فیصلے کی گھڑی - ایم جے گوہر

حسان خان

لائبریرین
اس امر میں کوئی کلام نہیں کہ امن و امان کے قیام کے حوالے سے پورے ملک کے حالات وقفے وقفے سے ہونے والی دہشت گردی و خونریزی کے باعث افسوس ناک حد تک مخدوش ہو چکے ہیں، بالخصوص کراچی، کوئٹہ، پشاور جیسے بڑے شہروں میں قانون نافذ کرنے والے اداروں اور خفیہ ایجنسیوں کے اہلکاروں کی اچھی خاصی نفری کی موجودگی کے باوجود شرپسند عناصر اپنے ہدف تک پہنچنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں جو ان اداروں کی کارکردگی اور ان کے سربراہان کی اہلیت و صلاحیت کے سامنے بڑا سوالیہ نشان ہے۔

ملک کے طول و ارض میں آئے روز ہونے والے بم دھماکوں، خودکش حملوں، ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں نہتی انسانی جانوں کے اتلاف پر ہر محب وطن پاکستانی نہ صرف متفکر اور پریشان ہے بلکہ شدید عدم تحفظ کے خوف میں مبتلا ہے۔ کراچی کے علاقے عباس ٹائون میں ہونے والے بم دھماکوں سے شہر قائد پھر آگ و خون میں ڈوب گیا، پھر مائوں کی گود اجڑ گئی، بہنوں کے سہاگ لٹ گئے، معصوم بچے یتیم ہو گئے، لواحقین کی آہ و فغاں نے شہر خوباں میں شام غریباں برپا کر دی۔ عین نماز مغربین کے وقت عباس ٹائون دل دہلا دینے والے خوفناک دھماکوں کی گونج سے لرز اٹھا جب 150 کلو گرام بارود سے بھری گاڑی عباس ٹائون کے مرکزی دروازے کے ساتھ دھماکے سے اڑا دی گئی، نتیجتاً50 کے قریب افراد جاں بحق اور150 کے لگ بھگ زخمی ہو گئے، درجنوں دکانوں اور مکانوں کو آگ کے لپکتے شعلوں نے جلا کے بھسم کر دیا۔

کراچی پولیس کے ایس ایس پی (سی آئی ڈی) برائے انتہا پسندی سیل جناب محمد اسلم خان کے بقول عباس ٹائون میں کچھ عرصے قبل بھی دھماکے ہوئے جس میں کالعدم تنظیم تحریک طالبان ملوث تھی اور اس کے کچھ ملزمان کو گرفتار بھی کیا گیا، کیا آج عباس ٹائون کے مکینوں کو آگ و خون میں نہلانے والے دہشت گردوں کو بھی گرفتار کیا جا سکے گا؟ یوں تو صدر، وزیراعظم، گورنرز، وزرائے اعلیٰ اور سیاسی و مذہبی رہنمائوں نے عباس ٹائون سانحے پر گہرے دکھ و افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اس کی شدید مذمت کی ہے۔ ارباب اقتدار نے واقعے میں ملوث ملزمان کو گرفتار کرنے اور کیفر کردار تک پہنچانے کے دعوے بھی کیے ہیں لیکن ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا۔

ملک بھر میں ہونے والے دہشت گردی کے ہر واقعے کے بعد اسی قسم کے بیانات، وعدے اور دعوے اور مذمتیں اخبارات کی زینت بنتی ہیں پھر جیسے جیسے شہداء کا کفن میلا ہوتا ہے اور بیانات کی سیاہی خشک ہوتی ہے تو تمام دعوے اور وعدے بھی ہوا میں تحلیل ہو جاتے ہیں اور زندگی کا کارواں پھر ہجوم دنیا میں رواں دواں ہو جاتا ہے۔ یہ سلسلہ گزشتہ کئی سالوں سے جاری ہے، کراچی کے دو کروڑ شہری خوف اور دہشت کے اذیت ناک ماحول میں زندگی بسر کر رہے ہیں، گھر سے صبح نکلنے والے مرد و زن شام ڈھلے گھر پہنچنے تک تمام دن موت کے ساتھ سفر کرتے ہیں۔

