
اروڑ کی قدامت اور تاریخ۔
سندھ کی تاریخ اور سندھی کرداروں کے متعلق کچھ غلط سلط باتیں۔
اروڑ کے کھنڈرات۔
اروڑ کا محل وقوع۔
روہڑی اور سکھر جڑواں شہر ہیں بلکل دادو اور مورو یا اسلام آباد اور راولپنڈی کی طرح۔ سکھر سندھ صوبہ کا تیسرا سب سے بڑا شہر ہے جو روہڑی سے کندھا کندھے سے ملائے صدیوں کے تہذیبی ورثوں کو اپنی پتھریلی کو کھ میں سنبھالے ہوئے ہے ۔ ایک دور میں روہڑی کی پسگردائی میں واقع پہاڑیوں میں سونے اور چاندی کی کانون کی موجودگی اس شہر کی شاہوکاراقتصادیات میں اہم کردار ادا کرتی تھی۔ قدیم دور میں ہندستان سے آنے والے کاروانوں کے لئے قافلہ سراءِ یہی شہر ہوا کرتا تھا جسے اس وقت رورانگربھی کہا جاتا تھا جو سندھ میں سطحِ سمندرسے ۷۰ فٹ اونچا یعنی سب سے اونچائی والا علاقہ تھا۔
روہڑی سے تقریباً گیارہ کلومیٹر دور جنوب مشرق طرف دریائے سندھ کی ایک شاخ نارا واہ کے مغربی کنارے پر سندھ کے ہزارہا سال پرانے شہر الور کے ویران کھنڈرات موجود ہیں جو دورِ عروج میں نہ صرف حکومتِ سندھ کا رارلخلافہ ہوا کرتا تھا بلکہ ایک وشال ، خوبصورت اور شاندار شہر تھا۔
اروڑ کا جابلو سلسلہ سکھر شہر سے تین میل دورشمال سے شروع ہوکر چالیس میل از طرف جنوب چلا جاتا ہے۔ آدم شاہ کی ٹکری، سادھ بیلو(جنگل)، بکھر کا جزیرہ اور خواجہ خضر کے آستان کا پہاڑ بھی اروڑ کے پہاڑی سلسلے سے ملا ہوا ہے۔ وادی سندھ کے مختلف شہرو ں جیسے جھوکر، کوٹ ڈیجی اور مہیں جو دڑووغیرہ سے ملنے والے بڑے بڑے پتھر وں کے علاوہ پتھر کے چاکو ، ہل اور دیگر اوزار وغیرہ اروڑ کی ٹکریوں کے پتھروں سے بنے ہوئے ہیں کیونکہ یہاں سے بھی اس قسم کے چاکوہاتھ آئے ہیں۔ سر جان مارشل نے اپنی کتاب مہیں جو دڑو اور سندھو تہذیب، میں لکھا ہے کہ ’’نئے پتھر کے زمانے کے نشان سندھ میں لکی کے پہاڑوں کی قطاروں اور روہڑی کی ٹکریوں میں کثرت سے پائے جاتے ہیں‘‘۔
اروڑشہر کے مختلف نام۔
اس شہر کا اصل نام اروڑ ہے جو عربی لب و لہجے میں الوربولا جائے گا ، اس شہر کو یہ نام شاید اس لئے بھی دیا گیا ہوگا کہ یہاں کے ہندوراجا اروڑ ونسی خاندان میں سے ہوا کرتے تھے۔ عرب جغرافیادان جو پرانے زمانوں میں وقتاً فوقتاً یہاں گھومنے یا حکمرانوں کے ساتھ آتے رہے، انہوں نے اپنی کتابوں میں اپنے اپنے لہجوں کے انوساراس شہر کا نام لکھا ہے، مثلاً مسعودی (۹۴۲ع )نے اس کا نام’’ الرور‘‘ لکھا ہے۔ سیوطی نے اپنی کتاب ’’ مراصدالاطلاع ‘‘میں یہی نام دہرا یا ہے ۔ اسی طرح ابنِ حوقل نے بھی اپنے بنائے ہوئے سندھ کے نقشے میں ’’الرور‘‘ لکھا ہے ۔ ابن خردازبہ (۲۵۰ہجری ) اور شریف ادریسی (۱۱۶۵ع) نے بھی یہی نام دہرایا ہے۔
یونانی جغرافیہ دانوں نے اپنی دستاویزوں میں اس شہر کو’’ موسیکانوس‘‘ لکھاہے ۔ چینی سیاح ہوئن تسانگ نے اپنے سفر نامے میں اروڑکو ’’پیشان پوپولو‘‘کا نام دیا ہے۔ سندھ کی اہم تاریخی دستاویزچچ نامہ کے ۹۶ پیج پر مصنف نے الور کا نام’’ بغرور‘‘ لکھا گیا ہے حالانکہ اس وقت بغرور بکھر کو کہا جاتا تھا۔ برطانوی جنرل الیگزینڈر کننگھم نے اپنی یاداشتوں میں اس کا نام’’ رورپورا‘‘ (رورانگر) لکھا ہے۔ سب سے بڑی حیرت تو مجھے آئین اکبری جیسی کتاب پڑ ھ کر ہوئی جہاں لکھا ہے کہ ’’الور کو آج کل ٹھٹہ یا دیبل کہا جاتا ہے‘‘۔
ًتحفۃ الکرام کے مطابق اس امیہ گورنروں کی حکومت کے دوران بھمبھور (میر پور ساکرو) میں راجا بھنبھوراءِ اور برہمن آباد میں راجا دلوراءِ نے بھی راج کیا۔ برہمن آباد بھی انتظامی طور پر اروڑکے زیرِ تسلط تھا اس لئے حاکم بہرحال دارلخلافہ میں ہی سکونت پذیر ہوا کرتا تھا ، شایداس لئے ہی کچھ تاریخیں الور کو ’’دلور‘‘ بھی لکھتی ہیں جو دلوراءِ کے نام کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔
اروڑ کی قدامت اور تاریخ۔
یو ں تو الور کی شادابی و تابانی قدیم زمانے سے تابندہ رہی تھی مگریہ شہرزیادہ تر ہندو گھرانوں راءِ اور برہمن حکمرانوں کے دور میں شاندار ترین روایتوں کا مالک رہاہے۔ راءِ گھرانہ ایودھیا کے سورج ونسی خاندان میں سے تھا۔ رام چندربھی اسی گھرانے کے راجاؤں میں سے ایک تھا جس کی اولاد میں سے راجا بلیکا کے بیٹو ں نے گیارہ سو قبل مسیح اروڑپر حکومت کی تھی۔ ان کے بعد چندر ونسی خاندان کے راجاؤں کی حکومتیں آئیں جو ہستناپور سے لے کر مغربی ہندستان تک وسیع علاقے میں پھیلی ہوئی تھیں۔ اس گھرانے کے وہ راجا جو شمال مغربی ہندستان پر حکومت کرتے تھے انہیں ’’پارواز‘‘ کہا جاتا تھاجوپنجاب پر قابض تھے تاریخ نے انہیں’’ آنو‘‘ کہا گیاہے۔ شمال مغربی ہندستان کے آخر ی حصے کے حاکموں کو ’’دروہی‘‘ کہا جاتا تھا جبکہ جن کی حکومت گجرات، سندھ اور مغربی ہندستان میں مکران تک ہوا کرتی تھی انہیں ’’ یادوو ‘‘کہا جاتا تھا۔ اور ترواسو کی حکومت ہستناپور کے علاقے پر قائم تھی جبکہ یادوو قوم کے جو لو گ سندھ پر حکومت کیا کرتے تھے ان کا لقب ’ راءِ‘ ہوتا تھا۔ واضع رہے کہ سندھ میں یادوو حکومت کی بنیاد ایک شخص ’سمایا‘ نے رکھی جو دوارکا کے راجا کرشن کی ساتویں رانی جامبوتی کا بڑا بیٹا تھا۔
