فیضؔ صاحب اور تحریکِ آزادیِ فلسطین

سیما علی

لائبریرین

فیضؔ صاحب اور تحریکِ آزادیِ فلسطین​


فلسطین اور اس کی تحریکِ آزادی دنیا بھر میں حریت پسندی کے حوالے سے رقم کیے جانے والے ادب کا لازمی حصہ ہے۔ دنیا میں امن، سلامتی اور محبت کے پیغام کی جب بھی بات ہوئی فلسطین کے لوگوں کے نظریۂ حسن و محبت کو لازمی زیرِ بحث لایا گیا۔ اردو ادب میں ترقی پسند تحریک نے دنیا بھر کے مظالم اور انسانی آزادی کے حوالے سے یاد گار ادب تخلیق کر کے جہاں عالمی ادب کے وسیع تناظر میں اپنے حصے کا کردار ادا کیا ہے، وہاں ہمارے شاعروں اور ادیبوں نے بھی اس تحریکِ آزادی کے تناظر میں ایک وقیع اور قابلِ قدر شعری سرمایہ یادگار چھوڑا ہے۔
پاکستانی ادب کی عالمی شناخت کے حوالے سے فیض احمد فیضؔ کا شمار اُن عہد ساز شعرا میں کیا جاتا ہے جن کے حرفِ زندہ نے شعری اعتبار کی کائنات کو نت نئے مفاہیم سے آشنا کیا۔ علامہ اقبال کے بعد فیض احمد فیضؔ انسانی درد مندی کے جذبے سے سرشار ایسے شاعر ہیں جن کی فلسطین اور تحریکِ آزادیِ فلسطین سے تعلق کی بہت سی جہتیں ہیں، اُن کی شاعری نظریاتی اور افادی موضوعات کے اعتبار سے بھی لائق تحسین ہے اور اس میں جمالیات کی بھی ایک دنیا آباد ہے۔
مسئلۂ فلسطین اور فلسطین کی تحریک آزادی سے فیضؔ کی وابستگی عملی ہے۔ وہ ایک طویل مدت تک لبنان کے دارالحکومت بیروت میں رسالے ''لوٹس'' کے مدیر رہے جو افریقا اور ایشیا کے ادیبوں کا ترجمان تھا۔ فیضؔ صاحب کو ''لوٹس'' کی ادارت کی پیشکش یاسر عرفات کے مشیرِ ثقافت اور معروف شاعر معین بسیسو نے کی لیکن فیضؔ صاحب نے اس دعوت کو تب قبول کیا جب انھیں یاسر عرفات کی طرف سے باقاعدہ اس کی دعوت دی گئی۔ یوں یاسر عرفات کی درخواست پر وہ ''لوٹس'' کے ایڈیٹر بن کر بیروت چلے گئے اور جب تک بیروت پوری طرح نہیں اُجڑا حتیٰ کہ وہ مکان جہاں فیضؔ رہتے تھے بمباری سے تباہ نہیں ہو گیا فیضؔ بیروت میں ہی رہے۔
فیضؔ صاحب کی فلسطین اور فلسطینی تحریکِ آزادی سے وابستگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ فیضؔ کے انتقال کے بعد یاسر عرفات نے ایک تعزیتی مضمون لکھا جو ''ادبِ لطیف'' کے فیضؔ نمبر میں صفحہ نمبر ۷ اور ۸ پر اشاعت پذیر ہوا۔ اس میں یاسر عرفات اپنا خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
''فیض احمد فیضؔ میرے دوست تھے اور جنگِ بیروت میں میرے رفیق تھے، اس دہکتے جہنم میں بھی ان کے چہرے کی لازوال مسکراہٹ ماند نہیں پڑی اور ان کی آنکھیں ناقابل شکست عزم و یقین سے دہکتی رہیں۔ بلا شبہ فیض احمد فیضؔ ہمیں چھوڑ گئے لیکن ہمارے دلوں میں محبت کا اَن مِٹ نقش چھوڑ گئے۔ انھوں نے انقلابیوں، دانش وروں اور فن کاروں کی آنے والی نسلوں کے لیے بے نظیر اثاثہ چھوڑا ہے ۱؎ ۔''
۱۹۶۷ء میں فلسطین پر اسرائیکی جارحیت نے جہاں عالم اسلام کی ہر آنکھ کو اشک بار کر دیا وہاں فیضؔ کو اس جارحیت پر وادیِ سینا آتش و آہن کی بارش کی طرح دکھائی دیتی ہے۔ وہ اس برستی آگ کو برقِ فروزاں کہتے ہیں اور لپکتے ہوئے شعلوں کو جن میں امن کی فاختہ کے پر جل گئے وہ ''رنگ پہ ہے شعلۂ رخسارِ حقیقت'' کہہ کر دنیا بھر کے دانش وروں کو سوچنے کا عندیہ دیتے ہیں:

پھر برق فروزاں ہے سرِ وادیِ سینا
پِھر رنگ پہ ہے شُعلۂ رُخسارِ حقیقت
پیغامِ اجل دعوتِ دیدارِ حقیقت
اے دیدۂ بینا!
اب وقت ہے دیدار کا دم ہے کہ نہیں ہے ۲؎
وہ دیدۂ بینا کو دعوتِ فکر و عمل دیتے ہیں اور نہتے فلسطینیوں کے بہتے لہو کی کہانی میں کارگہ ہست و بود پر ٹُوٹنے والی قیامت کو قیامت صغریٰ کہتے ہوئے قاتلِ جاں کو چارہ گر کلفتِ غم اور گلزارِ ارم کو پرِ تو صحراے عدم کہتے ہیں۔ اسی لیے تو اُن کا استفہامیہ یہ رنگ اختیار کرتا ہے:
پندارِ جنوں
حوصلۂ راہِ عدم ہے کہ نہیں ہے ۳؎
اس نظم کے آخری حصے میں جارح کی پر زور مذمت کرتے ہیں، اس مرحلے پر اور مفتیِ دِیں مصلحت پر طنز آمیز لہجے میں کلام کرتے ہوئے فیضؔ کا انداز بڑا بلند آہنگ ہو جاتا ہے:
پھر دل کو مصفَّا کرو، اس لوح پہ شاید
مابینِ مَن وتُو، نیا پیماں کوئی اترے
اب رسمِ سِتَم حکمتِ خاصانِ زمیں ہے
تائیدِسِتم مصلحتِ مُفتیِ دِیں ہے
اب صدیوں کے اقرارِ اطاعت کو بدلنے
لازم ہے کہ انکار کا فرماں کوئی اُترے
سید سبطِ حسن اس نظم کے بارے میں لکھتے ہیں:
''فیضؔ صاحب کو جُز سے کُل کی طرف بڑھنے اور مضطرب قطروں میں دجلہ دیکھنے اور دکھانے کا فن خوب آتا تھا۔ اُن کی نظر میں یہ جنگ فقط عربوں اور اسرائیلیوں کی جنگ نہ تھی بلکہ دنیا بھر کے مظلوموں ، محکوموں کی جنگ تھی۔ یہ جنگ ایسی ہمہ گیر تحریک کا تقاضا کرتی تھی جس کی خشمگیں موجیں سِتَم کی رسموں اور ان رسموں کی تائید کرنے والے فقیہانِ دین کو خس و خاشاک کی طرح بہا لے جائیں''


