اقتباسات قدرت اللہ شہاب کی کتاب "شہاب نامہ " سے اقتباس 2

سید زبیر

محفلین
ایک روز مسٹرجی احمد ُ{سیکرٹری اطلاعات }نے مجھے اپنے کمرے میں بلایا ان کے پاس ایک ادھیڑ عمر کا موٹا سا امریکی بیٹھا تھامسٹر جی احمد نے کہا یہ ہمارے معزز مہمان ہیں میں انہیں سٹاف کار میں اپنے ساتھ لے جا کر کراچی کی سیر کرا لاؤں کار میں بیٹھ کر میں نے یونہی اخلاقاً اس کا اسم شریف دریافت کیا تو بگڑ گیا بڑی تیزی سے بولا "تمہیں میرے نام سے کیا واسطہ ؟" " اس سے گفتگو میں آسانی ہوگی" میں نے وضاحت کی ۔ "گفتگو کون کرنا چاہتا ہے " امریکن نے غصے سے کہا "خیر تمہیں اتنا ہی اصرار ہے تو مجھے ہنری کہہ کر پکار سکتے ہو " کچھ دیر خاموشی کے بعد میں نے دوسری غلطی یہ کی کہ اس سے پوچھ بیٹھا "کیا آپ صحافی ہیں ؟" "مائیند یور اون بزنس" ہنری نے چڑ کر کہا۔ اس کے بعد ہم دونوں لب بستہ ہوکر بیٹھ گئے ہنری کے اشارے پر ہماری کار پہلے امریکی سفارتخانے گئی مجھے کار میں چھوڑ کر وہ اندر چلا گیا اور کوئی ایک گھنٹے کے بعد واپس آیا اب اس کے ساتھ ایک اور امریکی بھی تھا وہ دونوں پچھلی سیٹ پر بیٹھ گئے اور مجھے اگلی سیٹ پر ڈرائیور کے ساتھ بیٹھنے کا حکم دیا دوسرا امریکن غالباً سفارت خانے میں کام کرتا تھا کیونکہ وہ کراچی شہر سے بخوبی واقف تھا اس کی ہدائت پر ڈرائیور نے ہمیں کلفٹن ، کیماڑی ،بندر روڈ ، ہاکس بے ، اور سینڈزپٹ کی سیر کرائی میری موجودگی کو یکسر نظر انداز کرکے دنوں امریکی آپس میں مزے مزے کی خوسش گپیاں کرتے رہےان کی گفتگو سے صرف ایک بات میرے پلے پڑی وہ یہ کہ امریکہ پاکستان کو گندم کی امداد دے رہا ہے جب یہ گندم کراچی پہنچے گی تو جن اونٹ گاڑیوں پر لاد کر بندرگاہ سے نکالی جائے گی ان اونٹوں کے گلے میں "تھینک یو امریکہ "کی تختی آویزاں کی جائے گی ۔یہ احمقانہ تجویز سن کر مجھے غصہ بھی آیا رنج بھی ہوا شرم بھی آئی اُس وقت تو میں چپ رہا لیکن اگلے روز سیدھا مسٹر جی احمد کے پاس جا کر انہیں ساری روئداد سنا ڈالی جب میں نے اونٹوں کے گلے میں تختیاں لٹکانے کا مذاق اُڑایا تو مسٹر جی احمد یکا یک سنجیدہ ہو گئے اور گرجدار آواز میں بولے "تمہیں اس میں کیا حرج نظر آتا ہے ؟" میں نے اس تجویز کے خلاف ایک چھوٹی سی سنجیدہ تقریر کی تو مسٹر جی احمد کے چہرے پر بناوٹی کٹھ ہنسی کا تبسم لہرایااور انہوں نے طنزاً کہا گندم مانگ کر کھانے میں تو کوئی برائی نہیں لیکن شکریہ ادا کرنے کا برا مناتے ہو " ۔ "نہیں سر ،ہم تو کوئی برا نہیں مناتے لیکن شائد اونٹ برا مان جائیں" گرما گرمی ی لپیٹ میں آکر میں ے بھی تُرکی بہ تُرکی جواب دیا ۔ غالباًیہ بات مجھے اس طرح نہیں کہنی چاہئیے تھی کیونکہ اس نے میری ذات کو مسٹر جی احمد کے دماغ کے اس کابک میں بٹھا دیا جہاں پولیس والے نا پسندیدہ افراد کو رکھنے کے عادی ہیں​
یوں بھی اس زمانے میں ماحول کا رنگ کچھ ایسا بنتا جارہا تھا کہ امریکنوں کی کسی خفیف الحرکتی پر معمول سا جائز اعتراض بھی بڑی آسانی سے غیر حب الوطنی ے کھاتے میں ڈال دیا جاتا تھا
۔ایک روز میری ڈیوٹی لگی کہ میں امریک صحافیوں کے ایک گروپ کے ساتھ مغربی پاکستان کے دورے پر جاؤں دورہ بڑا کامیاب رہا ہم لاہور ، راولپنڈی ،پشاور اور طورخم تک گئے ہر جگہ مقامی حکام نے بڑی خاطر و مدارت کی صحافی بڑے بڑے خوش خوش واپس آئے کراچی پہنچ کر گروپ کےلیڈرنے مجھے ایک سو ڈالر کا نوٹ پیش کیا ۔میں نے شکریے کے ساتھ نوٹ واپس کردیا اور کہا کہ ٹپ کے حقدار تو ہوٹلوں کے بیرے اور خدمت گار ہوتے ہیں ایک سرکاری ملازمکو ٹپ کی پیشکش کرنا اس کے لیے عزت کا باعث نہیں گروپ کے لیڈر نے تو کسی قدر جھینپ کر نوٹ واپس لے لیا چند روز بعد جب انہیں الوداع کہنے ائر پورٹ گیا تو انتظار مییں بیٹھ کر گروپ لیڈر نے س مسئلے پر میرے ساتھ سی قدر تفصیل سے گفتگوکی اس نے بتا یا کہ اب اس نے ٹپ ، بخشش اور نذرانہ کے فلسفے کو بخوبی سمجھ لیا ٹپ بیروں اور خدمت گاروں کو دیا جاتا ہے ،بخشش بھیک منگوں کے لیے مخصوص ہے ۔اور نذرانہ سرکاری ملازمین کا حق ہے اس نے بتایا کہ دو تین حضرات تو ان سے مانگ کر کچھ نذرانہ وصول کر چکے ہیں ایک صاحب نے تو اپنی کسی احتیاج کا رونا رو کر ان پر پانچ سو ڈالر کا تاوان لگایا لیکن کسی قدر مول تول کے بعد ایک سو ڈالر پر بڑی خیر سگالی سے معاملہ طے پا گیا امریکہ کی مضبوط کرنسی کے ساتھ ہماری نئی نئی آشنائی بڑی تازہ دم تھی ڈالر کی چکا چوند سے آنکھوں کا خیرہ ہونا تعجب کی بات نہیں ۔​
ٹپ ، بخشش اور نذرانہ کے اس تانے بانے نے بین الاقوامی ایڈ اور ٹریڈ کا وہ طلسماتی جال بننا تھا جس میں آج ہماری قوم کا بال بالک کروڑوں نھیں بلکہ اربوں روپے کے قرضہ میں بڑی بے کسی سے بندھا ہوا ہے ۔
ایک روز مسٹر جی احمد نے صبح سویرے مجھے گھر پر ٹیلیفون کیا کہ میں دفتر نہ آٍؤں بلکہ سیدھا ہوٹل میٹروپول چلا جاؤں وہاں پر حکومت کے ایک نہائت معزز اور اہم مہمان مسٹر مسٹر ہیکٹر بولیتھو ٹھہرے ہوئے تھے مين ان کے پاس جا کر ان کے آرام و آسائش کا پورا پورا خیال رکھوں ۔ہوٹل کے کمرے میں ایک بڑھاپے اور فربہی کی طرف مائل صاحب کسی قدر جھنجھلاہٹ کے عالم میں صوفے پر بیٹھے تھے ان کے پاس ایک خوش صورت نوجون بھی بیزار سا بیٹھا تھا جب میں نے انہیں بتایا کہ میں ان کی خدمت گزاری کے لیے حاضر ہوا ہوں تو نوجوان نے فوراً کہا " ٹھیک ہے تم جلدی سے ہمارے جوتے پالش کر ادو " بیرے کو بلانے کے لیے میںنے گھنٹی بجا نے کو اٹھا تو نوجوان نے بڑے غصے سے آواز بلند کرکے کہا "گھنٹی تو ہم خود بھی بجا سکتے تھے تمھارے آنے سے ہماری سہولت میں کیا اضافہ ہوا ؟"۔میں نے نہائت فرمانبرداری سے جوتے اٹھائے اور باہر آکر بیرے کو دیے کہ جلدی سے اچھی پالش کردے ۔جوتے پالش ہو گئے تو میں کمرے میں واپس آکر دوبارہ بیٹھنے ہی لگا تھا کہ نو جوان نے مجھے پھر جھڑک دیا کہ تمہارے یہاں بیٹھنے سے ہمارے کام میں حرج ہوتا ہے تمہیں بیٹھنا ہی ہے تو کہیں اور جا کر بیٹھو​
تبصرہ : کاش اس دور کی بیورو کریسی نے اپنی غلامانہ اور جابرانہ سوچ کی پرورش نہ کی ہوتی اپنے عمل کو ایک قوم کا عمل سمجھا ہوتا شائد انہیں حریت کے مطلب سے اشنائی ہی نہیں تھی ۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
بہت عمدہ اقتباس ہے سر۔ لاجواب۔۔۔ :) شہاب صاحب کی شخصیت تو شائد انکے سیاسی عہدوں کی وجہ سے بھلے متنازعہ رہی ہو۔ مگر انکی کتاب پر تمام لوگ ہی زبردست کی مہر لگاتے ہیں :)
 

باباجی

محفلین
تبصرہ : کاش اس دور کی بیورو کریسی نے اپنی غلامانہ اور جابرانہ سوچ کی پرورش نہ کی ہوتی اپنے عمل کو ایک قوم کا عمل سمجھا ہوتا شائد انہیں حریت کے مطلب سے اشنائی ہی نہیں تھی ۔
بالکل سچ ہے
 
Top