مہاتما گوتم بدھ کے اقوال کی کتاب کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ ’سوویر ملک کا دارالخلافہ رورک تھا ‘۔ اس کتاب میں رورک کے متعلق جو اشارے کنائے ملتے ہیں ان سے وہ اپنی نشانیوں سے اروڑ کا موجودہ شہر بنتا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے گوتم بدھ کے زمانے(583-483.BC) میں بھی جو حضرت عیسیٰ سے چھ صدیاں پہلے گزرا ہے ۔ سندھ سوء ویر کا دارالخلافہ اروڑ رہا ہے ۔ گو کہ اروڑ کے آباد ہونے سے متعلق مستند ثبوت یا طۂ شدہ دور معلوم نہیں ہوسکا مگر اس بات سے انکار نہیں ہے کہ یہ شہر مہاتما بدھ کی پیدائش سے بھی سینکڑوں سال پرانہ ہے۔
کچھ کتابیں سکندرِ اعظم کے حملے والے دور میں بھی اس شہر کی قدامت کی گواہی دیتی ہیں کیونکہ ۳۲۷ قبل مسیح سکندر مقدونی کے اپنے ایک سپہ سالار کئٹس کرٹئس کووادی ئسندھ کے حالات جاننے کے لئے بھیجا تھا۔ اس نے یہاں سے واپسی پرسکندر کوبتایا تھا کہ ’سندھ میں بدھ مت کو ماننے والا طبقہ کافی طاقتور اور خوشحال ہے خا ص طور پر سندھ کے جنوبی علاقے کے شہروں سیھون اور پٹالا میں بدھ مذہب کے بڑے بڑے مراکز قائم ہیں البتہ شمالی سندھ یعنی اروڑ اور ملتان میں سورج دیوتا کے مندر ہیں کیونکہ یہ لوگ سورج ونسی ہیں‘‘۔
مجموعی طور پر سندھ کی اقتصادی خوشحالی کا سن کر ہی سکندر اعظم نے عیسوی سنہ سے سوا تین سو برس پہلے یہاں حملہ کیا تھا اس وقت شمالی سندھ جس میں موجودہ کشمور، کندھ کوٹ، شکارپور، سکھر اورروہڑی کے علاقے شامل تھے۔ جہاں ایک برہمن حکمران میوزیکانس کی راجدھانی تھی جس کا دارالخلافہ اروڑ تھا (کچھ کتابیں بتاتی ہیں کہ سکندر کے سندھ پر حملے کے وقت سندھ کا راجا سامبا یا سامب تھا جس کا’جاریجا ‘خاندان سے تعلق تھا )۔ میوزیکانس سکندر کی طاقت ، ظالمانہ طبیعت اورجنگ کی تباہ کاریوں سے اچھی طرح واقف تھا یہی سبب ہے کہ اس کے ممکنہ حملے سے ملک و رعایا کو نقصان سے بچانے کے لئے اس نے پر امن حکمت عملی سے کام لیتے ہوئے معاملات کو باتوں کے ذریعے سلجھانے کی کوشش کی تھی۔ اس کی تدبرانہ معاملہ فہمی نے حملہ آورو ں کے راہزنی رحجانوں کو کسی حد تک نرم کرلیا ویسے بھی یونانیوں کی فوج مسلسل جنگوں سے تھک کر تنگ آچکی تھی۔ جب باتوں کی نشست کامیاب ٹھہری اور میوزیکانس نے موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا اور سکندر کوتحفے تحائف دے کر دوستی کا ہاتھ بڑہایا جسے مصلحتوں کی بنا پرتھا م لیاگیا۔ یونانی سیاحوں نے دورِ قبل مسیح کی کتابوں میں لکھا ہے ’’سکندر اعظم کے سندھ پر حملے کے وقت اروڑ کے راجا نے اس کو سانپ کے کاٹے کی دوا اور سندھی ململ تحفے میں دی تھی ‘‘ ۔ انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ ’’ اروڑ واسیوں سے یونانیوں کو زہروں کے تریاق اور جڑی بوٹیوں کا علم ملا ‘‘۔ ان کا یہ بھی لکھنا ہے کہ ’’ اس دور میں علم طب اتنی ترقی پر تھا کہ یہاں حکیموں کو دیوتا کا درجہ حاصل تھا‘‘َ
سکندر اور میوزیکانس کے درمیاں ایک پر امن سمجھوتہ تو عمل میں آیا جو دونوں گروہوں کے لئے فائدیمندبھی تھا مگر برہمنوں کی ایک بڑی آبادی نے سکندر کے ساتھ دوستانہ تعلقات کو تسلیم نہیں کیا کیونکہ وہ غیور لوگ خارجیوں کو اپنی دھرتی سے بھگانے کے حق میں تھے اس لئے اس معاہدے کے خلاف بغاوت کردی جواس یونانی حملہ آور کے کرودہ کا باعث بنی ۔ غصے میں آکر سکندر نے اروڑ کے باشندوں کا قتل عام کروانا شروع کیاجس پر میوزیکانس اپنی رعایا کا خون پانی کی طرح بہتے ہوئے نہیں دیکھ سکا اس لئے وہ بھی کمر باندھ کر میدانِ جنگ میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ شامل ہو گیا اور نہایت بے جگری سے لڑتے ہوئے سندھ کا یہ بہادر سپوت ایک یونانی سالار پیتھان کے ہاتھوں گرفتار ہواجسے بعد ازان اذیتیں دے دے کر صلیب پرچڑھا کر شہید کردیاگیا تھا۔
اروڑ کی فتح کے بعد سکندر نے یہاں ایک یونانی گورنر کو مقرر کیا اور خود بیبی لونیاکی طرف قصد کیا۔ شکست کے زخم جب بھرنے لگے تو سندھیوں نے ایک بار پھر اپنی طاقت جمع کرکے یونانی گورنر کے خلاف بغاوت کا پرچم بلند کرکے اعلانِ جنگ کیا اور اسے یہاں سے بھگاکردوبارہ اپنی جاگیر کے والی خود بن گئے۔
کشن گھرانے (۷۸ع۔ ۱۷۵ع) کے راجا کنشک نے سندھ میں بدھ دھرم کو بڑی ترقی دلوائی۔ اس کے بعد راجا واسدیو( پہلا )اور واسدیو( دوسرا) حاکم بنے جن کے دورِ حکومت میں شمالی سندھ میں بے شمار وسیع و عریض شہر ہوا کرتے تھے جن میں سے ستائیس بڑے اور تریپن چھوٹے شہروں کے کھنڈرات آج بھی سکھر اور لاڑکانہ اضلاع میں بکھرے پڑے ہیں۔ کشن خاندان کے زوال کے بعد سنہ ۳۲۰ع میں قنوج (کانیہ، کیج، کنوج ) کے حاکموں نے سندھ کے طول و عرض میں گپت خاندان کی بنیاد ڈالی۔ انہی کے دور میں برہمن سماج نے وسیع بنیادوں پرسیاسی، ادبی اور سماجی ترقی کی ۔ کالیداس جیسے عظیم شاعر نے اسی دور میں سنسکرت کی اصلاح و تبلیغ کی۔
