قائد اعظمؒ کا تصور آئین

سید زبیر

محفلین
قائد اعظمؒ کا تصور آئین

بیسویں صدی میں عالمی سیاست کے فلک پر نامور رہنماؤں کی ایک کہکشاں جگمگارہی تھی اتاترک،چرچل،مہاتما گاندھی،گوربچوف،نیلسن مینڈیلا ،جمال عبدالناصر،روزویلٹ،ماؤزے تنگ نامی گرامی رہنما تھے۔مگر ان سب میں ہمارے قائد اعظمؒ ہی نمایاں نظر آتے ہیں۔سٹینلے ولپرٹ ’ جناح ان پاکستان‘ میں رقمطراز ہیں

’’چندنمایاں شخصیات نے تاریخ کا دھارا بدلا۔چند نے دنیا میں جغرافیائی تبدیلیاں کیں۔
معدودے چند نے قومی ریاست تشکیل دی جبکہ محمد علی جناح نے تینوں کام سرانجام دئیے۔‘‘
قائد اعظمؒ کی کامیابی کا رازان کی سچائی اور اخلاص میں پنہاں تھا قائد اعظمؒ کی زندگی کے کسی پہلو سے بھی ان کے منافقانہ کردار کی کوئی جھلک نظر نہیں آتی۔وہ نظریہ ضرورت کے تحت اپنے نظریات اور عقیدے کونہیں بدلا کرتے تھے انکی چالیس سالہ سیاسی زندگی میں انکے شدید مخالفین بھی کوئی واقعہ پیش نہیں کرسکتے جہاں انہوں نے مصلحت کی آڑ میں اصولوں سے انحراف کیا ہو۔یہی ایک سچے راسخ العقیدہ مسلمان کی شناخت ہے۔قائد اعظمؒ کاایمان پختہ اور عشق رسولﷺمسلمہ تھاآج ساٹھ سال گزرنے کے بعد بھی غیر ملکی نظریات و افکار کا غلام طبقہ نوجوان نسل کو یہ تعلیم دے کر گمراہ کر رہاہے کہ قائد اعظمؒ سیکولر نظریات کے حامی تھے اور وہ پاکستان کو سیکولر ریاست بنانا چاہتے تھے۔اگر ایسا ہوتا تو یقیناًوہ بر صغیر کے کروڑوں مسلمانوں سے منافقت اور بے وفائی کرتے جبکہ تاریخ ایسی کوئی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے قائد اعظمؒ الفاظ کی شعبدہ بازی نہیں کرتے تھے۔وہ اپنی رائے کا برملا اظہار کرتے تھے ۔جو کہتے تھے اس پر عمل بھی کرتے تھے ۔ان کی تقاریر پاکستان کے آئین کے بارے میں ان کے نظریات کی بھرپور عکاس ہیں انہوں نے واضح الفاظ میں مسلمان قوم کے متعلق کہا ہے