فیضؔ کے آخری مجموعے''مرے دِل مرے مسافر'' کاانتساب یاسر عرفات کے نام ہے۔
اس مجموعے کی کئی نظمیں فلسطین کے لیے ہیں۔ ان میں پہلی نظم ''فلسطینی شہدا جو پردیس میں کام آئے'' ہے۔ یہ نظم فیضؔ کی اَمنِ عالم کے لیے دیکھے گئے خوابوں کی ایک یادگار صورت گری ہے۔ نظم کا انداز خطابیہ ہے مگر اس میں ُروے سخن ارضِ فلسطین کی طرف ہے۔ جیسے ارضِ فلسطین کے غم کو فیضؔ نے کائناتِ اصغر سے جہانِ بے کراں کے پھیلے ہوئے وجود کی پہنائیوں تک میں دیکھا ہے۔ گو اس نظم کا رنگ شوخ نہیں مگر بے باکی اور حُزنیہ کے ملتے جلتے آہنگ سے فیضؔ نے بڑے گہرے پیرایے میں فلسطین کے شہدا کو خراج عقیدت پیش کیا ہے اور نظم کے آخر میں تورجائی عناصر کی نابود سے بود کی کارفرمائی کرتے ہوئے فیضؔ کا لہجہ بہت بلند آہنگ ہو جاتا ہے اور وہ برملا کہتے ہیں کہ ظالموں نے تو صرف ایک فلسطین برباد کیا ہے مگر میرے زخموں کی دمک سے تو کئی فلسطین آباد ہو گئے ہیں۔۔۔۔۔
مَیں جہاں پر بھی گیا ، اے ارضِ وطن!
تیری تذلیل کے داغوںکی جلن دِل میں لیے
تیری حُرمت کے چراغوں کی لگن دِل میں لیے
تیری الفت، تیری یادوں کی کسک ساتھ گئی
تیرے نارنج شگوفوں کی مہک ساتھ گئی
سارے اَن دیکھے رفیقوں کا جِلو ساتھ رہا
کتنے ہاتھوں سے ہم آغوش مرا ہاتھ رہا
دُور پردیس کی بے مہر گزرگاہوں میں
اجنبی شہر کی بے نام و نشاں راہوں میں
جِس زمیں پر بھی کھلا میرے لہو کا پرچم
لہلہاتا ہے وہاں ارضِ فلسطیں کا علم
تیرے اعدا نے کیا ایک فلسطیں برباد
میرے زخموں نے کیے کتنے فلسطیں آباد


صابرہ اور شتیلہ کے کیمپوں میں پناہ گزیں معصوم اور نہتے فلسطینیوں پر ٹینکوں اور توپوں کی مدد سے ہونے والی اسرائیلی جارحیت نے اسرائیل کی بدنامِ زمانہ دہشت گردی کا سارا چہرہ بے نقاب کر دیا تھا۔ فیضؔ کی نظم ''فلسطینی بچے کے لیے لوری'' میں اِس وحشت اور بربریت کے باعث ہونے والی تباہ کاری کی پوری منظر کشی کی گئی ہے کہ اس قیامت خیز فائرنگ میں دودھ پیتے بچے تک موت کے گھاٹ اتار دیے گئے اور اُن کے لہو میں لتھڑے ہوئے معصوم ٹکڑوں پر اسرائیلی فوج کا رقصِ ابلیس ہر آنکھ کو نمناک کر گیا۔ بظاہر یہ نظم ایک طرف تسلی دیتی ہوئی آگے بڑھتی ہے لیکن حقیقت میں یہ ہر نمناک آنکھ کے لیے امید اور ڈھارس کے حرفوں میں گندھی ایسی مہکتی مالا ہے جو حرفِ صبر بھی ہے اور آنے والے کل کے لیے آس کی تازہ کرن بھی۔

مت رو بچّے
رورو کے ابھی
تیری امی کی آنکھ لگی ہے

مت رو بچّے
کچھ ہی پہلے
تیرے ابّا نے
اپنے غم سے رخصت لی ہے

مت رو بچّے
تیرا بھائی
اپنے خواب کی تتلی پیچھے
دُور کہیں پردیس گیا ہے

مت رو بچّے
تیری باجی کا ڈولا پرائے دیس گیا ہے
مت رو بچّے
تیرے آنگن میں
مُردہ سورج نہلا کے گئے ہیں
چندر مادفنا کے گئے ہیں

مت رو بچّے
امی، اَبّا، باجی، بھائی
چاند اور سورج
تُو گر روئے گا تو یہ سب
اور بھی تجھ کو رُلوائیں گے
تُو مُسکائے گا تو شاید
سارے
اِک دن بھیس بدل کر
تجھ سے کھیلنے لوٹ آئیں گے

 