گپتاؤں کے بعد سندھ میں راءِ گھرانے کی حکومت قائم ہوئی جس کی سرحدیں شمال میں کشمیر، قندھار اور ہیلمند تک، مغرب میں کرمان کی وادی ء نور منشور تک، جنوب میں سورت اور مشرق میں چتور گڑھ تک تھیں۔ اس وقت تک سکندر اعظم کے حملے کو ۸۵۱ سال کا عرصہ گزر چکا تھا۔ راءِ گھرانے کے پانچ راجاؤں راءِ دیواجی، راءِ سھارس (پہلا)، راءِ سہاسی( پہلا)، راءِ سارس (ثانی) اور راءِ سہاسی( ثانی) نے سنہ ۴۵۰ع سے سنہ ۶۳۲ع تک سندھ پر حکومت کی جن کا دارلخلافہ اروڑہوا کرتا تھا ۔ ان کی سلطنت میں ماتھیلو، اچ شریف ، سیوراءِ ، ماؤ، سیوستان، نیرون کوٹ، اروڑ، برھمن آباد اور دیبل کے قلعے شامل تھے۔ راءِ گھرانے کے یہ حکمران شودر تھے مگر چونکہ حاکم بن جانے کے بعد برہمنی دھرم کو ماننے لگے تھے اس لئے برہمنوں نے انہیں شدھی کہہ کر کھتری بنادیا جو آگے چل کر کھتری راجپوت کہلانے لگے۔ راءِ راجاؤں نے سندھ پر ۱۳۷ سال حکومت کی ۔ سیوھن ، اروڑ اور میر پور ماتھیلو کے قلعہ ساھسی (دوسرے )کے زمانے میں بنائے گئے تھے ۔
راءِ سلطنت کے بعد سندھ پر برہمنوں (۶۴۱ع۔۷۱۱ع) کی حکومت شروع ہوئی جس کی بنیادراجا چچ نے رکھی۔ کشمیر کی تاریخ راج ترنگنی میں چچ کا نام’ جج‘ لکھا ہوا ہے اور بتایا گیا ہے کہ ’’اس کا تعلق کشمیر کے شاہی گھرانے سے تھا‘‘۔ ہندستان کی کچھ دوسری معتبر تاریخوں میں بھی چچ سے متعلق ابہام گوئی سے کام لیاگیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ چچ ایک برہمن تھا جس کا باپ پنڈت سیلائج اروڑ کا باشندہ اور وہاں کے خاص مندر کا بڑا پجاری تھا جس نے اپنے بیٹے کی احسن طریقے سے تعلیم و تربیت کی تھی جس کی بدولت جوان ہوکر چچ نہایت روشن خیال شخص اور فصیح البیان مقرر ثابت ہوا۔
ایک دن اس نے سندھ کے حاکم راءِ سھاسی کی دربار میں جاکر اپنی خدمتیں پیش کیں جہاں بادشاہ کے ساتھ وزراء کو بھی اس نوجوان کی خوداعتمادی بہت بھائی ۔ اس لئے رام راءِ نامی وزیر نے اس کا شخصی اور علمی امتحان لیا۔ چچ کو جب ہر مقرر معیار پر پورا پایا تو اسے محکمہء روینیو میں ایک اعلی ٰ عہدہ پر مقرر کیا ۔ کچھ عرصہ بعد اپنی ذہات سے وہ وزیر کا نائب بنا اور سلطنتی امور میں بہترین منتظم ثابت ہوتا رہا اس لئے ہی وزیرکے مر نے کے بعد حاکم نے چچ کو نیا وزیر مقرر کرکے سلطنت کے کئی اہم معاملات اس کے حوالے کردیئے۔ چچ کی شخصی وجاہت اور خوش اخلاقی سے متاثر ہوکر بادشاہ کی رانی سوبھن دیوی (کچھ تاریخوں میں اس کا نام رانی سھندی لکھا گیا ہے) اس پر موہت ہوگئی مگر جب اس نے اپنی قلبی حالت کا اظہا ر چچ پر کیا تو اس نے دو ٹوک جواب دیتے ہوئے کہا تھاکہ ’’ میں برہمن ہوں مجھ سے اپنے آقا کے ساتھ نمک حرامی نہیں ہوگی‘‘۔
چچ کے انکار کے باوجود رانی اپنے دل کو سمجھانے میں ناکام رہی اور گاہے بگاہے اپنے محبوبیت کااظہار کرتی رہتی تھی۔ خدا کی کرنی ایسی ہوئی کہ ایک دن راجہ سھاسی کسی لاعلاج مرض کا شکار ہوکر صاحبِ فراش ہوگیا ۔ بڑے حیلے کئے گئے مگر مرض بہتا گیا جوں جوں دوا کی والا معاملہ صادق رہا۔ جب سب حاذق ، حکیم اور وید اس کی زندگی سے مایوس ہوگئے تو ایک دن رانی نے چچ کو بلاکر کہا ’ہمارا بادشاہ زندگی کی آخری سانسیں لے رہا ہے، اس سے ہمیں کوئی اولا د بھی نہیں ہے جو تخت و تاج کی وارث قرار دی جائے اس لئے اگر تم میرے ساتھ شادی کرنے کا وعدہ کرو تو میں تمہاری تخت نشینی کا بندوبست کرنے کی کوئی نہ کوئی سبیل نکال لوں‘۔
رانی کی پیشکش کافی پرکشش تھی اور پھر بادشاہ تو ویسے بھی مرنے والا تھا اس لئے چچ نے کافی سوچ بچار کے بعداس کی بات تسلیم کرنے کا وعدہ دے دیا۔ چچ کی طرف سے ہاکاری جواب سن کررانی نے شاہی کاؤنسل بلواکر اعلان کیا کہ بادشاہ سلامت چونکہ خود بستر سے اٹھنے کے قابل نہیں ہیں لہٰذا اس نے اپنی انگوٹھی چچ کے حوالے کرنے کا حکم دیے کر کہا ہے کہ ’’جب تک میری طبیعت سنبھلے امورِ سلطنت سنبھالنے کے لئے چچ کو قائم مقام تسلیم کیا جائے ‘‘۔ بادشاہ کے حکم پر کاؤنسل نے سر تسلیم کرلیااور چچ بادشاہ کا مختیار بن گیا۔ بعد ازاں راجا کی وفات کے بعددرباریوں نے چچ ہی کو گاد ی پر بٹھادیا گیا یوں سندھ کی حکومت راءِ گھرانے سے برہمن خاندان میں منتقل ہوگئی۔ چچ نے حسبِ وعدہ رانی کے ساتھ شادی کرلی اور اپنا دارلخلافہ اروڑ کے بجائے برہمن آباد مقررکیا۔
راءِ گھرانے کی حکومت کا خاتمہ اور برہمن خاندان کی حکومت کی شروعات ۶۳۲ع میں سھاسی ثانی کی موت کے بعد چچ کی گادی نشینی سے ہوئی ۔ برہمن گھرانے کے چھ راجاؤں چچ، چندر، داہر (دھارج)، ڈھر، ڈھر سیہ اور ڈاھرنے سنہ ۶۳۲ع سے ۲ جون سنہ ۷۱۲ع تک (یعنی محمد بن قاسم کی فتحِ سندھ اور ڈاہر کی شہادت تک) تقریباً ۸۰ سال تک حکومت کی ۔ راجا ڈاہر جو بہادری سے اپنی دھرتی کا تحفظ کرتے ہوئے شہید ہوگیا تھا اس نے اپنا دارلخلافہ اروڑ کو بنایا تھا مگرمحمد بن قاسم نے سندھ پر قبضہ کرکے اپنا دارالخلافہ منصورہ(برہمن آباد، موجودہ سانگھڑ ضلع میں) کو بنایا تھا جو ۷۵۰ع تک رہا۔