’’ہم اپنی نمایاں تہذیب،ثقافت،زبان،ادب،فنون،اخلاقی اقدار،ضابطہ و قانون،عادات غرضیکہ ہر بین الاقوامی مسلمہ اصولوں کے مطابق ایک جدا قوم ہیں‘‘۔
ایک دفعہ جب ان سے پاکستان کے قانون کے متعلق سوال کیا گیاتو انہوں نے نہائت برملا انداز میں قرآن کو پاکستان کا قانون کہا جسکے قوانین کو کوئی شخص جھٹلا نہیں سکتا۔ دسمبر1947 میں کراچی میں منعقدہ آل انڈیا مسلم لیگ کانفرنس کے اجلاس میں جب مولانا جمال میاں فرنگی محل نے سوال کیا کہ کیا پاکستان ایک مسلم ریاست کہلائے گا تو قائد اعظم ؒ نے زور دیتے ہوئے کہا
’’یہ بات واضح ہو جانی چاہئیے کہ پاکستان ایک اسلامی اصولوں پر قائم ایک مسلم ریاست کہلائے گا‘‘
کیا قائد اعظمؒ نے یہ بات صرف مسلمانوں کے جذبات و احساسات کے پیش نظر کہی تھی،کیا انہوں نے مسلمانوں کو ورغلانے کے لئیے کہی تھی،یہ قائد اعظمؒ پر ایک بہتان ہو گا در حقیقت انھوں نے بر صغیر کے کروڑوں مسلمانوں کی ترجمانی کی تھی۔14اگست1947 ؁ کو منتقلی اقتدار کی تقریب میں جب وائسرائے ہندلارڈ ماؤنٹ بیٹن نے مغل شہنشاہ اکبر کی مذہبی رواداری کی مثال دیتے ہوئے پاکستان کو اسکی پیروی کا مشورہ دیا تو قائد اعظمؒ نے برملا جواب دیا کہ
مسلمانوں کے پاس اس سے کہیں افضل مثال حضرت محمد ﷺ کی ہے اور وہی تعلیمات مغل شہنشاہ اکبرکے غیر مسلموں سے رواداری کا منبع ہیں۔ تیرہ سو سال قبل حضرت محمدﷺ نے نہ صرف غیر مسلموں کے ساتھ حسن سلوک کی تعلیم دی بلکہ عملی طور پر بھی مفتوح یہود ونصارا کے ساتھ مذہبی رواداری اور حسن سلو ک کی ایسی اعلیٰ ترین مثال قائم کی جسکی مثال تاریخ میں نہیں ملتی ۔تاریخ شاہد ہے کہ مسلمانوں نے جہاں بھی علاقے فتح کئے مفتوح اقوام سے انکا حسن سلوک مثالی رہا وہ انسانیت کے اعلیٰ و ارفع اصولوں کے پاسدار رہے اور ہمیں بھی اسکی پیروی کرنی چاہئیے۔
یقیناً14اگست 1947کو جب قائد اعظمؒ یہ الفاظ کہہ رہے تھے انہیں تین دن قبل یعنی 11اگست کو اپنا خطاب یاد ہوگا جسمیں انہوں نے پاکستان میں بلا تفریق مذہب و عقیدہ ہر شہری کو کاروبار ریاست میں مساوی حقو ق کی یقین دہانی کرائی تھی انہوں نے کہا تھا
’’آپ آزاد ہیں۔آپ اپنے مندر،مساجد اور اپنی عبادت گاہوں میں عبادت کیلئیے آزاد ہونگے۔خواہ آپ کا کسی نسل،مذہب یا عقیدے سے تعلق ہوآپ کو کاروبار مملکت میں مساوی حقوق حاصل ہونگے۔قانونی لحاظ سے سب شہر یوں کو مساوی حقوق حاصل ہونگے‘‘
قائد اعظمؒ کی نظر میںآئین پاکستان اسلام کے بنیادی اصولوں کا آئینہ دار ہوگا۔اسلام ہی نے ہمیں جمہوریت کی راہ دکھائی ا ور مساوت،رواداری ،انصاف اور ہر انسان کے ساتھ منصفانہ طرز عمل کی تعلیم دی اللہ کی نظر میں سب انسانوں کابرابر ہوناہی اسلام کا بنیادی اصول ہے۔25جنور1948 کراچی بار ایسوسی ایشن سے خطاب کرتے ہوئے قائد اعظمؒ نے فرمایا
’’حضرت محمدﷺ ایک عظیم استاد ،عظیم قانون دا ن اور عظیم حکمران تھے آپ ﷺ کاروبار سے حکمرانی تک ہر شعبہ ہائے زندگی میں کامیاب تھے تاریخ عالم میں آج تک حضرت محمدﷺ سے بڑھ کر کوئی کامیاب شخص نہیں گذراتیرہ سو سال قبل آپ نے جمہوریت کی بنیاد رکھی تھی ‘‘
خالقدینا ہال کراچی میں سول و فوجی افسران سے خطاب کرتے ہوئے قائد اعظم ؒ نے فرمایا
’’ میرا پختہ یقین ہے کہ ہماری کامیابی اور فلاح اسلام میں حضرت محمدﷺ جو عظیم قانون دان تھے کے مرتب کردہ سنہری اصولوں کو اپنانے میں پنہاں ہے آئیے کہ ہم اسلام کے سنہری اصولوں پر مبنی جمہوریت کی بنیاد رکھیں‘‘قائد اعظم ؒ کا تصور آئین نہائت واضح اور شفاف تھا جسمیں کسی قسم کے شکوک و شبہات نہیں تھے قائداعظمؒ آئین کو اسلامی روح کے مطابق دیکھنا چاہتے تھے قائداعظمؒ جو خود کو علامہ محمد اقبالؒ کا ادنیٰ سپاہی کہلانے میں فخر محسوس کرتے تھے قائداعظمؒ کی بصیرت پر علامہ محمد اقبالؒ کے افکار کا پرتو واضح نظر آتا ھے۔علامہ محمد اقبالؒ مذہب کے بغیر سیاست کو چنگیزیت سے تشبیہہ دیتے تھے قائداعظمؒ آئین پاکستان کو شخصی نظریات کے تابع نھیں دیکھنا چاہتے تھے دیگر تمام مہذب اقوام کی طرح عوام کی امنگوں اور خواہشات کا آئینہ دار دیکھنا چاہتے تھے ۔کسی بھی ملک کی ترقی،خودمختاری کے لئیے عوام میں ہم آہنگی اور یگانگت کا ہونا انتہائی ضروری امر ہے اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب آئین ملک کے ہر شہری کو یکساں اور مساوی حقوق عطا کرے ملک کا ہر شہری آئین کو اپنی خواہشات اور امنگوں کا آئینہ دار سمجھے جسمیں ہر شہری کی تقدیس مساوی ہو اگر یہ آئین ذہنی طور پر دیوالیہ افراد کے تابع ہو جائے کہ جب چاہیں اپنے مفاد میں آئین میں تبدیلی در تبدیلی،معطلی،منسوخی کا عمل جاری کردیں تو ایسا نظام ملک میں انارکی،بے چینی اور عدم استحکام کا باعث بنتا ہے اور ریاست عملاً نظریاتی غلام ریاست بن جاتی ہے
14جون1948 کو سٹاف کالج کوئٹہ میں فوجی افسران سے اپنے خطاب میں آئین اور آئین کے تحت حلف اٹھانے سے متعلق وضاحت کرتے ہوئے کہا

