قاتل بھی کیوں نہ قتل پہ مجبور ہو وہاں (غزل برائے اصلاح)

صریر

محفلین
ہم صفیر کا استعمال زیادہ نہیں دیکھا ہو سکے تو ہمنوا کر دیں۔ جیسے کہ

"ہوں ساتھ ہمنوا کہ ہوں تنہائیاں صریر"
تخلص کی صوتی مشابہت کے اعتبار سے 'ہم صَفِیر ' اندر ونی قافیہ کے طور پر کام کررہا ہے، اس میں نغمگی زیادہ محسوس ہوتی ہے، اور یہ شعر اسی فضا کا متقاضی بھی ہے۔ سو آپ کا پہلا متبادل ہی بہتر لگتا ہے۔ ہم صفیر کوئی اتنی غریب ترکیب بھی نہیں لگتی،‌ علامہ صاحب نے بھی استعمال کی ہے۔

استاد محترم کی کیا رائے ہے؟
الف عین سر !
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
تخلص کی صوتی مشابہت کے اعتبار سے 'ہم صَفِیر ' اندر ونی قافیہ کے طور پر کام کررہا ہے، اس میں نغمگی زیادہ محسوس ہوتی ہے، اور یہ شعر اسی فضا کا متقاضی بھی ہے۔ سو آپ کا پہلا متبادل ہی بہتر لگتا ہے۔ ہم صفیر کوئی اتنی غریب ترکیب بھی نہیں لگتی،‌ علامہ صاحب نے بھی استعمال کی ہے۔

استاد محترم کی کیا رائے ہے؟
الف عین سر !
یقینا استاد صاحب کی رائے تو ہم حکم کے درجے میں گنتے ہیں :)
 

صریر

محفلین
غزل اصلاح کے بعد۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

قاتل بھی کیوں نہ قتل پہ مجبور ہو وہاں
ہر خوں کی چھینٹ پر جہاں بجتی ہوں تالیاں

رنگوں کے اختلاف میں الجھا کے باغ کو
ہر شاخِ گل پہ آگ لگاتا ہے باغباں

بربادئِ چمن کی یہ صورت عجیب ہے
یاں بجلیاں بھی گرتی ہیں چُن چُن کے آشیاں

دانا تھے وہ پرند، جو موقع سے اُڑ گئے
بیٹھا رہا قفس کو سمجھ کر میں آشیاں

یہ داستان غم ہے مِری، شاعری نہیں
قدرت کی اک عطا ہے، یہ انداز، یہ بیاں

ہوں ساتھ ہم‌ صفیر، کہ تنہائیاں صریر
کرتا رہوں گا آہ و بکا، نالہ اور فغاں
 
محفل فورم صرف مطالعے کے لیے دستیاب ہے۔
Top