چچ نامہ میں لکھا ہے کہ ’’ اروڑ کا شہر سندھ کا تخت گاہ ہے۔ پہلے زمانے میں جب راجا راءِ سہیرس بن سھاسی یہاں حکومت کرتا تھا تو یہ ایک بڑا شہر تھا جو شاندار عمارتوں، بیشمار چراگاہوں، پھولوں، تالابوں ، نہروں ، باغیچوں سے مزیں ہوا کرتا تھا۔ ۶۰۰ع میں راجا سہیرس بن سھاسی ی راءِ ایک ایرانی حکمران نمروز کے ساتھ لڑائی میں مارا گیا۔ اسی نمروز نے بعد ازاں ساھرس کے بیٹے کے ہاتھوں شکست کھائی تھی‘‘۔
چچ نامہ کا مصنف مزید لکھتا ہے کہ ’’ اس شہر میں ایک بے شمار خزانوں کا مالک راجا راءِ سہیرس بن راءِ سھاسی رہتا تھا جس کی روشن خیالی، بہادری اور انصاف پسندی ملکوں ملکوں مشہور تھی۔ اس کی سلطنت مغرب طرف مکران، مشرق میں کشمیر ، جنوب میں دیبل جبکہ شمال میں کیکائان تک ہوا کرتی تھی۔ عنانِ حکومت چلانے کے لئے اس نے اپنی سلطنت میں انتظامی طور پر چار گورنر مقرر کر رکھے تھے ۔ ایک گورنری برہمن آباد میں تھی جس میں نیرون کوٹ، دیبل، لوہانا، سما اور ندی والے علاقے شامل ہوا کرتے تھے۔ دوسری گورنری سیوہن میں تھی، جس میں لدھیانہ ، چنجن اور مکران کے علاوہ روجھان کا علاقہ شامل بھی تھا۔ تیسری گورنری اسکلندہ تھی جس میں بابیہ، سوارا، جھجھور اورساحلی سرحدیں آجاتی تھیں جبکہ ملتان چوتھی گورنری تھی جس میں سکہ، کرد، اشتہار اور کشمیر کے علاقے شامل تھے‘‘۔ اس ساری وسیع و عریض سلطنت کا صدر مقام ویران کھنڈرات والا یہ شہر اروڑ تھا جس کی انتظامیہ میں کرمان، کیکائان اور برہما والے علاقے شامل تھے۔
قدامت کے لحاظ سے اروڑ آریا ورت سلطنت کے قدیم اور شاندار شہروں ہستناپور، ادرپرسا (دلی) اور پتالیپترا(پالنا) کا ہمعصر و ثانی تھا۔ شہر کے چو ئطرف ایک قلعہ گاہ تھی جہاں سندھ کا بہادر راجہ داہر رہا کرتا تھا ۔
سندھ کی تاریخ اور سندھی کرداروں کے متعلق کچھ غلط سلط باتیں۔
اکثر پاکستانی یا مسلمان تاریخ دانوں نے سندھ کے برہمن حاکموں بشمول راجا ڈاہر کوظالم ، جابر اور ولن کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جبکہ محمد بن قاسم کے مسلمان ہونے کے ناطے اس سے عقیدت رکھتے ہوئے عربوں کے سندھ پر حملے کو جائز قرار دیا ہے ۔ علاوہ ازیں انہوں نے حجاج بن یوسف جیسے آدمی کو جسے اپنے عربی تاریخدان بھی نہایت سفاک و ظالم قرار دیتے ہیں ۔ اسی طرح ہمارے مورخ اور مصنف اس مروان کے بیٹے عبدالملک کو مسلمانوں کا نجات دہندہ اور عظیم سپوت لکھتے ہیں جس کو اس کی منافقانہ طبیعت کی وجہہ سے رسول کریم ﷺ جیسے رحمدل انسان نے بھی مدینے سے جلاوطن کردیا تھا ۔
اب اگرمجموعی صورتحال کی بات لی جائے تو آج تک کسی بھی تاریخ دان نے راءِ اور برہمن گھرانے کے بارے میں یہ نہیں لکھا کہ ان کا دورِ حکومت سندھ میں بد انتظامی ، لاقانونیت یا جہالت کا زمانہ تھا بلکہ وہ توسندھ کی تاریخ کا بہترین دورلکھا اور پڑھا جاتا ہے کیونکہ سندھیوں کے پاس دنیا کا بہتریں سماجی نظام موجود تھا۔ راءِ خاندان کے پانچ حکمرانوں کے دور میں صرف ایک مرتبہ ایرانیوں نے سندھ پر حملہ کیا۔ اس جنگ کے علاوہ یہاں ہر طرح سے امن و امان کی صورتحال رہی۔
اگر سندھی لوگوں میں ایمانداری کی بات کی جائے تو میں چند مثالیں انہی عرب سیاحوں کے کتابوں سے لوں تو یار لوگ مستند مانیں گے ورنہ نہیں۔ شمس محمد بن احمد بشاری مقدسی لکھتا ہے کہ ’’ سندھ کے باشندے ایماندار، دیانتدار، پرامن، سلیقے والے، ذہین، ہوشیار، سخی ، بااخلاق ، نرم دل اور اسلام کے پابند ہیں‘‘۔ عمر بن محبوب اپنے خطوں میں لکھتا ہے کہ ’’بصرہ میں ایسا کوئی مالدار نہیں جس کے پاس خزانے کی چارج کے لئے سندھی ملازم نہ ہوں‘‘۔ ایک دوسرے خط میں یہی صاحب رقم طراز ہیں کہ ’’بصرہ اور برپارات کے رہنے والوں نے جب دیکھا کہ ابو روح سندھی نے اپنے آقا کی دولت اورملکیت میں زبردست اضافہ کیا ہے توسب لوگ سندھیوں کو برکت کے لئے خزانچی بناتے ہیں‘‘َ ابنِ خردازبہ لکھتا ہے کہ ’’خزانہ کی سنبھال صرف سندھی لوگوں اور ان کی اولادوں کے حوالے کی جاتی ہے، وہی صرافہ کے کام میں سب سے زیادہ ماہر اور ایماندار سمجھے جاتے ہیں‘‘۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے بھی اپنے دورِ حکومت میں بیت المال کا نگران سندھ کے لوگوں کو کیا تھا۔
سندھیوں کی حکمت کا یہ عالم تھا کہ جب حضرت بیبی عائشہ صدیقہ بیمار ہوگئی اور جزیرۃ العرب کے کسی حاذق کی دوا نے کام نہ دکھا یا تو اس کے بھائیوں نے سندھ سے ایک طبیب منگوایا جو جت قوم سے تعلق رکھتا تھا ۔ اس کی دوائی سے خدا تعالی ٰ نے بیبی صاحبہ کو شفایابی عطا فرمائی تھی۔ خلیفہ ہارون رشید کی لا علاج بیماری کے لئے بھی مانک سندھی نامی ایک وید سندھ سے منگوایا گیا تھا جس نے خلیفہ کا کامیاب علاج کیا تھا۔
