قادیانیوں کی حیثیت : شرعی اعتبار سے

سید عاطف علی

لائبریرین
قادیانی اپنے مذہب کے حوالے سے کٹر بنیاد پرست لیکن دوسروں کیلئے لبرل یعنی نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ اہل مغرب چونکہ زیادہ تر لبرل سوچ کے حامل ہیں۔ اسلئے قادیانیوں کو وہاں مسلمانوں کے مقابلہ میں بہت پزیرائی ملتی ہے۔ اصل معاملہ وہی ہے کہ اہل مغرب قادیانیوں کی اندرونی بنیاد پرستی سے نا آشنا ہیں۔
ایسی دو رخی مصلحت اپنانے کی بھی کوئی وجہ ضرور ہوگی کٹربھی اور لبرل بھی ایں چہ بوالعجبی ست۔
 
ایسی دو رخی مصلحت اپنانے کی بھی کوئی وجہ ضرور ہوگی کٹربھی اور لبرل بھی ایں چہ بوالعجبی ست۔
یہ دو رخی ہر مذہب کے پیروکاروں میں موجود ہے اور سیکیولرز کی اخلاقی برتری کی ایک بڑی دلیل بھی ہے۔
ہر مذہب کے بنیاد پرست اپنے نفوذ کے علاقوں میں سیکیولرز سے نفرت کرتے ہیں اور دوسرے مذاہب کے ملکو آں میں سیکولرز کو پسند
ہمارے لئے انڈیا میں بی جے پی قابل نفرین ہے اور کانگریس زیادہ قابل قبول۔ اسی طرح مغرب میں مسلمانوں کو دائیں بازو کی جماعتیں بری لگتی ہیں اور بائیں بازو کی حلیف۔

ہر مذہب کے بنیاد پرست کو دوسرے مذہب کے بنیاد پرست سے زیادہ خطرہ ہے، با نسبت سیکیولر کے۔
 

جاسم محمد

محفلین
ایسی دو رخی مصلحت اپنانے کی بھی کوئی وجہ ضرور ہوگی کٹربھی اور لبرل بھی ایں چہ بوالعجبی ست۔
اپنے مذہبی عقائد میں کٹر پن دکھانا کوئی غیر معمولی بات نہیں۔ ہاں ساتھ میں دوسروں کیلئے نرم گوشہ بھی رکھنا شاید ان کے تبلیغی نظریہ کی وجہ سے ہے۔ یہ تو واضح ہے کہ مخالف فریق کے ساتھ سختی دکھا کر قادیانیت کی تبلیغ نہیں ہو سکتی۔
 

الف نظامی

لائبریرین
اپنے مذہبی عقائد میں کٹر پن دکھانا کوئی غیر معمولی بات نہیں۔ ہاں ساتھ میں دوسروں کیلئے نرم گوشہ بھی رکھنا شاید ان کے تبلیغی نظریہ کی وجہ سے ہے۔ یہ تو واضح ہے کہ مخالف فریق کے ساتھ سختی دکھا کر قادیانیت کی تبلیغ نہیں ہو سکتی۔
جعلی آئی ڈی بنا کر اردو محفل پر قادیانی لنک سپیمنگ کرنے سے بھی قادیانیت کی تبلیغ کی جاتی ہے جیسے کہ جاسم جعلی آئی ڈی سابقہ عارف کریم قادیانی کا شعار ہے۔
 
یہ دو رخی ہر مذہب کے پیروکاروں میں موجود ہے اور سیکیولرز کی اخلاقی برتری کی ایک بڑی دلیل بھی ہے۔
ہر مذہب کے بنیاد پرست اپنے نفوذ کے علاقوں میں سیکیولرز سے نفرت کرتے ہیں اور دوسرے مذاہب کے ملکو آں میں سیکولرز کو پسند
ہمارے لئے انڈیا میں بی جے پی قابل نفرین ہے اور کانگریس زیادہ قابل قبول۔ اسی طرح مغرب میں مسلمانوں کو دائیں بازو کی جماعتیں بری لگتی ہیں اور بائیں بازو کی حلیف۔