فیضؔ صاحب اور تحریکِ آزادیِ فلسطین​


فلسطین اور اس کی تحریکِ آزادی دنیا بھر میں حریت پسندی کے حوالے سے رقم کیے جانے والے ادب کا لازمی حصہ ہے۔ دنیا میں امن، سلامتی اور محبت کے پیغام کی جب بھی بات ہوئی فلسطین کے لوگوں کے نظریۂ حسن و محبت کو لازمی زیرِ بحث لایا گیا۔ اردو ادب میں ترقی پسند تحریک نے دنیا بھر کے مظالم اور انسانی آزادی کے حوالے سے یاد گار ادب تخلیق کر کے جہاں عالمی ادب کے وسیع تناظر میں اپنے حصے کا کردار ادا کیا ہے، وہاں ہمارے شاعروں اور ادیبوں نے بھی اس تحریکِ آزادی کے تناظر میں ایک وقیع اور قابلِ قدر شعری سرمایہ یادگار چھوڑا ہے۔
پاکستانی ادب کی عالمی شناخت کے حوالے سے فیض احمد فیضؔ کا شمار اُن عہد ساز شعرا میں کیا جاتا ہے جن کے حرفِ زندہ نے شعری اعتبار کی کائنات کو نت نئے مفاہیم سے آشنا کیا۔ علامہ اقبال کے بعد فیض احمد فیضؔ انسانی درد مندی کے جذبے سے سرشار ایسے شاعر ہیں جن کی فلسطین اور تحریکِ آزادیِ فلسطین سے تعلق کی بہت سی جہتیں ہیں، اُن کی شاعری نظریاتی اور افادی موضوعات کے اعتبار سے بھی لائق تحسین ہے اور اس میں جمالیات کی بھی ایک دنیا آباد ہے۔
مسئلۂ فلسطین اور فلسطین کی تحریک آزادی سے فیضؔ کی وابستگی عملی ہے۔ وہ ایک طویل مدت تک لبنان کے دارالحکومت بیروت میں رسالے ''لوٹس'' کے مدیر رہے جو افریقا اور ایشیا کے ادیبوں کا ترجمان تھا۔ فیضؔ صاحب کو ''لوٹس'' کی ادارت کی پیشکش یاسر عرفات کے مشیرِ ثقافت اور معروف شاعر معین بسیسو نے کی لیکن فیضؔ صاحب نے اس دعوت کو تب قبول کیا جب انھیں یاسر عرفات کی طرف سے باقاعدہ اس کی دعوت دی گئی۔ یوں یاسر عرفات کی درخواست پر وہ ''لوٹس'' کے ایڈیٹر بن کر بیروت چلے گئے اور جب تک بیروت پوری طرح نہیں اُجڑا حتیٰ کہ وہ مکان جہاں فیضؔ رہتے تھے بمباری سے تباہ نہیں ہو گیا فیضؔ بیروت میں ہی رہے۔
فیضؔ صاحب کی فلسطین اور فلسطینی تحریکِ آزادی سے وابستگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ فیضؔ کے انتقال کے بعد یاسر عرفات نے ایک تعزیتی مضمون لکھا جو ''ادبِ لطیف'' کے فیضؔ نمبر میں صفحہ نمبر ۷ اور ۸ پر اشاعت پذیر ہوا۔ اس میں یاسر عرفات اپنا خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
''فیض احمد فیضؔ میرے دوست تھے اور جنگِ بیروت میں میرے رفیق تھے، اس دہکتے جہنم میں بھی ان کے چہرے کی لازوال مسکراہٹ ماند نہیں پڑی اور ان کی آنکھیں ناقابل شکست عزم و یقین سے دہکتی رہیں۔ بلا شبہ فیض احمد فیضؔ ہمیں چھوڑ گئے لیکن ہمارے دلوں میں محبت کا اَن مِٹ نقش چھوڑ گئے۔ انھوں نے انقلابیوں، دانش وروں اور فن کاروں کی آنے والی نسلوں کے لیے بے نظیر اثاثہ چھوڑا ہے ۱؎ ۔''
۱۹۶۷ء میں فلسطین پر اسرائیکی جارحیت نے جہاں عالم اسلام کی ہر آنکھ کو اشک بار کر دیا وہاں فیضؔ کو اس جارحیت پر وادیِ سینا آتش و آہن کی بارش کی طرح دکھائی دیتی ہے۔ وہ اس برستی آگ کو برقِ فروزاں کہتے ہیں اور لپکتے ہوئے شعلوں کو جن میں امن کی فاختہ کے پر جل گئے وہ ''رنگ پہ ہے شعلۂ رخسارِ حقیقت'' کہہ کر دنیا بھر کے دانش وروں کو سوچنے کا عندیہ دیتے ہیں:

پھر برق فروزاں ہے سرِ وادیِ سینا
پِھر رنگ پہ ہے شُعلۂ رُخسارِ حقیقت
پیغامِ اجل دعوتِ دیدارِ حقیقت
اے دیدۂ بینا!
اب وقت ہے دیدار کا دم ہے کہ نہیں ہے ۲؎
وہ دیدۂ بینا کو دعوتِ فکر و عمل دیتے ہیں اور نہتے فلسطینیوں کے بہتے لہو کی کہانی میں کارگہ ہست و بود پر ٹُوٹنے والی قیامت کو قیامت صغریٰ کہتے ہوئے قاتلِ جاں کو چارہ گر کلفتِ غم اور گلزارِ ارم کو پرِ تو صحراے عدم کہتے ہیں۔ اسی لیے تو اُن کا استفہامیہ یہ رنگ اختیار کرتا ہے:
پندارِ جنوں
حوصلۂ راہِ عدم ہے کہ نہیں ہے ۳؎
اس نظم کے آخری حصے میں جارح کی پر زور مذمت کرتے ہیں، اس مرحلے پر اور مفتیِ دِیں مصلحت پر طنز آمیز لہجے میں کلام کرتے ہوئے فیضؔ کا انداز بڑا بلند آہنگ ہو جاتا ہے:
پھر دل کو مصفَّا کرو، اس لوح پہ شاید
مابینِ مَن وتُو، نیا پیماں کوئی اترے
اب رسمِ سِتَم حکمتِ خاصانِ زمیں ہے
تائیدِسِتم مصلحتِ مُفتیِ دِیں ہے
اب صدیوں کے اقرارِ اطاعت کو بدلنے
لازم ہے کہ انکار کا فرماں کوئی اُترے
سید سبطِ حسن اس نظم کے بارے میں لکھتے ہیں:
''فیضؔ صاحب کو جُز سے کُل کی طرف بڑھنے اور مضطرب قطروں میں دجلہ دیکھنے اور دکھانے کا فن خوب آتا تھا۔ اُن کی نظر میں یہ جنگ فقط عربوں اور اسرائیلیوں کی جنگ نہ تھی بلکہ دنیا بھر کے مظلوموں ، محکوموں کی جنگ تھی۔ یہ جنگ ایسی ہمہ گیر تحریک کا تقاضا کرتی تھی جس کی خشمگیں موجیں سِتَم کی رسموں اور ان رسموں کی تائید کرنے والے فقیہانِ دین کو خس و خاشاک کی طرح بہا لے جائیں''


فیضؔ کے آخری مجموعے''مرے دِل مرے مسافر'' کاانتساب یاسر عرفات کے نام ہے۔
اس مجموعے کی کئی نظمیں فلسطین کے لیے ہیں۔ ان میں پہلی نظم ''فلسطینی شہدا جو پردیس میں کام آئے'' ہے۔ یہ نظم فیضؔ کی اَمنِ عالم کے لیے دیکھے گئے خوابوں کی ایک یادگار صورت گری ہے۔ نظم کا انداز خطابیہ ہے مگر اس میں ُروے سخن ارضِ فلسطین کی طرف ہے۔ جیسے ارضِ فلسطین کے غم کو فیضؔ نے کائناتِ اصغر سے جہانِ بے کراں کے پھیلے ہوئے وجود کی پہنائیوں تک میں دیکھا ہے۔ گو اس نظم کا رنگ شوخ نہیں مگر بے باکی اور حُزنیہ کے ملتے جلتے آہنگ سے فیضؔ نے بڑے گہرے پیرایے میں فلسطین کے شہدا کو خراج عقیدت پیش کیا ہے اور نظم کے آخر میں تورجائی عناصر کی نابود سے بود کی کارفرمائی کرتے ہوئے فیضؔ کا لہجہ بہت بلند آہنگ ہو جاتا ہے اور وہ برملا کہتے ہیں کہ ظالموں نے تو صرف ایک فلسطین برباد کیا ہے مگر میرے زخموں کی دمک سے تو کئی فلسطین آباد ہو گئے ہیں۔۔۔۔۔
مَیں جہاں پر بھی گیا ، اے ارضِ وطن!
تیری تذلیل کے داغوںکی جلن دِل میں لیے
تیری حُرمت کے چراغوں کی لگن دِل میں لیے
تیری الفت، تیری یادوں کی کسک ساتھ گئی
تیرے نارنج شگوفوں کی مہک ساتھ گئی
سارے اَن دیکھے رفیقوں کا جِلو ساتھ رہا
کتنے ہاتھوں سے ہم آغوش مرا ہاتھ رہا
دُور پردیس کی بے مہر گزرگاہوں میں
اجنبی شہر کی بے نام و نشاں راہوں میں
جِس زمیں پر بھی کھلا میرے لہو کا پرچم
لہلہاتا ہے وہاں ارضِ فلسطیں کا علم
تیرے اعدا نے کیا ایک فلسطیں برباد
میرے زخموں نے کیے کتنے فلسطیں آباد