اسی تناظر میں سندھ کی علمی حیثیت جانچنے کے لئے یہ حدیث شریف بھی غور طلب ہے کہ ’’علم حاصل کرو چاہے اس کے لئے تمہیں صین کیوں نہ جانا پڑے ‘‘۔ اس جملے میں ’ صین ‘ کو ہمارے ترجموں میں ’ چین ‘ لکھا اور پڑھا جاتا ہے جو کہ صحیح نہیں ہے ۔ اگر یہ لفظ ’ چین ‘ ہوتا تو حدیث شریف میں اس طرح آتا کہ ً ’’علم حاصل کرو چاہے اس کے لئے تمہیں ’شین ‘ جانا پڑے‘‘۔ کیونکہ ’ چ ‘ کی جگہ پر عربی میں ’ت ‘ یا ’ ش ‘ استعمال کیا جاتا ہے ’ ص ‘ نہیں ۔ مثال کے طور پر اگر کراچی کا لفظ عربی میں لکھا جائے تو ’ کراتشی ‘ لکھا جائے گا ’’کراصی ‘‘ نہیں۔ میں نے اپنے دوست عبدالرحیم عباسی سے یہ با ت ثابت بھی کی جونہ صرف سعودی عربیہ میں پیدا ہواتھا بلکہ عربی کے تمام لہجوں کا ماہر بھی ہے اس نے بتایا کہ عربی کے انیس لہجوں میں سے کسی بھی لہجے میں بھی ’چ ‘ کی جگہ ’ص ‘ نہیں لکھا جاتا۔ اس لئے یہ لفظ ’ صین ‘ اصل میں ’سین ‘ بنتا ہے جو جو پرانے عربی مسودوں میں سندھ کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ یعنی علم حاصل کرو چا ہے اس کے لئے تمہیں صین (سین یعنی سندھ) کیوں نہ جانا پڑے۔
بیشترقدیم عربی کتابوں اور دستاویزوں میں سندھ کو صین کے نام سے ذکر کیا گیا ہے جیسے توریت میں ’’دشتِ صین ‘‘لکھا گیا ہے۔ دشتِ کی معنی تو میدان یا جنگل اور صین کی وہاں بھی وضاحت سندھ بنتی ہے یعنی سندھ کا میدان یا خطہ۔ علاوہ ازیں ’ صین یا سین‘ لفظ اس دور میں عام استعمال میں ہوتا تھا جیسے اباسین (دریائے سندھ)، کھیت سین، ڈہر سین، چندرسین ۔ جے سین وغیرہ۔
مقالات شبلی میں علامہ شبلی نعمانی کا رقمطراز ہیں کہ ’’ سندھ وہ سرزمین ہے جہاں سب سے پہلے کتابیں لکھی گئیں اور یہ قدیم دور سے علم و ادب کا مرکز تھا جہاں سے ایران اور یونان تک علم کی ترسیل ہوا کرتی تھی ، اس تناظر میں کہا جا سکتا ہے کہ یونان بھی علمی طور پر سندھ کا شاگرد رہاہے‘‘۔ غیر ملکی عالموں کا سندھ سے عقیدت کا یہ عالم تھا کہ فردوسی جیسے ایرانی شاعر نے اپنے شہرہ آفاق کتاب’ شاہنامے‘ میں لکھا ہے کہ ’’ساقی مجھے شراب دے مہیں جو دڑو کی مٹی سے بنے ہوئے پیالے میں اورکاش وہ مٹی میرے آبا و اجدادکی ہوتی‘‘۔ مزدور فیڈریشن کے صدر مسٹر ڈانگی نے بیان دیا تھا کہ ’’مجھے فخر ہے کہ آج میں اس دھرتی پر کھڑا ہوں جہاں اجنبیوں کو بھی بغیر پوچھے روٹی کھلائی جاتی ہے‘‘۔ امریکی صدر کلنٹن جب پاکستان آیا تھا تو اس نے اپنے تاثرات یوں قلمبند کئے تھے کہ ’میں یہاں وادی ء سندھ کی تہذیب کے پرستار کے طور پر آیا ہوں‘‘۔
اس قسم کی باتوں سے پتہ ملتا ہے کہ قدیم و جدید دنیاؤں میں سندھ اور سندھیوں کو کتنا اونچا مقام حاصل ہے جبکہ اسی دور میں عربیہ کے اندر جہالت اور بدامنی کا دوردورہ تھا۔ بلکہ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ساری دنیا میں امن تھا مگرپورا عربستان جہالت کے اندھیروں میں پنپ رہا تھا ۔ حالات کی خرابی کا اندازہ اس بات سے لگا یا جا سکتا ہے کہ برہمن دورِ حکومت میں چچ کی مسندی سے راجا ڈاہر کی شہادت تک سندھ میں صرف تین حکمران گزرے جبکہ عرب تاریخ بتاتی ہے کہ وہاں اسقدر بدامنی اور انتشار تھا کہ چار میں سے تین خلیفے بے دردی سے مسلمانوں ہی کے ہاتھوں شہید کردیئے گئے جو تینوں ہی رسول اللہ صلعم کے رشتے دار تھے، امام حسن علیہ السلام کو خلافت سے ہٹایا گیا ، جھوٹے پیغبروں کی یلغار ہوئی ، کربلا میں آل رسول کریم کے ساتھ کی گئیں ناانصافیاں، حضرت امام حسین رضہ اللہ عنہ ٰاور اس کے ساتھیوں کی شہادت، ہزاروں پرامن خاندانوں کی دوسرے ملکوں میں ہجرت وغیرہ وغیرہ ۔ واضع رہے کہ کربلا کا افسوسناک واقعہ ۶۱ہجری میں راجہ ڈاہر کے دور میں ہوا، اسی سال امام حسین کے بڑے قاتل عبیداللہ بن زیاد اور منڈھر بن جارود بن بشر کو سندھ پر حملے کے لئے روانہ کیا گیا تھا۔ اور تو اوراپنے ہیرومحمد بن قاسم کے ساتھ عربوں نے کیا کیا، ۹۶ ہجری میں تازہ جانور کی اتاری ہوئی کھال میں بند کرکے واپس بلایا گیا جہاں معاویہ بن یزید بن مھلب نے زنجیروں میں جکڑااور عراق کے ایک عامل صالح عبدالرحمٰن نے جیل میں اذیتیں دے دے کر اسے قتل کردیاتھا۔
یوں کہا جا سکتا ہے کہ سندھ پر حملہ کرنے والے عربوں میں حضرت امام حسین رضہ اللہ عنہٰ کے قاتل اور ان کے عزیز و اوقارب بھی شامل تھے جنہوں نے یہاں آکر وہی کچھ دہرایا جو کوفے میں کیا تھا بلکہ یہاں کچھ زیادہ ہی زیادتیاں کیں وہاں ایک کربلا ہوئی تھی سندھ کی ہزاروں ہنستی بستی آبادیاں اجاڑ کرہزاروں کربلائیں مچائیں۔ ان غاصب لٹیروں کوصرف مسلمان ہونے کی بناپر ہمارے مورخوں نے ہیروبنادیا اور وہ لوگ جو اپنے جیاپے، اپنی دھرتی، اپنی عزتوں کو مالِ غنیمت ہونے سے بچانے کے لئے بہادری سے لڑے اور شہید ہوئے انہیں غدار قرار دے دیا صرف اس لئے کہ وہ ہندو تھے ۔