’’میں یہ کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ایک دو انتہائی اعلیٰ فوجی افسران سے گفتگو کے دوران مجھے اندازہ ہوا کہ وہ فوجیوں کے کے حلف وفاداری کی مقصدیت اور مفہوم سے نا آشنا ہیں میں اس موقعہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حلف نامہ پڑھ کر آپ کو یاد دلانا چاہتا ہوں آپ حلف لیتے ہیں کہ میں اللہ کو حاضر ناظر جان کر یہ عہد کرتا ہوں کہ میں آئین پاکستان اور مقتدر اعلیٰ پاکستان کا وفادار رہوں گا میں مکمل ایمان داری اور وفادار ی سے اپنے فرائض سر انجام دوں گااور یہ کہ مجھے افسران بالا بری،بحری اور فضائی راستوں سے جہاں فرائض کی انجام دہی کے لئے بھیجیں گے میں جاؤں گا۔قائد اعظم ؒ نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہامیں چاہوں گا کہ آپ نافذالعمل آئین کا مطالعہ کریں جب آپ آئین اور مقتدر اعلیٰ سے وفاداری کا عہد کرتے ہیں۔اسکی آئینی اور قانونی حیثیت کو سمجھیں میں آپ کو یاد دلانا چاہوں گا کہ آپ گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ کا مطالعہ کریں وہی ہمارا موجودہ آئین ہے کہ اقتدار اعلیٰ مملکت کے سربراہ گورنر جنرل سے نیچے کی طرف آتا ہے اور جو احکامات ریاست کے سربراہ کی جانب سے نہیں آتے ان کی تعمیل نہیں ہوگی یہ اس کی قانونی حیثیت ہے۔‘‘
25مارچ1948
کو حکومت کے افسران سے چٹاگانگ کو ان کی حیثیت یاد دلاتے ہوئے اپنے خطاب میں کہا
’’آپ کو ایک ملازم کی حیثیت سے اپنے فرائض سرانجام دینے ہیں آپ کا سیا ست اور سیاسی جماعتوں سے کوی سروکار نہیں۔یہ آپ کا کام نہیں ہے یہ سیاستدانوں کا ذمہ ہے کہ وہ کس طرح موجودہ اور مستقبل کے آئین میں رہتے ہوئے اپنے مقاصد کے حصول کی جنگ لڑتے ہیں جس سیاسی جماعت کو اکثریت حاصل ہو گی وہی حکومت بنائے گی آپ کی کسی سیاسی جماعت سے کوئی وابستگی نہیں ہونی چاہئیے آپ صرف قومی ملازم ہیں حکومت کی خدمت ایک خادم کی حیثیت سے کرنی چاہئیے۔ آپ کا تعلق حکمران طبقے سے نہیں بلکہ ملازمین کے طبقے سے ہے ‘‘
14اپریل1948کو گورنر ہاوس پشاور میں اعلیٰ سرکاری ملازمین سے خطاب کرتے ہوئے کہا
’’آپ کو کسی سیاسی جماعت کے ساتھ تعاون کرنے کی اجازت نہیں یہ آپ کا کام نہیں کہ آپ کسی سیاسی جماعت کی اعانت کریں آئین کے تحت قائم کردہ کوئی بھی حکومت ہو بلا تفریق کہ کون وزیراعظم ہے اور کون وزیر ہے آپ کی ذمہ داری نہ صرف مکمل وفاداری کے ساتھ ان کی خدمت کرنی ہے بلکہ بے خوف ہو کر خدمت کرنی ہے‘‘درحقیقت سرکاری ملازمین کا یہ تصور ہی عین اسلامی ہے کسی سرکاری اہلکار کو جانبداری کی اسلام قطعی اجازت نہیں دیتا بلکہ قابل تعزیر جرم تصورکیا جاتاہے۔تاریخ اسلامی میں ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں جب جانبداری کے جرم میں ریاست کے اعلیٰ ترین عہدیداروں کی تعزیر کی گئی۔کسی سرکاری ملازم کو خواہ اسکا تعلق گریڈایک سے ہو یا گرید بائیس سے یہ صوابدیدی اختیار کسی صورت میں حاصل نہیں کہ وہ جانبداری کا مظاہرہ کرے کسی بھی صورت میں کسی سرکاری اہلکارکاحکومت سازی کیلئیے کسی فریق کی اعانت کرنا ،سازشیں کرنا، نہ صرف غداری جیسا مکروہ فعل ہے بلکہ غیر اسلامی،غیرآئینی اور غیر اخلاقی جرم ہے حکومت ان ملازمین کو عوام کی خدمت کے لئے بھرتی کرتی ہے اور جس معاشرے میں یہ سرکاری ملازم حکمران بن جاتے ہیں ۔قوم کے خون پسینے کی کمائی سے ناجائز مراعات حاصل کرنے،ناجائز طور پر عہدوں اور مرتبوں کے حصول کے لئیے ذاتی خودی اور قومی حمیت کو قربان کر دیتے ہیں تو وہ قوموں کا ایک ایسا ناسور ہوتے ہیں جس کا اثر زائل ہونے کے لئیے کئی دہائیاں چاہیءں بظاہراً وہ اپنے آپ کو عظیم لوگوں کی صف میں شمار کرتے ہیں مگر در حقیقت وہ اپنے منافقانہ رویوں کے باعث پستی کی اتھاہ گہرئیوں میں گر چکے ہوتے ان کوتاہ اندیش اور کج بینوں کو اس حقیقت کا ادراک نہیں ہوتا کہ منافق کبھی عظیم انسان نہیں بن سکتا۔وہ صرف اور صرف منافق ہی رہتا ہے۔تاریخ انسانی ایسے منافقوں کے انجاموں سے بھری ہوئی ہے ۔قائداعظمؒ کو اس مفادپرست ٹولے کے عزائم کا بخوبی اندازہ تھا اسی لئیے اپنی تقاریر میں بار ہا انہیں متنبہ کیا۔اسی مقصد کے لئیے انہوں نے آئین ،جمہوری تصور اور سرکاری ملازمین کی آئینی حیثیت کو واضح کیا۔ قائداعظمؒ کو انکے اعلیٰ افکار کے باعث عالمی مفکرین نے نہائت خوبصورت انداز میں نذرانہ عقیدت پیش کیا۔بیورلے نکولس نے اپنی کتاب ’’ورڈکٹ آف انڈیا‘‘ میں قائداعظمؒ کو ایشیا کا اہم ترین فرد قرار دیا۔لیکن سب سے بہترین اور حقیقت کے بالکل قریب تاثرات ہندوستان کے سابق سکرٹری آف اسٹیٹ لارڈ پیتھک لارنس کے تھے کہ گاندھی جی کو ایک قاتل نے قتل کیا جبکہ قائداعظمؒ نے اپنی قوم کی خاطر جان کی قربانی دی۔اور یہ حقیقت ہے کہ قائداعظمؒ نے اپنی جان اور محنت سے حاصل کی ہوئی دولت اپنی قوم پر قربان کردی انہوں نے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو بتا دیا تھا کہ پاکستان قائم ہوگا اور ضرور قائم ہو گا کیونکہ یہی اللہ کی مرضی ہے ۔قائداعظمؒ اپنے زخمی پھیپھڑوں کے ساتھ آزادی کے لئیے جدوجہد کرتے رہے اسی جدو جہد کی خاطر وہ علاج کے لئیے وقت نہ نکال سکے۔انہیں اپنی قسمت میں لکھی گئی ذمہ د اری پورا کرنا تھی آزادی کا عظیم مقصد پورا ہوتے ہی انہوں نے بیماری کے سامنے ہتھیار پھینک دئیے ۔اب بہت وقت گزر چکا تھا۔بیماری اپنی جڑیں مضبوط کر چکی تھی۔قائداعظمؒ کو اپنے مقصد میں کامیابی کے بعد اب جینے کا کوئی مقصد نظر نہیں آرہا تھا نہ انہیں اقتدار کا لالچ تھانہ کبھی ایسی خواہش کی۔ انکے ذاتی معالج ڈاکٹر الٰہی بخش کو اس حقیقت کا احساس ہو گیا تھاکہ قائداعظمؒ نے اب جینے کی خواہش ترک کردی یہاں شیو لا ل کی کتاب ’’دی شی تغلق آف انڈیا‘‘ کا ذکر بے جا نہ ہوگا شیو لال لکھتے ہیں ’’یہ ایک اور تاریخی حقیقت ہے کہ جہاں بھارت کے دشمن نمبر ایک محمد علی جنا ح نے بھارت میں موجود اپنی تمام جائداد بمبئی کے اسکول ،ہسپتال کو وقف کردیں وہاں نہرو نے اپنی تمام منقولہ و غیر منقولہ جائدادمسز اندرا گاندھی کو منتقل کردی ‘‘ قائداعظمؒ نے اپنی وصیت کے مطابق اپنی دولت کا بیشتر حصہ مختلف رفا عی اداروں میں تقسیم کردیا۔وصیت کے مطابق 25000روپے انجمن اسلام بمبئی، 50000روپے بمبئی یونیورسٹی، 25000 روپے عریبک کالج دہلی،رہائشی جائداد کا ایک حصہ سندھ مدرسہ کراچی، ایک حصہ اسلامیہ کالج پشاورا ور بقیہ تیسرا حصہ علی گڑھ یونیورسٹی کو دیا گیا۔اور اس طرح ہمار ے قائداعظمؒ نے اپنی قوم پر جان و مال قربان کر دئیے
قائداعظمؒ کو اس حقیقت کا احساس تھا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں بر صغیر کے کروڑوں مسلمانوں کی آزادی جیسے مقدس فریضہ کیلئیے منتخب کیا ہے اس کا اظہار 17 اپریل 1948 کو گورنر ہاؤس پشاورمین جرگے سے خطاب میں کیا آپ نے فرمایا’’میں نے جو کچھ بھی کیا وہ اسلام کے ایک خادم کی حیثیت سے کیا اور اپنی قوم کی آزادی میں اپنی استطاعت کے مطابق ہر ممکن مددکی‘‘
یقیناً ایسے افراد ہی کے لئیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے

’’اے اطمینان والی روح ! اپنے پروردگار کی طرف چل۔اس طرح سے کہ تو اس سے خوش اور وہ تجھ سے خوش ۔تو میرے خاص بندوں میں شامل ہو جااور میری جنت میں داخل ہو جا ۔(الفجر۔26-27)۔۔۔۔
اللہ تعالیٰ قائداعظمؒ کو جنت ا لفر دو س میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے(آمین)
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
قائد اعظمؒ کا تصور آئین


14اپریل1948کو گورنر ہاوس پشاور میں اعلیٰ سرکاری ملازمین سے خطاب کرتے ہوئے کہا
’’آپ کو کسی سیاسی جماعت کے ساتھ تعاون کرنے کی اجازت نہیں یہ آپ کا کام نہیں کہ آپ کسی سیاسی جماعت کی اعانت کریں آئین کے تحت قائم کردہ کوئی بھی حکومت ہو بلا تفریق کہ کون وزیراعظم ہے اور کون وزیر ہے آپ کی ذمہ داری نہ صرف مکمل وفاداری کے ساتھ ان کی خدمت کرنی ہے بلکہ بے خوف ہو کر خدمت کرنی ہے‘‘
کوزے میں دریا بند کر دیا۔ اور کیا سننا چاہتے ہیں۔
اک حرف یا تین حرف :(
کاش کاش کاش! حقیقت اس کا عکس ہوتی برعکس نہ ہوتی۔:cry:
 

الف نظامی

لائبریرین
ان کی تقاریر پاکستان کے آئین کے بارے میں ان کے نظریات کی بھرپور عکاس ہیں انہوں نے واضح الفاظ میں مسلمان قوم کے متعلق کہا ہے
’’ہم اپنی نمایاں تہذیب،ثقافت،زبان،ادب،فنون،اخلاقی اقدار،ضابطہ و قانون،عادات غرضیکہ ہر بین الاقوامی مسلمہ اصولوں کے مطابق ایک جدا قوم ہیں‘‘۔



ایک دفعہ جب ان سے پاکستان کے قانون کے متعلق سوال کیا گیاتو انہوں نے نہائت برملا انداز میں قرآن کو پاکستان کا قانون کہا جسکے قوانین کو کوئی شخص جھٹلا نہیں سکتا۔ دسمبر1947 میں کراچی میں منعقدہ آل انڈیا مسلم لیگ کانفرنس کے اجلاس میں جب مولانا جمال میاں فرنگی محل نے سوال کیا کہ کیا پاکستان ایک مسلم ریاست کہلائے گا تو قائد اعظم ؒ نے زور دیتے ہوئے کہا
’’یہ بات واضح ہو جانی چاہئیے کہ پاکستان ایک اسلامی اصولوں پر قائم ایک مسلم ریاست کہلائے گا‘‘

کیا قائد اعظمؒ نے یہ بات صرف مسلمانوں کے جذبات و احساسات کے پیش نظر کہی تھی،کیا انہوں نے مسلمانوں کو ورغلانے کے لئیے کہی تھی،یہ قائد اعظمؒ پر ایک بہتان ہو گا در حقیقت انھوں نے بر صغیر کے کروڑوں مسلمانوں کی ترجمانی کی تھی۔14اگست1947 ؁ کو منتقلی اقتدار کی تقریب میں جب وائسرائے ہندلارڈ ماؤنٹ بیٹن نے مغل شہنشاہ اکبر کی مذہبی رواداری کی مثال دیتے ہوئے پاکستان کو اسکی پیروی کا مشورہ دیا تو قائد اعظمؒ نے برملا جواب دیا کہ
مسلمانوں کے پاس اس سے کہیں افضل مثال حضرت محمد ﷺ کی ہے اور وہی تعلیمات مغل شہنشاہ اکبرکے غیر مسلموں سے رواداری کا منبع ہیں۔ تیرہ سو سال قبل حضرت محمدﷺ نے نہ صرف غیر مسلموں کے ساتھ حسن سلوک کی تعلیم دی بلکہ عملی طور پر بھی مفتوح یہود ونصارا کے ساتھ مذہبی رواداری اور حسن سلو ک کی ایسی اعلیٰ ترین مثال قائم کی جسکی مثال تاریخ میں نہیں ملتی ۔تاریخ شاہد ہے کہ مسلمانوں نے جہاں بھی علاقے فتح کئے مفتوح اقوام سے انکا حسن سلوک مثالی رہا وہ انسانیت کے اعلیٰ و ارفع اصولوں کے پاسدار رہے اور ہمیں بھی اسکی پیروی کرنی چاہئیے۔
یقیناً14اگست 1947کو جب قائد اعظمؒ یہ الفاظ کہہ رہے تھے انہیں تین دن قبل یعنی 11اگست کو اپنا خطاب یاد ہوگا جسمیں انہوں نے پاکستان میں بلا تفریق مذہب و عقیدہ ہر شہری کو کاروبار ریاست میں مساوی حقو ق کی یقین دہانی کرائی تھی انہوں نے کہا تھا
’’آپ آزاد ہیں۔آپ اپنے مندر،مساجد اور اپنی عبادت گاہوں میں عبادت کیلئیے آزاد ہونگے۔خواہ آپ کا کسی نسل،مذہب یا عقیدے سے تعلق ہوآپ کو کاروبار مملکت میں مساوی حقوق حاصل ہونگے۔قانونی لحاظ سے سب شہر یوں کو مساوی حقوق حاصل ہونگے‘‘

قائد اعظمؒ کی نظر میں آئین پاکستان اسلام کے بنیادی اصولوں کا آئینہ دار ہوگا۔اسلام ہی نے ہمیں جمہوریت کی راہ دکھائی ا ور مساوت،رواداری ،انصاف اور ہر انسان کے ساتھ منصفانہ طرز عمل کی تعلیم دی اللہ کی نظر میں سب انسانوں کابرابر ہوناہی اسلام کا بنیادی اصول ہے۔25جنوری1948 کراچی بار ایسوسی ایشن سے خطاب کرتے ہوئے قائد اعظمؒ نے فرمایا
’’حضرت محمدﷺ ایک عظیم استاد ،عظیم قانون دا ن اور عظیم حکمران تھے آپ ﷺ کاروبار سے حکمرانی تک ہر شعبہ ہائے زندگی میں کامیاب تھے تاریخ عالم میں آج تک حضرت محمدﷺ سے بڑھ کر کوئی کامیاب شخص نہیں گذراتیرہ سو سال قبل آپ نے جمہوریت

کی بنیاد رکھی تھی ‘‘

خالق دینا ہال کراچی میں سول و فوجی افسران سے خطاب کرتے ہوئے قائد اعظم ؒ نے فرمایا
’’ میرا پختہ یقین ہے کہ ہماری کامیابی اور فلاح اسلام میں حضرت محمدﷺ جو عظیم قانون دان تھے کے مرتب کردہ سنہری اصولوں کو اپنانے میں پنہاں ہے آئیے کہ ہم اسلام کے سنہری اصولوں پر مبنی جمہوریت کی بنیاد رکھیں‘‘قائد اعظم ؒ کا تصور آئین نہائت واضح اور شفاف تھا جسمیں کسی قسم کے شکوک و شبہات نہیں تھے قائداعظمؒ آئین کو اسلامی روح کے مطابق دیکھنا چاہتے تھے قائداعظمؒ جو خود کو علامہ محمد اقبالؒ کا ادنیٰ سپاہی کہلانے میں فخر محسوس کرتے تھے قائداعظمؒ کی بصیرت پر علامہ محمد اقبالؒ کے افکار کا پرتو واضح نظر آتا ھے۔علامہ محمد اقبالؒ مذہب کے بغیر سیاست کو چنگیزیت سے تشبیہہ دیتے تھے قائداعظمؒ آئین پاکستان کو شخصی نظریات کے تابع نھیں دیکھنا چاہتے تھے دیگر تمام مہذب اقوام کی طرح عوام کی امنگوں اور خواہشات کا آئینہ دار دیکھنا چاہتے تھے ۔کسی بھی ملک کی ترقی،خودمختاری کے لئیے عوام میں ہم آہنگی اور یگانگت کا ہونا انتہائی ضروری امر ہے اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب آئین ملک کے ہر شہری کو یکساں اور مساوی حقوق عطا کرے ملک کا ہر شہری آئین کو اپنی خواہشات اور امنگوں کا آئینہ دار سمجھے جسمیں ہر شہری کی تقدیس مساوی ہو اگر یہ آئین ذہنی طور پر دیوالیہ افراد کے تابع ہو جائے کہ جب چاہیں اپنے مفاد میں آئین میں تبدیلی در تبدیلی،معطلی،منسوخی کا عمل جاری کردیں تو ایسا نظام ملک میں انارکی،بے چینی اور عدم استحکام کا باعث بنتا ہے اور ریاست عملاً نظریاتی غلام ریاست بن جاتی ہے
14جون1948 کو سٹاف کالج کوئٹہ میں فوجی افسران سے اپنے خطاب میں آئین اور آئین کے تحت حلف اٹھانے سے متعلق وضاحت کرتے ہوئے کہا
’’میں یہ کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ایک دو انتہائی اعلیٰ فوجی افسران سے گفتگو کے دوران مجھے اندازہ ہوا کہ وہ فوجیوں کے کے حلف وفاداری کی مقصدیت اور مفہوم سے نا آشنا ہیں میں اس موقعہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حلف نامہ پڑھ کر آپ کو یاد دلانا چاہتا ہوں آپ حلف لیتے ہیں کہ میں اللہ کو حاضر ناظر جان کر یہ عہد کرتا ہوں کہ میں آئین پاکستان اور مقتدر اعلیٰ پاکستان کا وفادار رہوں گا میں مکمل ایمان داری اور وفادار ی سے اپنے فرائض سر انجام دوں گااور یہ کہ مجھے افسران بالا بری،بحری اور فضائی راستوں سے جہاں فرائض کی انجام دہی کے لئے بھیجیں گے میں جاؤں گا۔قائد اعظم ؒ نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہامیں چاہوں گا کہ آپ نافذالعمل آئین کا مطالعہ کریں جب آپ آئین اور مقتدر اعلیٰ سے وفاداری کا عہد کرتے ہیں۔اسکی آئینی اور قانونی حیثیت کو سمجھیں میں آپ کو یاد دلانا چاہوں گا کہ آپ گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ کا مطالعہ کریں وہی ہمارا موجودہ آئین ہے کہ اقتدار اعلیٰ مملکت کے سربراہ گورنر جنرل سے نیچے کی طرف آتا ہے اور جو احکامات ریاست کے سربراہ کی جانب سے نہیں آتے ان کی تعمیل نہیں ہوگی یہ اس کی قانونی حیثیت ہے۔‘‘
25مارچ1948 کو حکومت کے افسران سے چٹاگانگ کو ان کی حیثیت یاد دلاتے ہوئے اپنے خطاب میں کہا
’’آپ کو ایک ملازم کی حیثیت سے اپنے فرائض سرانجام دینے ہیں آپ کا سیا ست اور سیاسی جماعتوں سے کوی سروکار نہیں۔یہ آپ کا کام نہیں ہے یہ سیاستدانوں کا ذمہ ہے کہ وہ کس طرح موجودہ اور مستقبل کے آئین میں رہتے ہوئے اپنے مقاصد کے حصول کی جنگ لڑتے ہیں جس سیاسی جماعت کو اکثریت حاصل ہو گی وہی حکومت بنائے گی آپ کی کسی سیاسی جماعت سے کوئی وابستگی نہیں ہونی چاہئیے آپ صرف قومی ملازم ہیں حکومت کی خدمت ایک خادم کی حیثیت سے کرنی چاہئیے۔ آپ کا تعلق حکمران طبقے سے نہیں بلکہ ملازمین کے طبقے سے ہے ‘‘
14اپریل1948کو گورنر ہاوس پشاور میں اعلیٰ سرکاری ملازمین سے خطاب کرتے ہوئے کہا
’’آپ کو کسی سیاسی جماعت کے ساتھ تعاون کرنے کی اجازت نہیں یہ آپ کا کام نہیں کہ آپ کسی سیاسی جماعت کی اعانت کریں آئین کے تحت قائم کردہ کوئی بھی حکومت ہو بلا تفریق کہ کون وزیراعظم ہے اور کون وزیر ہے آپ کی ذمہ داری نہ صرف مکمل وفاداری کے ساتھ ان کی خدمت کرنی ہے بلکہ بے خوف ہو کر خدمت کرنی ہے‘‘درحقیقت سرکاری ملازمین کا یہ تصور ہی عین اسلامی ہے کسی سرکاری اہلکار کو جانبداری کی اسلام قطعی اجازت نہیں دیتا بلکہ قابل تعزیر جرم تصورکیا جاتاہے۔تاریخ اسلامی میں ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں جب جانبداری کے جرم میں ریاست کے اعلیٰ ترین عہدیداروں کی تعزیر کی گئی۔کسی سرکاری ملازم کو خواہ اسکا تعلق گریڈایک سے ہو یا گرید بائیس سے یہ صوابدیدی اختیار کسی صورت میں حاصل نہیں کہ وہ جانبداری کا مظاہرہ کرے کسی بھی صورت میں کسی سرکاری اہلکارکاحکومت سازی کیلئیے کسی فریق کی اعانت کرنا ،سازشیں کرنا، نہ صرف غداری جیسا مکروہ فعل ہے بلکہ غیر اسلامی،غیرآئینی اور غیر اخلاقی جرم ہے حکومت ان ملازمین کو عوام کی خدمت کے لئے بھرتی کرتی ہے اور جس معاشرے میں یہ سرکاری ملازم حکمران بن جاتے ہیں ۔قوم کے خون پسینے کی کمائی سے ناجائز مراعات حاصل کرنے،ناجائز طور پر عہدوں اور مرتبوں کے حصول کے لئیے ذاتی خودی اور قومی حمیت کو قربان کر دیتے ہیں تو وہ قوموں کا ایک ایسا ناسور ہوتے ہیں جس کا اثر زائل ہونے کے لئیے کئی دہائیاں چاہیءں بظاہراً وہ اپنے آپ کو عظیم لوگوں کی صف میں شمار کرتے ہیں مگر در حقیقت وہ اپنے منافقانہ رویوں کے باعث پستی کی اتھاہ گہرئیوں میں گر چکے ہوتے ان کوتاہ اندیش اور کج بینوں کو اس حقیقت کا ادراک نہیں ہوتا کہ منافق کبھی عظیم انسان نہیں بن سکتا۔وہ صرف اور صرف منافق ہی رہتا ہے۔تاریخ انسانی ایسے منافقوں کے انجاموں سے بھری ہوئی ہے ۔قائداعظمؒ کو اس مفادپرست ٹولے کے عزائم کا بخوبی اندازہ تھا اسی لئیے اپنی تقاریر میں بار ہا انہیں متنبہ کیا۔اسی مقصد کے لئیے انہوں نے آئین ،جمہوری تصور اور سرکاری ملازمین کی آئینی حیثیت کو واضح کیا۔ قائداعظمؒ کو انکے اعلیٰ افکار کے باعث عالمی مفکرین نے نہائت خوبصورت انداز میں نذرانہ عقیدت پیش کیا۔بیورلے نکولس نے اپنی کتاب ’’ورڈکٹ آف انڈیا‘‘ میں قائداعظمؒ کو ایشیا کا اہم ترین فرد قرار دیا۔لیکن سب سے بہترین اور حقیقت کے بالکل قریب تاثرات ہندوستان کے سابق سکرٹری آف اسٹیٹ لارڈ پیتھک لارنس کے تھے کہ گاندھی جی کو ایک قاتل نے قتل کیا جبکہ قائداعظمؒ نے اپنی قوم کی خاطر جان کی قربانی دی۔اور یہ حقیقت ہے کہ قائداعظمؒ نے اپنی جان اور محنت سے حاصل کی ہوئی دولت اپنی قوم پر قربان کردی انہوں نے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو بتا دیا تھا کہ پاکستان قائم ہوگا اور ضرور قائم ہو گا کیونکہ یہی اللہ کی مرضی ہے ۔قائداعظمؒ اپنے زخمی پھیپھڑوں کے ساتھ آزادی کے لئیے جدوجہد کرتے رہے اسی جدو جہد کی خاطر وہ علاج کے لئیے وقت نہ نکال سکے۔انہیں اپنی قسمت میں لکھی گئی ذمہ د اری پورا کرنا تھی آزادی کا عظیم مقصد پورا ہوتے ہی انہوں نے بیماری کے سامنے ہتھیار پھینک دئیے ۔اب بہت وقت گزر چکا تھا۔بیماری اپنی جڑیں مضبوط کر چکی تھی۔قائداعظمؒ کو اپنے مقصد میں کامیابی کے بعد اب جینے کا کوئی مقصد نظر نہیں آرہا تھا نہ انہیں اقتدار کا لالچ تھانہ کبھی ایسی خواہش کی۔ انکے ذاتی معالج ڈاکٹر الٰہی بخش کو اس حقیقت کا احساس ہو گیا تھاکہ قائداعظمؒ نے اب جینے کی خواہش ترک کردی یہاں شیو لا ل کی کتاب ’’دی شی تغلق آف انڈیا‘‘ کا ذکر بے جا نہ ہوگا شیو لال لکھتے ہیں ’’یہ ایک اور تاریخی حقیقت ہے کہ جہاں بھارت کے دشمن نمبر ایک محمد علی جنا ح نے بھارت میں موجود اپنی تمام جائداد بمبئی کے اسکول ،ہسپتال کو وقف کردیں وہاں نہرو نے اپنی تمام منقولہ و غیر منقولہ جائدادمسز اندرا گاندھی کو منتقل کردی ‘‘ قائداعظمؒ نے اپنی وصیت کے مطابق اپنی دولت کا بیشتر حصہ مختلف رفا عی اداروں میں تقسیم کردیا۔وصیت کے مطابق 25000روپے انجمن اسلام بمبئی، 50000روپے بمبئی یونیورسٹی، 25000 روپے عریبک کالج دہلی،رہائشی جائداد کا ایک حصہ سندھ مدرسہ کراچی، ایک حصہ اسلامیہ کالج پشاورا ور بقیہ تیسرا حصہ علی گڑھ یونیورسٹی کو دیا گیا۔اور اس طرح ہمار ے قائداعظمؒ نے اپنی قوم پر جان و مال قربان کر دئیے
قائداعظمؒ کو اس حقیقت کا احساس تھا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں بر صغیر کے کروڑوں مسلمانوں کی آزادی جیسے مقدس فریضہ کیلئیے منتخب کیا ہے اس کا اظہار 17 اپریل 1948 کو گورنر ہاؤس پشاورمین جرگے سے خطاب میں کیا آپ نے فرمایا’’میں نے جو کچھ بھی کیا وہ اسلام کے ایک خادم کی حیثیت سے کیا اور اپنی قوم کی آزادی میں اپنی استطاعت کے مطابق ہر ممکن مددکی‘‘
یقیناً ایسے افراد ہی کے لئیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے
’’اے اطمینان والی روح ! اپنے پروردگار کی طرف چل۔اس طرح سے کہ تو اس سے خوش اور وہ تجھ سے خوش ۔تو میرے خاص بندوں میں شامل ہو جااور میری جنت میں داخل ہو جا ۔(الفجر۔26-27)۔۔۔۔
اللہ تعالیٰ قائداعظمؒ کو جنت ا لفر دو س میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے(آمین)
قائد تیری عظمت کو سلام !
ملت کا پاسباں ہے محمد علی جناح!
 