ہر مذہب کے بنیاد پرست کو دوسرے مذہب کے بنیاد پرست سے زیادہ خطرہ ہے، با نسبت سیکیولر کے۔
جمہوریت کی بات ہو تو بات اقلیت اکثریت پر ختم ہوتی ہے۔ سیکیولرازم کی تعریف کو دیکھیں تو یہ ایک اصول ہے جسے حکومتی اداروں سے مذہبی اثر کو ختم کرنا کہا جاتا ہے۔ یہ بھی سمجھا جاتا ہے کہ سیکیولرازم ماڈرانائزیشن کی طرف بڑھنے کے لیئے ایک تحریک کا کام کرتا ہے۔ لیکن جب بات نظریاتی مملکت کی ہوگی تو وہاں وہی نظریہ جاری ہوگا جس پر وہ ملک بنا ہے۔ جیسے ہندوستان کی تشکیل میں بنیادی اصول جو بیان کیا جاتا ہے وہ ہے تو سیکیولرازم لیکن زمینی حقائق کیا ہیں وہ ہندوستان والے ہی بہتر بتا سکتے ہیں ۔ ایسے میں وہاں مسلمانوں کا سیکیولرازم مانگنا ان کے حقوق می حفاظت کے لیئے ضروری نظر آتا ہے ۔ جبکہ پاکستان جیسے ممالک میں جن کی بنیاد ہی مذہبی نظریہ ہے وہاں سیکیولر نظریہ کی مانگ کرنا عملی طور پر نامعقول سمجھا جائے گا کیونکہ اسے ان کی اساس اور ان کے وجود کے نظریے کو ہی ختم کرنے کی کوشش سمجھا جائے گا۔
 

جاسم محمد

محفلین
ہر مذہب کے بنیاد پرست کو دوسرے مذہب کے بنیاد پرست سے زیادہ خطرہ ہے، با نسبت سیکیولر کے۔
سیکولر ممالک میں ہر اقسام کے بنیاد پرست لبرل ازم کی وجہ سے دھونس جما کررہتے ہیں۔ یہی کام وہ ان ممالک میں نہیں کرسکتے جہاں سیکولر، لبرل ازم کا فقدان ہے۔ کیونکہ وہاں مسلسل اکثریت -اقلیت کے مابین کھینچا تانی کا سا ماحول رہتا ہے۔ یہاں انڈیا کی مثال بھی خوب دی ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
ایسے میں وہاں مسلمانوں کا سیکیولرازم مانگنا ان کے حقوق می حفاظت کے لیئے ضروری نظر آتا ہے ۔
قادیانی پاکستان میں اسی بنیاد پر سیکولرازم کا نفاذ چاہتے ہیں کیونکہ پاکستان میں وہ ہندوستان کے مسلمانوں کی طرح اقلیت ہیں۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
اپنے مذہبی عقائد میں کٹر پن دکھانا کوئی غیر معمولی بات نہیں۔ ہاں ساتھ میں دوسروں کیلئے نرم گوشہ بھی رکھنا شاید ان کے تبلیغی نظریہ کی وجہ سے ہے۔ یہ تو واضح ہے کہ مخالف فریق کے ساتھ سختی دکھا کر قادیانیت کی تبلیغ نہیں ہو سکتی۔
لگتا ہے یا تو آپ کٹر پن نہیں جانتے یا نرم گوشے سے ناواقف ہیں۔ ان میں سے ایک چیز ضرور ہے ۔
 
جمہوریت کی بات ہو تو بات اقلیت اکثریت پر ختم ہوتی ہے۔ سیکیولرازم کی تعریف کو دیکھیں تو یہ ایک اصول ہے جسے حکومتی اداروں سے مذہبی اثر کو ختم کرنا کہا جاتا ہے۔ یہ بھی سمجھا جاتا ہے کہ سیکیولرازم ماڈرانائزیشن کی طرف بڑھنے کے لیئے ایک تحریک کا کام کرتا ہے۔ لیکن جب بات نظریاتی مملکت کی ہوگی تو وہاں وہی نظریہ جاری ہوگا جس پر وہ ملک بنا ہے۔ جیسے ہندوستان کی تشکیل میں بنیادی اصول جو بیان کیا جاتا ہے وہ ہے تو سیکیولرازم لیکن زمینی حقائق کیا ہیں وہ ہندوستان والے ہی بہتر بتا سکتے ہیں ۔ ایسے میں وہاں مسلمانوں کا سیکیولرازم مانگنا ان کے حقوق می حفاظت کے لیئے ضروری نظر آتا ہے ۔ جبکہ پاکستان جیسے ممالک میں جن کی بنیاد ہی مذہبی نظریہ ہے وہاں سیکیولر نظریہ کی مانگ کرنا عملی طور پر نامعقول سمجھا جائے گا کیونکہ اسے ان کی اساس اور ان کے وجود کے نظریے کو ہی ختم کرنے کی کوشش سمجھا جائے گا۔