اتہاسی معاملات میں یہ منافقت صرف سندھ اور بلوچستان کے ساتھ روا رکھی گئی ہے دوسرے صوبوں کی تاریخوں میں ایسا نہیں ہے۔ ا ور یہ سلسلہ صرف سندھ کی تاریخ کے ساتھ ہی روا ہے۔ پنجاب والے تو اس رنجیت سنگھ کی بے انتہا عزت کرتے ہیں جس نے لاہور کی شاہی مسجد کو گھوڑوں اور گدہوں کا طبیلہ بنا دیا تھا ، انہوں نے نہ صرف اپنے مہاراجہ کی قبر سنبھال رکھی ہے بلکہ اس کے نام پر لاہور کے قلعے میں پوری گیلری موجود ہے جس میں اس کا ساز وسامان بھی سنبھال کر محفوظ کیا ہواہے۔ اس کے گھوڑے کو حنوط کرکے رکھا ہوا ہے جس کی زیارتیں ہوتی رہتی ہیں مگر سندھ کے عاشقوں اور جیدار بیٹوں راجہ ڈاہر اور جے سینہ، ہیموں کالانی، روپلوکولہی اور جی ایم سیدکا نام لینے والا بھی مجرم قرار دیا جاتا ہے۔
کرداری لحاظ سے بھی سندھی بہادروں اورعرب حملہ آوروں کا کوئی میل نہیں تھا ۔ مثال کے طور پر ایک واقعہ جیسینہ (ڈاہر کے بیٹے) کاہی لے لیتے ہیں ۔ راجا ڈاہر کی شہادت کے بعد جیسینہ کیرج کی طرف بڑھا جہاں رہائش پذیری کے دوران حاکم کی بیٹی اس پر عاشق ہوگئی مگر جے سینہ نے اس کو کہا ’’اے شہزادی ہم اپنے نکاح میں آئی عورتوں کے علاوہ کسی دوسری عورت سے میل ملاپ اچھا نہیں سمجھتے، یہ کام ہم سے اس لئے بھی نہیں ہوگا کیونکہ ہم برہمن لوگ راہب اور پرہیزگار ہوتے ہیں، بزرگوں ، متقی ، عالموں اور حریت پسندوں کو ایسا کام کرنا اچھا نہیں لگتا‘‘۔ اب دوسری مثال لیتے ہیں محمد بن قاسم کی جس نے فتحِ سندھ کی ساری مہم پر دمشق سرکارکے صرف ساٹھ ہزار درہم خرچ کئے تھے جبکہ سندھ سے اس کو مالِ غنیمت کے طور پر تیرہ کروڑ پچھترلاکھ روپے کا مال ومتاع، تیس ہزار مرد اور عورتیں ہاتھ آئیں ، جن میں سے مردوں کو غلام اور عورتوں کو کنیزیں بناکر عربی لشکر نے کچھ اپنے لئے رکھ لیں اور باقی سب کو مالِ غنیمت کے ساتھ حجاج بن یوسف کی خدمت میں بصرہ بھیج دیا گیا تھا ۔ عربی سالاروں نے قبضہ کی ہوئی سندھی خوبصورت عورتوں کوحسبِ منصب اپنے اپنے لئے بانٹ دیاگیا۔ محمد بن قاسم نے راجا داہر کی رانی لاڈی کے ساتھ زبردستی شادی کرلی اور اس کی دو بیٹیوں سونھن دیوی اور پرمل دیوی اور ایک بھانجی سندری کوبھی لوٹ کے مال کے ساتھ بصرہ بھیج دیا تھا، یہ تھی عربی حملہ آوروں کی ذہنی اوقات اور شخصی اخلاق۔
تاریخی کتابوں میں دوسرے سندھی سپوتوں کی طرح راجہ داہر کو کافر اور العین کہہ کر یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی ہے کہ سندھیوں اور عربوں میں جنگ حق و باطل کی جنگ تھی اور ’’ یہ کہ‘‘ عام سندھی ڈاہر سے خائف اور عربوں کے حملے سے خوش ہوئے۔ حالانکہ یہ حقیقت بھی تاریخ رکارڈ پرہے کہ سندھی آنے والے تین سو سالوں سے بھی زیادہ عرصے تک عربوں سے چھاپہ مار جنگو ں کے ذریعے اپنی آزادی کی جنگ لڑتے رہے تھے ‘‘۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ سندھی باشندوں نے کبھی بھی عربوں کو حق پر نہیں سمجھا تھا اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ سندھ پر عربوں نے قبضہ تو کرلیا یوں ۷۱۱ع سے ہباری خاندان (۵۵۔۸۵۴ع) کے خاتمہ تک ان کا سندھ پر تسلط رہا مگر اتنے لمبے عرصے تک حکمران ہونے کے باوجود عربی تہذیب سندھی تہذیب کو اپنی ثقافت میں نہ صرف یہ کہ ضم نہیں کرسکی بلکہ اس پر کچھ بھی قابلِ ذکر اثر ات نہیں چھوڑے ، جیسا کہ عربوں نے دوسرے مفتوح مغربی علاقوں مصر، تیونس، الجزائر، مراکش وغیرمیں کیا تھا کہ وہاں کی زبان و تمدن پر عربی زبان اور کلچر چھاگئی تھی۔
یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ سنہ ۷۱۰ع میں جب سراندیپ کے راجا کے حجاج بن یوسف کے لئے بھیجے گئے تحفے لوٹے گئے تھے تو حجاج نے داہر کو خط لکھا کہ ’’بحری قزاقوں سے وہ تحفے واپس کروائے‘‘ ۔ جس کا راجاڈاپر نے جواب دیا تھاکہ ’’ قزاق کسی کے ظابطے میں نہیں آتے‘‘ ۔ تب حجاج نے بزیل کو سندھ پر حملہ کرنے بھیجا جس نے سمندری راستے پر سفر کرتے ہوئے نیروں کوٹ میں منز ل گاہ کی تھی، جہاں ہاروں نے تین ہزار عربوں کی مزید کمک پہنچائی اور بزیل نے دیبل پر حملہ کردیا مگر داہر کے بیٹے جے سینہ کے ہاتھوں شکست کھاکر مارا گیا۔
ان حقیقتوں سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ سندھ پر حملہ کرنے یا کرانے والے عربوں کی نیت یہاں نہ اسلام پھیلانے کی تھی نہ ہی حجاج نے ایک عورت کی (مدد کے لئے )پکار سن کر سندھ پر فوجیں بھیج دیں تھی۔ ورنہ چند عورتوں کی بحری قذاقوں کے ہاتھوں اغوا پر تڑپنے والا حجاج (اگر واقعی غیرتمند ہوتاتو) ہزاروں بے گناہ عورتوں کی اپنے سالاروں کے ہاتھوں عصمت دری اور تذلیل کیسے گوارا کرتا یا سندھ سے بھیجی جانے والی عورتوں کو مالِ غنیمت کے طور پر کیسے قبول کرتا۔ یا پھر محمد بن قاسم جو تین عورتوں کی عزت بچانے آیا تھا وہ ہزارہا عورتیں کو یہاں سے باندھ کر اپنے آقا کی غلامی میں بھیجنے کی دلالی کیوں کرتا۔