صابرہ اور شتیلہ کے کیمپوں میں پناہ گزیں معصوم اور نہتے فلسطینیوں پر ٹینکوں اور توپوں کی مدد سے ہونے والی اسرائیلی جارحیت نے اسرائیل کی بدنامِ زمانہ دہشت گردی کا سارا چہرہ بے نقاب کر دیا تھا۔ فیضؔ کی نظم ''فلسطینی بچے کے لیے لوری'' میں اِس وحشت اور بربریت کے باعث ہونے والی تباہ کاری کی پوری منظر کشی کی گئی ہے کہ اس قیامت خیز فائرنگ میں دودھ پیتے بچے تک موت کے گھاٹ اتار دیے گئے اور اُن کے لہو میں لتھڑے ہوئے معصوم ٹکڑوں پر اسرائیلی فوج کا رقصِ ابلیس ہر آنکھ کو نمناک کر گیا۔ بظاہر یہ نظم ایک طرف تسلی دیتی ہوئی آگے بڑھتی ہے لیکن حقیقت میں یہ ہر نمناک آنکھ کے لیے امید اور ڈھارس کے حرفوں میں گندھی ایسی مہکتی مالا ہے جو حرفِ صبر بھی ہے اور آنے والے کل کے لیے آس کی تازہ کرن بھی۔

مت رو بچّے
رورو کے ابھی
تیری امی کی آنکھ لگی ہے

مت رو بچّے
کچھ ہی پہلے
تیرے ابّا نے
اپنے غم سے رخصت لی ہے

مت رو بچّے
تیرا بھائی
اپنے خواب کی تتلی پیچھے
دُور کہیں پردیس گیا ہے

مت رو بچّے
تیری باجی کا ڈولا پرائے دیس گیا ہے
مت رو بچّے
تیرے آنگن میں
مُردہ سورج نہلا کے گئے ہیں
چندر مادفنا کے گئے ہیں

مت رو بچّے
امی، اَبّا، باجی، بھائی
چاند اور سورج
تُو گر روئے گا تو یہ سب
اور بھی تجھ کو رُلوائیں گے
تُو مُسکائے گا تو شاید
سارے
اِک دن بھیس بدل کر
تجھ سے کھیلنے لوٹ آئیں گے

فیض صاحب کی شہرہ آفاق نظم "مجھ سے پہلے سی محبت" کے یہ دو بند کمال کی عکاسی کرتے ہیں کہ
ان گنت صدیوں کے تاریک بہیمانہ طلسم
ریشم و اطلس و کمخاب میں بنوائے ہوئے
جا بہ جا بکتے ہوئے کوچہ و بازار میں جسم
خاک میں لتھڑے ہوئے خون میں نہلائے ہوئے

جسم نکلے ہوئے امراض کے تنوروں سے
پیپ بہتی ہوئی گلتے ہوئے ناسوروں سے
لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجے
اب بھی دل کش ہے ترا حسن مگر کیا کیجے
 
Top