ہر ملک اپنے جوہر میں ایک انتظامی بند و بست ہے۔ نظریہ کی تبدیلی سے اس کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ لوگوں کو ایک ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانے کے علاوہ اور کچھ نہیں۔

روس اشتراکی تھا، اب نہیں ہے۔ چین کا نظام بدل رہا ہے۔
مسلمانوں کے بہت سے ممالک ہیں۔

دوسری بات یہ ہے کہ بات مانگ کرنے کی نہیں ہوُ رہی تھی بلکہ اشارہ یہ تھا کہ کس طرح مذہبی بنیاد پرست ہر ملک و مذہب کے، منافقت کا شکار ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
لگتا ہے یا تو آپ کٹر پن نہیں جانتے یا نرم گوشے سے ناواقف ہیں۔ ان میں سے ایک چیز ضرور ہے ۔
قادیانیوں کا نعرہ ہے"محبت سب سے نفرت کسی سے نہیں"
یہ محض فریب اور دھوکہ ہے۔ دوسروں کی آنکھوں میں دھول جھونکے کے مترادف۔ قادیانی جماعت کے اندر اٹھنے والی ہر تنقید کو سختی سےساتھ دبایا جاتا ہے۔ اور زیادہ شور کرنے والے کو لات مات کر جماعت بدر کر دیتے ہیں۔ بیشک وہ پیدائشی ہو، یا جماعت میں بہت اعلیٰ مقام پر فائز ہو۔ اس کی بالکل پرواہ نہیں کی جاتی۔ نیز قادیانیوں کے جعلی خلیفہ کی اندھی اطاعت اور تقلید ڈیمانڈ کی جاتی ہے۔ جو ایسا نہیں کرتا اسے اچھا قادیانی سمجھا نہیں جاتا۔ یہ قادیانیوں کے کٹرپن کی چند مثالیں ہیں۔
جہاں تک نرم گوشے کا معاملہ ہے تو وہ صرف ان کے لئے ہے جو ابھی قادیانی نہیں ہوئے۔ یا زیر تبلیغ ہیں۔ یوں قادیانیوں کا عام مذہب سے زیادہ کلٹ والا معاملہ ہے۔ جو سخت قسم کی شخصیت پرستی کا شکار ہے۔ اور شرک کے زمرہ میں آتا ہے۔
 
ہر ملک اپنے جوہر میں ایک انتظامی بند و بست ہے۔ نظریہ کی تبدیلی سے اس کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ لوگوں کو ایک ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانے کے علاوہ اور کچھ نہیں۔

روس اشتراکی تھا، اب نہیں ہے۔ چین کا نظام بدل رہا ہے۔
مسلمانوں کے بہت سے ممالک ہیں۔

دوسری بات یہ ہے کہ بات مانگ کرنے کی نہیں ہوُ رہی تھی بلکہ اشارہ یہ تھا کہ کس طرح مذہبی بنیاد پرست ہر ملک و مذہب کے، منافقت کا شکار ہیں۔

یہ آپ کا نقطہ نظر ہے۔ اگر صرف انتظامی بندوبست کی ہی بات ہوتی تو سیکیولرازم یا مذہبی ریاست کا سوال ہی نہ اٹھتا۔ نہ تو انگریز ہندوستان سے جاتے نہ دنیا کے اکثر ممالک وجود میں آتے۔ بلکہ ہر ملک میں ایک نظریہ چاہے وہ کسی مذہب کے زیر اثر ہو یا مذہب سے آزادی کی خواہش کے زیر اثر ہو یا کسی نسلی گروہ سے قربت یا دوری کی بناء پر ہو یا کسی زبان سے وابستگی کی بناء پر ہو ضرور ہے جس کی بناء پر وہ ملک بنا ہے اس سے نکل کر یا اس کے علاوہ تو وہاں کوئی قانون ہی نہیں بن سکتا۔ چہ جائیکہ اسے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگنا کہا جائے
کیا سیکیولر ہندوستان میں گاؤ کشی کے خلاف قوانین نہیں ہیں ۔ کیا وہ سیکیولرازم کی تعریف پر پورا اترتے ہیں۔؟
کیا امریکہ میں خدا پر یقین اسکی کئی ریاستوں کے آئین کا بنیادی حصہ نہیں ہے۔ تو کیسا سیکیولر ازم ۔۔؟؟ کیا سیکیولرازم مذہب اور ریاست کو الگ الگ نہیں کرتا۔۔؟؟
منافقت کے لیئے صرف مذہبی ہی کیوں لبرل۔ملحد۔سیکیولر بھی اس میں برابر کے بلکہ شاید کچھ زیادہ ہے مجرم ہیں
 
