قائداعظمؒ ۔قائداعظمؒ رہیں گے! کالم نگار | اثر چوہان

قائداعظمؒ ۔قائداعظمؒ رہیں گے!

کالم نگار | اثر چوہان

29 اپریل 2013


لاہور سے، سابق ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب اور ہائی کورٹ /سُپریم کورٹ کے سینئر ایڈووکیٹ، میاں جمیل اختر کا ایک طویل خط موصول ہُوا ،جِس کا خلاصہ نذرِ قارئین ہے اور اُس کا مختصر جواب بھی ۔
مکرمی و محترمی اثر چوہان صاحب!
مَیں مشرقی پنجاب کی سابقہ ریاست ۔” پٹیالہ“۔ کا مہاجر ہوں ، جہاں 1947ءمیں اڑھائی لاکھ مسلمان شہید کئے گئے تھے ۔ اُن میں میرے والد اور بڑے بھائی سمیت، میرے خاندان کے دیگر 10افراد بھی شامل تھے ۔پاکستان نے مجھے بُہت کچھ دیا ہے جو ،شاید متحدہ ہندوستان میں مجھے نہیں مِل سکتا تھا ۔ قائدِاعظم محمد علی جناحؒ میرے آئیڈیل ہیں۔ ہم سب پاکستانی اُن کے احسان مند ہیں ، لیکن جن کانگریسی عُلماء نے ،گاندھی جی کو خوش کرنے کے لئے ،قائدِاعظمؒ کے خلاف کُفر کے فتوے دئیے اُن کی صُلبی اور معنوی اولاد نے ابھی تک قائدِاعظم ؒ کے بارے میں اپنے دِلوں سے کدُورتیں ختم نہیں کیں ۔
31مارچ کومولانا فضل الرحمٰن نے، لاہور کے مِینارِ پاکستان پر ۔” اسلام زندہ باد کانفرنس “۔ منعقد کی ، مولانا نے اپنی تقریر میں یہ تو کہا کہ ۔” مَیں قوم کو یہ یاد دلانے آیا ہوں کہ اِسی جگہ 23مارچ1940ءکو اسلام کے نام پر پاکستان بنانے کا عہد کیا گیا تھا “۔ لیکن انہوں نے بانیءپاکستان حضرت قائدِاعظمؒ کی قومی خدمات کا ذِکر نہیں کِیا۔ اُس کے بعد مَیں نے مختلف نیوز چینلوں پر مولانا فضل الرحمٰن کو ۔” محمد علی جناح کا پاکستان ۔ محمد علی جناح کا پاکستان“۔ کہتے سُنا تو مجھے بہت تکلیف ہُوئی ۔ مولانا فضل الرحمٰن اپنے والد کو ۔” حضرت مولانا مُفتی محمود رحمت اللہ علیہ“۔ کہہ کر پُکارتے ہیں لیکن کیابابائے قوم کو، قائدِاعظم کہتے ہوئے اُن کی زبان پر چھالے پڑتے ہیں ؟۔ اگر قائدِاعظمؒ کے شیدائی مولانا فضل الرحمٰن کے والد کو ۔صِرف ۔” محمود ! ۔محمود !“۔ کہہ کر پکاریں تو وہ کیا محسوس کریں گے ؟۔ قائدِاعظمؒ کے پاکستان نے تو، اُن کے دُشمنوں کو بھی بہت کچھ دیا تھا ۔ پھِر انہیں شرم کیوں نہیں آتی؟۔ میری قائدِاعظمؒ کے رُوحانی سپُوت اور تحریکِ پاکستان کے نامور مجاہد محترم مجید نظامی اور آپ سمیت ۔” نوائے وقت“۔ کے تمام کالم نویسوں سے، درخواست ہے کہ وہ ،حسبِ روایت ، قائدِاعظم ؒ کی شان میں گُستاخی کرنے والوں کا سختی سے محاسبہ کریں ۔
آپ کا مُخلص
میاں جمیل اختر لاہور
محترم میاں جمیل اختر صاحب !
وعلیکم سلام!
مَیں آپ کے جذبات کی قدر کرتا ہوں ۔ جِن لوگوں نے 1947ءمیں ہجرت کی صعوبتیں برداشت کر کے قائدِاعظمؒ کے پاکستان کو اپنا وطن بنایا تھا ،وہ قائدِاعظمؒ کو بابائے قوم مانتے اور ان کا دِل سے احترام کرتے ہیں ، لیکن جِن لوگوں کی گھُٹّی میں قائدِاعظمؒ کی دشمنی پڑی ہو، اُن کا ورّیہ آپ جیسے مُحبِ وطن پاکستانیوں سے مختلف ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن اپنے والد مولانا مُفتی محمود ( مَیں آپ سے معذرت خواہ ہوں کہ مَیں انہیں صِرف ۔” محمود“۔ نہیں لِکھوں گا )۔کے جانشین کی حیثیت سے جمعیت عُلماءاسلام کے سٹیج پر سیاست کرتے ہیں۔ مولانا مُفتی محمود ، قیامِ پاکستان سے چند دِن پہلے، پیسہ اخبار لاہور میں،مولانا غلام غوث ہزاروی کی صدارت میں ہونے والے جلسے میں موجود تھے ،مولانا مظہر علی اظہر ( المعروف مولانا اِدھر علی اُدھر ) نے تقریر کرتے ہُوئے ۔ حضرت قائدِاعظمؒ کو ۔ ”کافرِا عظم“۔کہا تھا ۔ قیامِ پاکستان کے بعد مولانا مفتی محمود کا یہ بیان ریکارڈ پر موجود ہے کہ ۔” خدا کا شُکر ہے کہ ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہیں تھے “۔ یہ فقرہ انہوں نے شورش کاشمیری کے ساتھ ملاقات میں محترم مجید نظامی کی موجودگی میں ادا کیا تھا، جس پر جناب مجید نظامی نے احتجاج کا حق ادا کیا۔
مولانا مفتی محمود ،پاکستان میں سیاست کرنے کے گناہ میں،اپنے انتقال تک مصروف رہے ۔ یہاں تک کہ وہ صوبہ سرحد کے وزیرِاعلیٰ بھی رہے ۔ اور پاکستان میں ہی دفن ہوئے ۔ حالانکہ ۔” اصولی طور پر“۔ مُفتی صاحب کو بھی سرحدی گاندھی باچا خان ( خان عبدالغفار خان ) کی طرح افغانستان میں دفن ہونا چاہیے تھا ۔ مولانا مفتی محمود نے، جنوری 1965ءکے صدارتی انتخاب میں قائدِاعظمؒ دشمنی میں، اُن کی ہمشیرہ مادرِ ملّت محترمہ فاطمہ جناح ؒ کی بھر پور مخالفت کی تھی۔
میاں جمیل اختر صاحب !
یہ بات تو آپ کے عِلم میں ہی ہوگی کہ جمعیت عُلماءاسلام مولانا فضل الرحمٰن گروپ ہو یا مولانا سمیع الحق گروپ ، دونوں اُسی جمعیت عُلمائے ہند کی وارث ہیں، جِس کے اکابرین نے نہ صِرف قائدِاعظمؒ بلکہ اُن سے پہلے، دوقومی نظریے کے علمبردار سرسید احمد خانؒ اور علّامہ اقبالؒ کے خلاف بھی کُفر کے فتوے دئیے تھے۔ مولانا فضل الرحمٰن اور جمعیت عُلماءاسلام کے دونوں گروپوں کے عہدیداران اور ارکان ہر سال داراُلعلوم دیوبند کی سالانہ تقریبات میں حِصّہ لینے کے لئے بھارت کے دورے پر جاتے ہیں،جہاں۔” فتویٰ سازی کی فیکٹری“۔ ابھی تک چل رہی ہے ۔ اگست2005ءمیں داراُلعلوم دیوبند کے مولوی مرغوب اُلرحمٰن کا ایک انٹرویو ،ممبئی کے اخبار میں شائع ہُوا تھا جِس میں ، اُس نے ہرزہ سرائی کرتے ہُوئے کہا تھا کہ ۔” محمد علی جناحؒ شراب پیتے تھے اور نماز نہیں پڑھتے تھے ۔مَیں انہیں مُسلمان نہیں سمجھتا“۔ محترم مجید نظامی نے ۔” نوائے وقت“۔ میں اور مَیں نے اپنے اخبار۔” سیاست“۔ میں اُس فتوی فروش مولوی کی خوب خبر لی تھی۔ اُن دنوں ہمارے یہاں مسلم لیگ ق کی حکومت تھی ، لیکن حکومت اور حکومت سے باہر کسی بھی مسلم لیگ کے قائدِین نے اِس پر احتجاج تو کجا ، نوٹس تک نہیں لیاتھا ۔
میاں جمیل اختر صاحب !
اگر مولانا فضل الرحمٰن یا جمعیت عُلمائے ہند کا کوئی وارث بانی پاکستان کو قائدِاعظم ؒ کے بجائے صِرف محمد علی جناح ۔ کہتا ہے تو اُس سے بابائے قوم کی شان نہیں گھٹتی ۔ ” آسمان کی جانب تھوکا ،مُنہ پر“۔ کوئی بھی شکلِ مومناں تاریخ کو تبدیل نہیں کر سکتا ۔ جِس طرح جمہوریہ تُرکیہ کے بانی مصطفےٰ کمال پاشا ۔” اتا ترک“۔ ( تُرکوں کے باپ) ۔کہلاتے ہیں ۔قائدِاعظمؒ بھی قائدِاعظمؒ ہی رہیں گے ۔

بشکریہ: نوائے وقت ربط
نوٹ: ارسال کنندہ کا کالم نگار کی ہر بات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
 
Top