فیض فیض احمد فیض- گر مجھے اس کا یقیں ہو، میرے ہمدم میرے دوست۔۔۔

گر مجھے اس کا یقیں ہو
مرے ہمدم مرے دوست
گر مجھے اس کا یقیں ہو
کہ ترے دل کی تھکن
تری آنکھوں کی اداسی، ترے سینے کی جلن
مری دلجوئی، مرے پیار سے مٹ جائے گی
گر مرا حرفِ تسلی وہ دوا ہو جس سے
جی اٹھے پھر ترا اجھڑا ہوا بے نور دماغ
تری پیشانی سے دھل جائیں یہ تذلیل کے داغ
تری بیمار جوانی کو شفا ہو جائے
گر مجھے اس کا یقیں ہو مرے ہمدم مرے دوست
روز و شب، شام و سحر میں تجھے بہلاتا رہوں
میں تجھے گیت سناتا رہوں
ہلکے شیریں
آبشاروں کے، بہاروں کے، چمن زاروں کے گیت
آمدِ صبح کے، مہتاب کے، سیاروں کے گیت
تجھ سے میں حسن و محبت کی حکایات کہوں
کیسے مغرور حسیناوں کے برفاب سے جسم
گرم ہاتھوں کی حرارت سے پگھل جاتے ہیں
کیسے اک چہرے کے ٹھہرے ہوئے مانوس نقوش
دیکھتے دیکھتے یک لخت بدل جاتے ہیں
کس طرح عارضِ محبوب کا شفاف بلور
یک بیک بادہ احمر سے دہک جاتا ہے
کیسے گلچیں کے لئے جھکتی ہے خود شاخِ گلاں
کس طرح رات کا ایوان مہک جاتا ہے
یونہی گاتا رہوں، گاتا رہوں تری خاطر
گیت بنتا رہوں، بیٹھا رہوں تری خاطر
پر مرے گیت ترے دکھ کا مداوا ہی نہیں
نغمہ جراح نہیں، مونس و غم خوار سہی
گیت نشتر تو نہیں، مرہمِ آزار سہی
ترے آزار کا چارہ نہیں نشتر کے سوا
اور یہ سفاک مسیحہ مرے قبضے میں نہیں
اس جہاں کے کسی ذی روح کے قبضے میں نہیں
ہاں مگر ترے سوا، ترے سوا۔۔۔۔۔ترے سوا۔۔۔!!
 
گر مجھے اس کا یقیں ہو
مرے ہمدم مرے دوست
گر مجھے اس کا یقیں ہو
کہ ترے دل کی تھکن
تری آنکھوں کی اداسی، ترے سینے کی جلن
مری دلجوئی، مرے پیار سے مٹ جائے گی
گر مرا حرفِ تسلی وہ دوا ہو جس سے
جی اٹھے پھر ترا اجھڑا ہوا بے نور دماغ
تری پیشانی سے دھل جائیں یہ تذلیل کے داغ
تری بیمار جوانی کو شفا ہو جائے
گر مجھے اس کا یقیں ہو مرے ہمدم مرے دوست
روز و شب، شام و سحر میں تجھے بہلاتا رہوں
میں تجھے گیت سناتا رہوں
ہلکے شیریں
آبشاروں کے، بہاروں کے، چمن زاروں کے گیت
آمدِ صبح کے، مہتاب کے، سیاروں کے گیت
تجھ سے میں حسن و محبت کی حکایات کہوں
کیسے مغرور حسیناوں کے برفاب سے جسم
گرم ہاتھوں کی حرارت سے پگھل جاتے ہیں
کیسے اک چہرے کے ٹھہرے ہوئے مانوس نقوش
دیکھتے دیکھتے یک لخت بدل جاتے ہیں
کس طرح عارضِ محبوب کا شفاف بلور
یک بیک بادہ احمر سے دہک جاتا ہے
کیسے گلچیں کے لئے جھکتی ہے خود شاخِ گلاں
کس طرح رات کا ایوان مہک جاتا ہے
یونہی گاتا رہوں، گاتا رہوں تری خاطر
گیت بنتا رہوں، بیٹھا رہوں تری خاطر
پر مرے گیت ترے دکھ کا مداوا ہی نہیں
نغمہ جراح نہیں، مونس و غم خوار سہی
گیت نشتر تو نہیں، مرہمِ آزار سہی
ترے آزار کا چارہ نہیں نشتر کے سوا
اور یہ سفاک مسیحہ مرے قبضے میں نہیں
اس جہاں کے کسی ذی روح کے قبضے میں نہیں
ہاں مگر ترے سوا، ترے سوا۔۔۔ ۔۔ترے سوا۔۔۔ !!

فیض کو سن رہا تھا، سوچا دوستوں سے بھی شئیر کر لوں۔ اگر کہیں کوئی کوتاہی ہو گئی ہو، تو براہِ مہربانی نشاندہی ضرور کر دیجئے گا۔ آپ کا ممنون رہوں گا۔ اور ہاں، براہِ مہربانی یہ بھی بتائیے گا کہ ٹائپنگ کے دوران "حمزہ"، جو کہ اردو کا الفابیٹ ہے، کیسے ٹائپ کرتے ہیں؟
 
گر مجھے اس کا یقیں ہو میرے ہمدم، میرے دوست
گر مجھے اس کا یقیں ہو کہ تیرے دل کے تھکن
تیری آنکھوں کی اداسی، تیرے سینے کی جلن
میری دلجوئی، میرے پیار سے مٹ جائےگی
گر میرا حرفِ تسلی وہ دوا ہو جس سے
جی اٹھے پھر تیرا اجڑا ہوا بے نور دماغ
تیری پیشانی سے دھل جائیں یہ تذلیل کے داغ
تیری بیمار جوانی کو شفا ء ہو جائے
گر مجھے اس کا یقیں ہو میرے ہمدم، میرے دوست
روزوشب شام و سحر میں تجھے بہلاتا رہوں
میں تجھے گیت سناتا رہوں ہلکے ، شیریں
آبشاروں کے ، بہاروں کے، چمن زاروں کے گیت
آمدِ صبح کے ، مہتاب کے، سیاروں کے گیت
تجھ سے میں حسن و محبت کی حکا یات کہوں
کیسے مغرور حسیناؤں کے برفاب سے جسم
گرم ہاتھوں کی حرارت میں‌پگھل جاتے ہیں
کیسے اک چہرے کے ٹھہرےہوئے مانوس نقوش
دیکھتے دیکھتے یک لخت بدل جاتے ہیں
کس طرح عارضِ محبوب کا شفاف بلور
یک بیک بادہ احمر سے دہک جاتا ہے
کیسے گلچیں کے لئے جھکتی ہے خود شاخ گلاب
کس طرح رات کا ایوان مہک جاتا ہے
یونہی گاتا رہوں، گاتا رہوں تیری خاطر
گیت بنتا رہوں بیٹھا رہوں تیری خاطر
پہ میرے گیت تیرے دکھ کا مداوا ہی نہیں
نغمہ جراح نہیں، مونس و غمخوار سہی
گیت نشتر تو نہیں، مرہم آزار سہی
تیرے آزار کا چارہ نہیں، نشتر کے سوا
اور یہ سفاک مسیحا میرے قبضے میں‌نہیں
اس جہاں کے کسی ذی روح کےقبضے میں‌نہیں
ہاں مگر تیرے سوا، تیرے سوا، تیرے سوا
 
گر مجھے اس کا یقیں ہو
مرے ہمدم مرے دوست
گر مجھے اس کا یقیں ہو
کہ ترے دل کی تھکن
تری آنکھوں کی اداسی، ترے سینے کی جلن
مری دلجوئی، مرے پیار سے مٹ جائے گی
گر مرا حرفِ تسلی وہ دوا ہو جس سے
جی اٹھے پھر ترا اجھڑا ہوا بے نور دماغ
تری پیشانی سے دھل جائیں یہ تذلیل کے داغ
تری بیمار جوانی کو شفا ہو جائے
گر مجھے اس کا یقیں ہو مرے ہمدم مرے دوست
روز و شب، شام و سحر میں تجھے بہلاتا رہوں
میں تجھے گیت سناتا رہوں
ہلکے شیریں
آبشاروں کے، بہاروں کے، چمن زاروں کے گیت
آمدِ صبح کے، مہتاب کے، سیاروں کے گیت
تجھ سے میں حسن و محبت کی حکایات کہوں
کیسے مغرور حسیناوں کے برفاب سے جسم
گرم ہاتھوں کی حرارت سے پگھل جاتے ہیں
کیسے اک چہرے کے ٹھہرے ہوئے مانوس نقوش
دیکھتے دیکھتے یک لخت بدل جاتے ہیں
کس طرح عارضِ محبوب کا شفاف بلور
یک بیک بادہ احمر سے دہک جاتا ہے
کیسے گلچیں کے لئے جھکتی ہے خود شاخِ گلاں
کس طرح رات کا ایوان مہک جاتا ہے
یونہی گاتا رہوں، گاتا رہوں تری خاطر
گیت بنتا رہوں، بیٹھا رہوں تری خاطر
پر مرے گیت ترے دکھ کا مداوا ہی نہیں
نغمہ جراح نہیں، مونس و غم خوار سہی
گیت نشتر تو نہیں، مرہمِ آزار سہی
ترے آزار کا چارہ نہیں نشتر کے سوا
اور یہ سفاک مسیحہ مرے قبضے میں نہیں
اس جہاں کے کسی ذی روح کے قبضے میں نہیں
ہاں مگر ترے سوا، ترے سوا۔۔۔۔۔ترے سوا۔۔۔!!
بہت اچھی شراکت کے لیے ممنون۔۔سلامت رہیں۔۔
 
Top