مستند تاریخی روایتوں اور کتابوں میں ان اسبابوں کوبھی بلکل نظر انداز کردیا گیا ہے کہ جو سندھ پر قبضہ کے سلسلہ میں ابتدائے اسلام سے ہو رہی تھیں ۔ ان مقاصد میں بحرِ ہند پر عربوں کے تسلط کرنے کا خواب سب سے اہم تھا ۔ حیرت کی بات ہے کہ رحیمداد مولائی شیدائی جیسا روشن خیال مورخ بھی کہیں کہیں تاریخی اصولوں سے بھٹک گیا ہے وہ جنت السندھ کے صفحہ ۹۹ پر لکھتا ہے کہ ’’ جس طرح روم اور ایران کی باہمی جنگوں نے ساسانی شہنشاہیت اور مشرقی بیزانطوم سلطنت کو کمزور کردیا تھا اسی طرح سندھ میں سمنیہ اور برہمنوں کی باہمی دشمنی نے نہ صرف ڈاہر کی حکومت کو دیمک کی طرح چاٹ دیا تھا بلکہ مروجہ مذہب کے اعتقادوں کو بھی کمزور کر دیا تھا اور عوام الناس کو حکومت سے کوئی ہمدردی نہیں رہی تھی ‘‘۔ جبکہ یہ صاحب اسی کتاب کے صفحہ نمبر ۱۰۸ پر اپنے اوپر والے بیان کی انحرافی کرتے ہوئے ملتا ہے کہ ’’ عرب فاتحوں نے ڈاہر کا سر کاٹ کر نیزے پر رکھ کر گھمایا تاکہ ڈاہر کی فوج کو اس کے مرنے کا یقیں ہو (کیونکہ وہ مسلسل بے جگری سے لڑ رہے تھے ) ۔ محمد بن قاسم نے اعلان کیا کہ جو مسلمان بنے گا یا جزیہ ادا کرے گا اسے آزاد کیا جائے گا۔ اروڑ کو ایک مظبوط عالم پناہ ہوتی تھی جس کے اندر سے شہر والوں نے کئی ماہ تک فاتحوں کے ساتھ مقابلہ کیا مگر بالآخر (ایندھن وغیرہ ختم ہونے پر ) تنگ آکر کچھ شرطوں پر پیش ہوئے‘‘۔ اوپر والے بیان سے ثابت ہوتا ہے کہ سندھی عوام نہ اپنے حکمرانوں سے خائف تھی اور نہ ہی اپنا دفاع بھولی تھی ورنہ اگر وہ اپنے حاکموں سے خائف ہوتے تو کئی مہینوں تک قلعے میں مبحوسی کی حالت میں جنگ کیوں جاری رکھتے۔
سندھ کی تاریخ کی بدقسمتی یہ رہی ہے کہ اس کی مستندی کا انحصار ہمیشہ غیرسندھی لٹیروں اور ان کے ساتھاریوں کے مسودوں پر رکھا گیا ہے، جنہوں نے ظاہر ہے اپنے ان فاتح حملہ آوروں کو ہیرو لکھا جنہوں نے ہزارہا سال تک سندھ کی ہری بھری گود اجاڑی اور سندھیوں کاخون بہاکر لوٹ مار کی۔ ان کی دیکھا دیکھی اور پڑھا پڑھی ہمارے تحقیقی و تاریخی مقلدوں نے بھی ان کو امن کے پیغامبر اور انسانیت کے مسیحا لکھا۔ المیہ تو یہ ہے کہ جن لٹیروں نے اس سرزمینِ پاک کا ماس گدہوں کی طرح نوچا ہمارے تعلیمی اسباق و نساب میں بھی انہیں معتبر لکھ کر اس دھرتی کے بہادر سپوتوں کو غدار لکھا جاتا رہا ہے۔
اسی طرح سندھی تاریخ کے ہزارہا جیتے جاگتے کرداروں اور علاقوں کے بارے میں نہایت عجیب و غریب کہانیاں مشہور کی جاتی رہی ہیں جن میں سے بہت ساری اپنے اندر حقیقی عنصروں کے فقداان کے باوجود اب تک ہمارے کھوجی رویوں کی ناپیدگی اور قومی بے حسی کی بدولت مستندحوالوں میں شمار کی جاتی ہیں ۔ کبھی مہیں جو دڑو کی تباہی کو اس کے ظالم حاکم کے ظلموں کی بدولت تباہ و برباد بتایا جاتا ہے تو کہیں رنی کوٹ کو خارجی حملہ آوروں کا تعمیر کردہ۔ کہیں اپنی دھرتی کا دفاع کرنے والے راجہ داہر ، ہیموں کالانی اور روپلو کولہی کو منفی کردار بنا دیا جاتا ہے تو کہیں سندھ کے عاشق جی ایم سید جیسے پارسوں کو پتھر گنو ادیا جاتا ہے، توکہیں مورڑو میر بحر جیسے لازوال کردار کو ادب میں افسانوی حیثیت دے کر قومی بے حسی کا ثبوت دیا جاتا ہے ۔
اروڑ کے کھنڈرات۔
ایک دور میں اس شہرِ برباد کی عمارتوں ، محلاتوں اور قلعہ گاہوں کے کھنڈرات بہتر حالت میں پائے جاتے تھے مگر یہاں بھی وہی ہماری قومی بے حسی اور اپنے ماضی سے ذلت آمیر رحجانی سلوک کے باعث اروڑ کی سگردائی میں واقع دیہاتوں کے باشندے اپنے گھروں کی تعمیر کے لئے اس شہر کی تعمیرات کو توڑتے پھوڑتے سلیں ، در ، دیواریں ، دروازے ، برج، پتھر وغیرہ اکھاڑتے اکھاڑتے اپنے گھر بناتے رہے ۔ یہ کام نہ صرف عام لوگوں نے کیا بلکہ حاکموں نے بھی حسبِ توفیق اس شہر کی مردہ لاش کو نوچا اور کھسوٹا۔ مثال کے طور پر مرزا شاہ بیگ ارغون نے سکھر پر قبضہ کرنے بعد وہاں ایک قلعہ بنوانا شروع کیا تو اس نیک کام کے لئے اروڑ کی قلعہ گاہ کی سلیں اکھڑواکر وہاں کام میں لائی گئیں۔ یہاں پرمغل حکمران اورنگزیب عالمگیر کے دورِ حکومت میں بنی ہوئی دو مساجد کے کھنڈرات موجود ہیں جبکہ شکر گنج شاہ اور خنال الدین شاہ کی مزاریں بھی یہاں موجود ہیں۔
اروڑ کی تباہی۔
سندھ میں راءِ اور برہمن گھرانے کے راجاؤں کا دارالخلافہ اروڑتھا ۔ عربوں کے حملے وقت یہاں کے پر امن باشندوں نے بھاگنا شروع کیا ، ان میں سے جو کشتیوں میں بیٹھ کر چلتے بنے انہیں دریا کنارے جو جگہ اچھی لگی اپنا لنگر پھینک کر وہاں آبادہوگئے ۔ ان لوگوں میں سے کتنے ہی آج تک پنجاب کے مختلف علاقوں جیسا کہ کچھ بہاولپور اور اس کے پیچھے دریائے سندھ کے کناروں کے آس پاس بس گئے اور آج بھی اپنے آپ کو اروڑونسی یعنی اروڑ کے رہنے والے کہلواتے ہیں۔ ایک دور میں پنجاب میں بدامنی کی وجہہ سے اس خاندان کے بیشتر گھرانے وہاں سے بھی ہجرت کرکے کچھ راجپوتانہ چلے گئے ، کچھ سندھ واپس آگئے تو کچھ قلات طرف چلے گئے تھے۔