قادیانیوں کا نعرہ ہے"محبت سب سے نفرت کسی سے نہیں"
یہ محض فریب اور دھوکہ ہے۔ دوسروں کی آنکھوں میں دھول جھونکے کے مترادف۔ قادیانی جماعت کے اندر اٹھنے والی ہر تنقید کو سختی سےساتھ دبایا جاتا ہے۔ اور زیادہ شور کرنے والے کو لات مات کر جماعت بدر کر دیتے ہیں۔ بیشک وہ پیدائشی ہو، یا جماعت میں بہت اعلیٰ مقام پر فائز ہو۔ اس کی بالکل پرواہ نہیں کی جاتی۔ نیز قادیانیوں کے جعلی خلیفہ کی اندھی اطاعت اور تقلید ڈیمانڈ کی جاتی ہے۔ جو ایسا نہیں کرتا اسے اچھا قادیانی سمجھا نہیں جاتا۔ یہ قادیانیوں کے کٹرپن کی چند مثالیں ہیں۔
جہاں تک نرم گوشے کا معاملہ ہے تو وہ صرف ان کے لئے ہے جو ابھی قادیانی نہیں ہوئے۔ یا زیر تبلیغ ہیں۔ یوں قادیانیوں کا عام مذہب سے زیادہ کلٹ والا معاملہ ہے۔ جو سخت قسم کی شخصیت پرستی کا شکار ہے۔ اور شرک کے زمرہ میں آتا ہے۔
قادیانیوں کے کم و بیش بارہ فرقے ہیں جو آپس میں ایک دوسرے کو کافر کہتے ہیں اور ایک دوسرے سے میل ملاپ اور کوئی تعلق بھی نہیں رکھتے ۔ لندن والے مرزا مسروریے تو صرف ایک کلٹ ہے باقی کے گیارہ کلٹ بھی اسی ایک گروپ میں ہیں۔ کوئی سبز ہے۔ کوئی جنبی ہے۔ کوئی ناصری ہے۔ کوئی سلطانی ہے۔اور ہر ایک کا اپنا نبی ہے اور سب احمدیت کے دعوے دار
 
قادیانی پاکستان میں اسی بنیاد پر سیکولرازم کا نفاذ چاہتے ہیں کیونکہ پاکستان میں وہ ہندوستان کے مسلمانوں کی طرح اقلیت ہیں۔
پاکستان کی بنیاد سیکیولرزم نہیں ہے لہذا یہاں سیکیولرزم کی مانگ کرنا نامعقول سمجھا جاتا ہے کیونکہ یہ آپ کے نظریہ وجود اور ملکی آئین دونوں سے متصادم ہے
 
یہ آپ کا نقطہ نظر ہے۔ اگر صرف انتظامی بندوبست کی ہی بات ہوتی تو سیکیولرازم یا مذہبی ریاست کا سوال ہی نہ اٹھتا۔ نہ تو انگریز ہندوستان سے جاتے نہ دنیا کے اکثر ممالک وجود میں آتے۔ بلکہ ہر ملک میں ایک نظریہ چاہے وہ کسی مذہب کے زیر اثر ہو یا مذہب سے آزادی کی خواہش کے زیر اثر ہو یا کسی نسلی گروہ سے قربت یا دوری کی بناء پر ہو یا کسی زبان سے وابستگی کی بناء پر ہو ضرور ہے جس کی بناء پر وہ ملک بنا ہے اس سے نکل کر یا اس کے علاوہ تو وہاں کوئی قانون ہی نہیں بن سکتا۔ چہ جائیکہ اسے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگنا کہا جائے
کیا سیکیولر ہندوستان میں گاؤ کشی کے خلاف قوانین نہیں ہیں ۔ کیا وہ سیکیولرازم کی تعریف پر پورا اترتے ہیں۔؟
کیا امریکہ میں خدا پر یقین اسکی کئی ریاستوں کے آئین کا بنیادی حصہ نہیں ہے۔ تو کیسا سیکیولر ازم ۔۔؟؟ کیا سیکیولرازم مذہب اور ریاست کو الگ الگ نہیں کرتا۔۔؟؟
منافقت کے لیئے صرف مذہبی ہی کیوں لبرل۔ملحد۔سیکیولر بھی اس میں برابر کے بلکہ شاید کچھ زیادہ ہے مجرم ہیں