ساجد

محفلین
سید زبیر صاحب !ایک مکمل و جامع تحریر ہے جس میں پاکستان کے حصول کا مقصد اور اس کے آئینی منبع کی قائدِاعظم کے الفاظ کی روشنی میں بہت واضح تصویر پیش کی گئی ہے۔ ہمیں آج کے پاکستان کو ان افکار میں موجود پاکستان میں ڈھالنا ہے ، یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے۔
 

نایاب

لائبریرین
بلاشبہ اک مربوط و مسلسل تحریر جو کہ
قائد کی سوچ کو آج کے نوجواں تک پہنچاتے " پیروں " کو یہ اعتراف کرنے پر مجبور کرتی ہے کہ
"قائد اعظم ہم شرمندہ ہیں "
 
جزاک اللہ سید زبیر انکل۔بلاشبہ ایک مکمل اور جامع تحریر
بہت دکھ ہوتا ہے جب آج کے نام نہاد دانشوروں کو یہ کہتے سنتا ہوں کہ قائداعظم سیکیولر تھے اور وہ سیکیولر پاکستان چاہتے تھے۔
اللہ تعالیٰ سب کو ہدایت نصیب فرمائے اور ہمیں قائد کے پاکستان کا سچا سپاہی بننے کی توفیق عطا فرمائے۔
 

زبیر مرزا

محفلین
جزاک اللہ سید صاحب - آج ان باتوں کا اعادہ کرنے ان اور ان پرعمل کرنے کی اشد ضرورت ہے-
بانیِ پاکستان اپنا فرض بخوبی انجام دے کر ہم پراحسان کرگئے اب ہمیں اس ملک کے لیے اپنا فرض ادا کرنا
مثبت اورتعمیری سوچ کے ساتھ ہر قسم کی مایوسی اور منفی پروپگینڈا پر دھیان دے بناء اپنا کام دیانداری سے کرنا ہے
 
Top