واثق خیال یہ ہے کہ راجادلوراءِ (۷۱۳ ھجری) کے زمانے میں جب دریائے سندھ نے اپنا رخ بدل دیا تھا تب نہ صرف یہ زرخیز علاقہ ویران ہوتا گیا بلکہ اس کی آبادی بھی آہستہ آہستہ نزدیکی شہر روہڑ ی منتقل ہوتی گئی جو پہلے تو ایک چھوٹا سا گاؤں تھا مگر اروڑ سے ہجرت کرنے والوں کی بدولت ایک اچھا خاصا شہر بن گیا اور جہاں اروڑ کا زبردست شہر ہوا کرتا تھا وہاں اب اسی نام کا نہایت محدود آبادی والا ایک چھوٹا سا گاؤں موجود رہ گیا۔
سندھ کی ایک مستند کتاب تاریخ طاہر ی میں اروڑ کی تباہی سے متعلق کہانی کچھ اس طرح لکھی ہوئی ہے کہ ’’ الور اور محمد طور کے درمیاں جو علاقہ ہوتا تھا اس کا حاکم راجا دلو راءِ بڑاظالم، جابر اور زانی تھا، اپنی سیاہ کاریوں کی بدولت اس نے خلقِ خدا کو ہر طرح سے تکلیفیں پہنچاکر انسانیت کو پائمال کیاتھا، وہ ہر رات نہ صرف کسی نہ کسی کنواری لڑکی کے ساتھ ہم بستری کیا کرتا تھا بلکہ خوبصورت عورتوں کو زبردستی اٹھواکر اپنی ہوس کاری مٹاتا رہتا تھا۔ اس کے کالے کرتوتوں کے سبب ہی قدرت نے شدید احتجاج کرکے اروڑ کے شہر پر عذاب نازل کردیا ۔ راجا کے انتظامی ہرکارے ہندستان سے دیبل جانے والے مال بردارجہازوں کے سوداگروں سے مال کی قیمت کاآدھا محصول لے لیا کر تے تھے۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ سیف الملوک نامی ایک سوداگرہندستان سے حج کا ارادہ لئے سرزمینِ مکہ کی طرف گامزن تھاجس کی بیوی بدیع الجمال بہت خوبصورت ہوا کرتی تھی اس لئے راجا کے اہلکار حیلے بہانوں سے اسکو اپنے آقا کے پاس پہنچانے کی کوششیں کرنے لگے ۔ سیف الملوک دلوراء کے بارے میں جانتا تھا اس لئے ان سے سوچ کر فیصلے کرنے کے لئے تین دنوں کی مہلت مانگی ۔ تین دنوں کے عرصے میں اس نے سینکڑوں کاریگروں سے مہران (دریائے سندھ) پر پتھروں سے ایک بند بندھوایا جس سے اس دریا نے موجودہ سکھراور سیوہن کا رخ اختیار کیا یوں اروڑویران ہوگیا۔
گوکہ اس حقیقت سے انکار نہیں ہے کہ ہاکڑو دریائے سندھ کی ایک شاخ تھی جس پر اروڑ، امر کوٹ اور پارینگر بندرہوا کرتے تھے جو بعد میں خشک ہوگئے۔ مگر دلوراءِ اور سیف الملوک والی کہانی عقلی بنیادوں پر تسلیم نہیں کی جا سکتی کہ اس نے دریائے سندھ پر تین دن میں بند بندھوایاہوگاکیونکہ دریائے سندھ کے زبردست پانی اور اس کی منہہ زور موجوں میں تین دن کے اندر بند باندھنا آج کے جدید مشینی دور میں بھی ناممکن ہے ۔ سال ۲۰۰۷ع میں لاڑکانہ اور خیرپور ضلع کا فاصلہ گھٹانے کے لئے مہیں جو ڈرو کے نزدیک دریائے سندھ پرپل بنانے کا ٹینڈر ہوا مگردن رات اس پر کام چلنے ، بے انتہادولت و ثروت ہزارہا ماہروں ، انجنیئروں اورمزدوں کے دستیابی کے باوجود آج دو سال گزرجانے کو ہیں مگر ابھی تک وہ پل مکمل نہیں ہو سکی اور کام ابھی تک جاری ہے تو سیف الملوک تین دن راتوں میں کیا کرسکتا تھا۔
اور پھر جب سیف الملوک کوتین دن مہلت ملی تھی تو اسے بند باندھنے کی کیا ضرورت تھی اسے تو مکہ یا پھر اپنے سسرال کی طرف رفو چکر ہوجانا چاہیے تھا ، اس سے ثابت ہو تا ہے کہ سندھ کی تاریخ میں اس قسم کی افسانوی کہانیوں کی کیا حیثیت ہے۔ واضع رہے یہ ۱۲۲۱ع کا وہ زمانہ تھا جبکہ کچھ کتابوں میں لکھا ہے کہ سیف الملوک نے ۹۴۶ع میں مہران پر بند باندھا تھا)۔ سیف الملوک اس کی بیوی شہزادی بدیع الجمال لس بیلہ کے حاکم کی شہزادی تھی جس کا تختگاہ شہر روغان لس بیلہ سے نو میل شمال طرف پورالی ندی کی ایک پہاڑی ٹکری پر واقع تھا جو تقریباً ڈیڑھ سو فٹ اونچی تھی جبکہ سیف الملوک ایک خوبصو رت و ذہین عرب(مصری) سوداگر تھا۔ کچھ تاریخی کتابیں اس کی قومیت مصری بتاتی ہیں تو کچھ ہندستانی، جیسا کہ تاریخ طاہری نے لکھا ہے مگر یہ بات طۂ ہے کہ وہ ہندستان کا باشندہ نہیں بلکہ جزیرۃ العرب سے متعلق تھا۔
جہاں تک اس شہر پر خدائی عذاب اترنے کاتعلق ہے اس کی جو نشانیاں ہمیں تاریخ میں ملتی مجھے یا میرے ساتھیوں کو اروڑ کے آثاروں میں کہیں بھی نظر نہیں آئیں کیونکہ میں نہ صرف مختلف اوقات میں چار مرتبہ ان کھنڈرات بین الاقوامی کھوجی ٹیموں کے ساتھ آیا گیا ہوں بلکہ کئی دن رات دلو راءِ کے اس دیس کے مہمان بھی بنا رہا ہوں۔
Travels to Bokhara and a Voyage on the Indus A. Burnes.
-Empire in Asia. W.M. Torrens.
A bridgement of the History of India. J.C. marsham.
Memoirs on Sindh. Del Hoste.
A Visit to the Court of Sind in 6261. james. Burns.
Medieval India. Stanely lane Poole
The Chachnamah. Mirza Kalich beg.
Gazetteer of the Province of Sindh. E.H. Aitken.
تحفۃ الکرام۔ میر علی شیر قانع۔
ہفت اقلیم۔ امین احمد رازی۔
تاریخِ افغانستان۔ جمال الدین افغانی۔
الکامل فی التاریخ۔ علامہ عزالدین علی ۔
سندھ نامہ ۔ اصغر سندھی۔
عرب و ہند کے تعلقات۔ سید سلیمان ندوی۔
چچ نامہ۔ْ فریدون بیگ۔
سندھ کے ہندؤں کی تاریخ۔ بھیرو مل مہر چند آڈوانی۔
قدیم سندھ بھیرومل مہر چند آڈوانی۔
ماخذ
http://asifrazamorio.com.pk/قدیم-سندھ-کا-عظیم-شہر،-اروڑ۔/
آخری تدوین: