قتل کا منصوبہ۔مکمل کہانی۔ازشاہد بھائی

شاہد بھائی

محفلین
قتل کا منصوبہ
از شاہد بھائی
ربیکا ایک کمرے میں کھوئی کھوئی بیٹھی تھی۔ سوچوں کی سمندر میں غوطہ کھاتے ہوئے اسے تقریباً دو گھنٹے ہوچکے تھے ۔ کمرے میں موت کی سی خاموشی چھائی تھی اور ربیکاتنہا اس کمرے میں گہری سوچ میں ڈوبی ہوئی تھی ۔ تبھی کمرے کے دروازے پر دستک ہوئی اور چہکتا ہوا انسان اندر داخل ہوا:۔
”کہاں کھوئی ہوئی ہو میڈم “اندر داخل ہونے والی نے مسکرا کر پوچھا۔
”آج یقیناکوئی مجھے جان سے ماردے گا ریحان“ربیکا اب خوف زدہ نظرآرہی تھی۔
”تمہارے طرف آتا ہر تیر میرے سینے پہ ہوگا میری جان “ ریحان نے رمانوی انداز میں کہا۔
”کبھی تو سنجیدہ ہوجایا کرو ریحان……تم جانتے ہو میرا دشمن کون ہے ……اور اس نے ایک سال میر ے اوپرمسلسل میرے نظریں جمائے رکھی ہیں……مجھے اس ملک میں ہر کوئی اپنا دشمن نظر آرہا ہے …… تم سنجیدہ ہو کر میری بات پر دھیان کیوں نہیں دیتے “ربیکا تلملا کربولی۔
”میں فلحال کھانے پر دھیان دینا چاہتا ہوں اگر تمہاری اجازت ہو تو“ریحان کی چہرے پر شرارت تھی جس پر ربیکا جھلا کررہ گئی۔کھانا کھانے کےبعد ا ب انہیں آئیر پورٹ کی طرف نکلنا تھا۔ ریحان یہ بات اچھی طرح جانتا تھا کہ ربیکا کی جان خطرے میں ہے۔ اسی وجہ سے اس نے اس ملک کو چھوڑ نے کا فیصلہ کرلیا تھا اور ربیکا کے ساتھ ایک نئی دنیا میں اپنی زندگی بتانے کا خواب دیکھ رہا تھا۔ربیکا بھی یہ جانتی تھی کہ ریحان اسے اپنی جان سے بڑھ کر چاہتا ہے۔وہ اسے کچھ نہیں ہونے دے گا۔ربیکا کو اپنی جان کی فکر صرف اس وجہ سے تھی کیونکہ وہ اپنی باقی زندگی ریحان کے ساتھ گزارنا چاہتی تھی۔ہوٹل سے نکل کر وہ دونوں گاڑی میں بیٹھے ۔ گاڑی میں ان کا باڈی گارڈ بھی چوکس بیٹھا تھا۔ اس کا انتظام بھی ریحان ہی نے کیا تھا تاکہ کوئی ربیکا کی طرف غلط ارادے سے دیکھ بھی نہ سکے ۔ ڈرائیور نے گاڑی کے ریس پر پاؤ ں رکھا اور پھر گاڑی فراٹے بھرتی آئیر پورٹ کی طرف روانہ ہوگئی۔ جیسے ہی گاڑی ہوٹل سے نکلی، ہوٹل کے باہر کھڑا ایک شخص فکرمندی کے ساتھ اپنے ساتھ کھڑے دوسرے شخص کو دیکھ رہاتھا۔
”کام ہوگیا نہ“پہلے شخص نے جلدی سے پوچھا۔
” ہاں!……ڈرائیور کے دوستوں نےاسے اس قدر شراب پلا دی ہے کہ وہ راستے میں نشے میں جھومنےلگے گا ……اور پھر دھڑام !!!“دوسرے شخص نے مسکرا کر کہا۔دوسری طرف ریحان اور ربیکا گاڑی میں بیٹھے اپنے سہانے مستقبل کے خواب دیکھ رہے تھے جہاں وہ ایک پرفضا ماحول میں جھیل کے کنارے بیٹھے ناشتے کررہے ہیں۔ تبھی گاڑی سڑک پر جھومنے لگی۔ ڈرائیور پر گنودگی طاری ہوچکی تھی۔ وہ ریس دبائے جارہا تھا اور گاڑی لڑکھڑاتے ہوئے اَدھر اُدھر چکرارہی تھی۔گاڑی کے بالکل قریب موٹر سائیکل پربیٹھا ایک شخص خوف زدہ ہو کر یہ منظر دیکھ رہا تھا۔ اس نے واضح طور پر ڈرائیور کی آنکھیں نشے میں ڈوبی ہوئی دیکھ لیں تھیں۔ تبھی ایک زور دار آواز کے ساتھ گاڑی سڑک کے بالکل سامنے دیوار سے جاٹکرائی ۔ ربیکا اور ریحان کے منہ ایک دلدوز چیخ نکلی۔ ریحان نے فوراً اپنا جسم ربیکا کے آگے کردیا۔ دوسرے ہی لمحے ریحان کا سرگاڑی کے لوہے سے ٹکرایا ۔ اس کی منہ سے ایک دل دہلا دینے والی چیخ نکلی۔ دوسری طرف ربیکا نے بھی زخموں سے چور ہو کر بے ہوشی کے میدان میں قدم رکھ دیا۔ ان کے باڈی گارڈ کا سر بھی دیوار سے ٹکرا گیا تھا اور وہ مکمل طور پر بے سدتھا۔موٹر سائیکل پر بیٹھے شخص کے اوساں خطا ہو چکے تھے۔ اس نے فوراً موبائل نکالا اور ایمبولنس اور پولیس دونوں کو فون کردیا۔ چند لمحوں میں پولیس اور ایمبولنس دونوں وہاں موجود تھی۔پولیس کے جوانوں نے ربیکا اور ریحان کو نکالا تو چونک اُٹھے ۔ ریحان نے اپنا پورا وجود ربیکا کو بچانے میں صرف کردیا تھا لہٰذا اس جان لیوا حادثے میں پولیس صرف اس کی لاش ہی نکال سکی تھی۔ ڈرائیو ر اور باڈی گارڈ بھی موقع پر ہی جاں بحق ہوچکے تھے۔ البتہ ربیکا کی سانسیں چل رہی تھیں۔ پولیس نے بے ہوش ربیکا کو ایمبولنس میں ڈال دیااور ایمبولنس روانہ ہوگئی۔ اب پولیس انسپکٹر پریشان نظروں سے جائے حادثہ کو دیکھ رہا تھا۔
” اس قدر خطرناک حادثے کے بعد بھی ربیکا کا بچ جانا معجزے سے کم نہیں ہے……اب ہمیں کیا کرناچاہیے “انسپکٹر کی بات سن کر موٹرسائیکل والا شخص حیران سا رہ گیا۔
” جناب ! ……میں کچھ بتانا چاہتا ہوں……مجھے یہ حادثہ نہیں قتل لگتا ہے……ربیکا کوئی عام شخصیت نہیں بلکہ ملک کی جانی مانی اداکارہ ہیں……یقیناًان کے دشمن بھی ہونگے……میں نے حادثے کے وقت ڈرائیور کونشے میں دھت دیکھا ہے“موٹر سائیکل والے نے جلدی سے کہا۔اس کی بات سن کر انسپکٹر کے چہرے پر شدید پریشانی نظر آنے لگی ۔
” تم ذرہ حوالات چلو……اور کانسٹبل جائے حادثے پر اپنا کام کردینا“انسپکٹر نے معنی خیز لہجے میں کہا ۔ موٹر سائیکل والا سمجھا کہ انسپکٹر اس کا بیان لینے حوالات چلنے کا کہہ رہا ہے اور جائے حادثے سے کانسٹبل شواہد جمع کرئے گا لیکن ہوا اس کے بالکل الٹ۔ انسپکٹر نے موٹر سائیکل والے کو پولیس وین میں بیٹھایا اور راستے میں پستول پر سالینسر فٹ کرکے موٹر سائیکل والے پر تان دی۔
”یہ آپ کیا کررہے ہیں جناب……میرا قصور کیا ہے “موٹرسائیکل والا بری طرح بوکھلا گیا۔
”تمہارا قصور تمہاری آنکھیں ہیں……مرنے سے پہلے تمہیں پوری کہانی سنا کر تمہاری آخری حسرت بھی پوری کردیتا ہوں……اس قتل کی تیاری ایک سال سے کی جارہی تھی کیونکہ ایک سال پہلے ربیکا نے ایک ایسا بیان دیا تھا جس سے اس ملک کے احکام کی سالمیت خطرے میں پڑ گئی تھی……اسی لیے اس بیان کو عوام کی نظروں سے غائب کرنے کے بعد ربیکا کو اس دنیا سے غائب کرنا بہت ضروری تھا……لیکن ہر بار ہماری سامنے ایک ہی رکاوٹ تھی……ربیکا کا مجنوع ریحان……وہ اس پر کیے گئے ہر حملے پر سیسہ پلائی ہوئی دیوار ثابت ہوتا تھا……ربیکا پر کیے جانے والا قتل کاہر منصوبہ ریحان کی وجہ سے ہر بار ناکام ہورہا تھا……آخرکار ایک ہفتے پہلے حکام کی طرف سے ہمیں خاص ہدایات ملی کہ آج ہی رات ربیکا کے ساتھ ریحان کا بھی کام تمام کردیا جائے کیونکہ آج یہ دونوں اس ملک سےنکلنے کی تیاری کررہے تھے……لہٰذا کچھ لوگوں نے ان کی گاڑی کے ڈرائیور کے دوستوں سے رابطہ کیااور انہیں پیسے دے کر آج رات ڈرائیور کو خوب شراب پلانے کے لیے کہا……انہوں نے یہ کام کردیا اور اب تک ان کا بھی کام تمام کردیا گیاہوگا تاکہ یہ راز کبھی بھی اس ملک کی عوام تک نہ پہنچ سکے ……اور نہ ہی اس ملک کے باہر کے لوگوں تک جائے……اب تم چونکہ اس واقعے کےچشم دید گواہ ہو لہذا اب مرنے کی باری تمہاری ہے“یہ کہتے ہوئے انسپکٹر کے ہونٹوں پر مسکراہٹ ناچنے لگی۔اور پھراچانک!…… اس نے موٹرسائیکل والے شخص کے ٹھیک دل پر گولی چلا دی۔ وہ اس پوری کہانی کے سحر میں ڈوبا ہوا تھا اور اس اقدام کے لیے بالکل تیار نہیں تھا ۔لہٰذا دوسرے ہی لمحے وہ دوسری دنیا کا مہمان بن چکا تھا۔ یہاں جائے حادثہ پر انسپکٹر کے حکم کے مطابق کانسٹبل نے پانی کے ذریعے دھلائی کروادی تاکہ ہر طرح کے شواہدمٹ جائیں تاکہ کسی کو یہ اندازہ نہ ہو سکے کہ ڈرائیور نشے میں تھا اس لیے یہ حادثے ہوا اور اسے جان بوجھ کر شراب پلاکر اس قتل کا منصوبہ بنایا گیا۔دوسری طرف ایمبولنس میں زخمی ربیکا کو ہستپال لے جایا جارہا تھا لیکن ایمولنس بار بار رک رہی تھی۔ایمبولنس کے ڈرائیور کو خاص ہدایت کی گئی تھی کہ جب تک ربیکا کی شدید زخموں کی وجہ سے اور بہت زیادہ خون بہہ جانے کی وجہ سے جان نہ نکل جائے ایمبولنس ہسپتال نہیں پہنچے گی۔ اور ہوا بھی یہی !……تین گھنٹےکے سفر کے بعد جب ایمبولنس ہسپتال پہنچی تو ربیکا بہت پہلے دوسرے جہاں میں پہنچ چکی تھی۔ ڈاکٹر نے موت کا سرٹیکفیٹ جاری کردیا۔ پولیس نے اسے ایک حادثہ قرار دے کر فائل بند کردی۔ دوسرے دن کی نیوز میں اداکارہ ربیکا کے جان لیوا حادثے کی خبر کہرام مچارہی تھی۔ جبکہ یہاں اس کے دشمن اپنی کامیابی کا جشن منارہے تھے۔

٭٭٭٭٭
ختم شدہ

٭٭٭٭٭
 
آخری تدوین:
Top