معاشرے، تہذیب، اور قانون کی سمت کے سوال تو ازل سے اٹھتے رہے ہیں اور آئندہ بھی اٹھتے رہیں گے۔ ان کا انتظامی بند و بست سے کوئی تعلق نہیں۔ ممالک کے آئین بدلتے رہے ہیں، اس سے ان کی حیثیت بدل نہیں گئی۔
ایران کسی زمانے میں سنی تھا، صفوی عہد میں شیعہ ہو گیا۔ اب شیعہ ازم اور سیکیولرزم میں بٹا ہوا ہے، ہو سکتا ہے مستقبل میں سیکیولر ہو جائے۔

کسی ملک کے وجود کیلئے نظریہ کی ضرورت کیا ہے؟ جب امیر معاویہ نے حضرت علی کے زمانے میں اپنی علیحدہ عملداری قائم کر لی تھی تو ان کے نظریات میں کیاُ فرق تھا؟

ہندوستان کی مغل سلطنت اور ایران کی سلطنت کے نظریے میں کیا فرق ہے؟

متحدہ عرب امارات اور سعودیہ کیوں علیحدہ ممالک ہیں؟ کیا ان جاب نظریہ مختلف ہے؟
 

جاسم محمد

محفلین
کسی ملک کے وجود کیلئے نظریہ کی ضرورت کیا ہے؟
ہر ملک کے وجود کے لئے نظریہ ضروری نہیں ہے۔انڈو پاک کی طرح یورپ بھی کسی زمانہ میں مختلف اقوام کا مجموعہ ہوا کرتا تھا۔ جو چار و ناچار "اکٹھے" رہتے تھے۔ اور آپس میں ہروقت لڑتے جھگڑتے رہتے۔ بالآخر پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے بعد ہوش کے ناخن لئے اور پورے بر اعظم کو نیشنل ازم یعنی قومیت کی بنیاد پر کافی حد تک صحیح تقسیم کر دیا۔ جس کے بعد سے اب تک یورپ امن کی زندہ تصویر ہے۔ جہاں ہر دوسرے سال خونریزی ہوتی۔ وہ امن و سلامتی و ترقی کا گہوارہ بن چکا ہے۔
ان کی تاریخ سے یہ سبق ملتا ہےکہ قومیت سے ہٹ کر ممالک کا پر امن وجود ناگزیر ہے۔ پاکستان کی بنیاد بطور نظریاتی ملک "مسلم نیشنل ازم" کے نام پر پڑی۔ جو کہ اپنی پیدائش کے وقت مختلف مسلم اقوام کا مجموعہ تھا۔ اس کا انجام یورپ کی طرح ہی ہوا اور 1971 میں بنگالی مسلم قوم پاکستانی فیڈریشن سے الگ ہو گئی۔ اس کے بعد سے مسلم بلوچ اور پختون اپنی اپنی آزادی کی تحریکیں چلا چکے ہیں۔ یا چلا رہے ہیں۔
بھارت کا نظریہ وجود گو کہ سیکولر تھا۔ آئین بھی سیکولر ہے۔ مگر مقامی ریاستوں کے قوانین جا بجا مذہبی آمیزش سے بھرے پڑے ہیں۔ بھارت میں بھی پاکستان کی طرح حریت پسند تحریکیں جگہ جگہ سر اٹھا چکی ہیں یا اٹھا رہی ہیں۔ کشمیر، آسام ، پنجاب وغیرہ کے حالات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔
پاکستان کی طرح اسرائیل بھی ایک نظریاتی سیاست ہے۔ جہاں بھانت بھانت اقوام کے یہود یکجا ہو کر ایک ملک میں رہ رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ صیہونی کسی صورت فلسطینی ریاست کا مطالبہ پورا نہیں کر سکتے۔ کیونکہ پاکستانی سیکولرازم کی طرح فلسطینیوں کو حقوق دینے پڑیں گے۔ جوکہ یہودی ریاست کی اساس اور اس کے نظریہ وجود کے خلاف ہے۔
 
Top