جیسے کسی مقتل سے گزر رہے ہوں، روشنیوں کے شہر میں موت کے اندھیروں کا راج ہے، ہر روز10 سے 12 افراد ٹارگٹ کلنگ کی نذر ہو جاتے ہیں، کبھی زبان کی بنیاد پر، کبھی علاقے کی بنیاد اور کبھی فرقے کی بنیاد پر لوگوں کا خون بہایا جا رہا ہے اور کوئی پرسان حال نہیں، صدر آصف علی زرداری، وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف اور آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی ملک سے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے بلا شبہ پرعزم ہیں ملک کی سیاسی و مذہبی جماعتیں بھی اس عفریت کی بیخ کنی میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے آمادہ ہیں۔ اے پی سی اور گرینڈ جرگہ کی بازگشت بھی سنائی دے رہی ہے اور طالبان کی جانب سے مذاکرات کی پیشکش پر غور و فکر بھی کیا جا رہا ہے۔ لیکن ان سب چیزوں کے باوجود خودکش حملوں، بم دھماکوں، ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں بجائے کمی کے اضافہ ہو رہا ہے جو سمجھ سے بالا تر ہے۔

عباس ٹائون سانحے کی کڑیاں گزشتہ دو ماہ میں کوئٹہ میں ہونے والے خونی واقعات سے جوڑی جا رہی ہیں جہاں شیعہ کمیونٹی کو نشانہ بنایا گیا تھا اور ایک کالعدم تنظیم نے اس کی ذمے داری قبول کی تھی، عباس ٹائون میں بھی شیعہ کمیونٹی کی آبادی کو نشانہ بنایا گیا جو بلا شبہ ملک میں فرقہ واریت، مذہبی منافرت بالخصوص شیعہ سنی فسادات کی آگ بھڑکانے، امن و امان تباہ کرنے اور ملکی نظم و نسق کو چیلنج کرنے کی خوفناک سازش ہے۔

وزیر داخلہ رحمٰن ملک کے بقول ملک میں ہونے والی80 فیصد دہشت گردی کی کارروائیوں میں لشکر جھنگوی ملوث ہے، جس کے مراکز پنجاب کے ضلع جھنگ میں واقع ہیں، انھوں نے پنجاب حکومت سے لشکر کے خلاف کارروائی کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ لشکر کے علاوہ بھی ملک میں متعدد جہادی تنظیمیں سر گرم عمل ہیں ان تنظیموں کو جنرل ضیاء الحق کے دور میں فروغ حاصل ہوا۔ پہلے جہاد کشمیر اور پھر جہاد افغانستان کے دوران ان تنظیموں کو خوب پھلنے پھولنے کے مواقع میسر آئے نتیجتاً جب سوویت یونین کی شکست کے بعد جہاد کشمیر کے محاذ پر بھی سرگرمیاں مانڈ پڑ گئیں تو ان تنظیموں نے ملک کے طول و ارض میں اپنے نیٹ ورک قائم کر لیے جس کے نتیجے میں وطن عزیز میں فرقہ واریت، مسلکی اختلافات اور مذہبی منافرت پھیلنے لگی۔

بد قسمتی سے اپنے مسلکی نظریے کی ہر صورت بالا دستی اور عدم برداشت کے کلچر میں تشدد کا آمیزہ بھی شامل ہو گیا اور پورا ملک متشدد فرقہ وارانہ سانحات کی لپیٹ میں آتا چلا گیا۔ حکومت نے حالات کی سنگینی کے پیش نظر گزشتہ8/10برسوں میں متعدد جہادی تنظیموں پر پابندی لگائی جن میں لشکر طیبہ، سپاہ صحابہ، تحریک جعفریہ، جیش محمد، تحریک نفاذ شریعت، سپاہ محمد، لشکری جھنگوی، حرکت المجاہدین، حزب التحریر اور الرشید ٹرسٹ و دیگر شامل ہیں۔ لیکن انھی تنظیموں نے اپنے نام بدل کر کسی دوسرے پلیٹ فارم سے اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ملک سے فرقہ واریت کی چنگاریاں پوری طرح بجھ نہ سکیں اور وقفے وقفے سے شعلہ بن کر لپکتی ہیں اور سیکڑوں بے گناہ لوگوں کی زندگیوں کو نگل جاتی ہیں، سوال یہ ہے کہ یہ سلسلہ کب تک چلے گا، کب تک گلی گلی جنازے اٹھتے رہیں گے، کب تک گھر گھر شام غریباں کا ماتم برپا ہوتا رہے گا، اس قوم کو مذہبی منافرت اور فرقہ واریت کی آگ و خون کے ابھی اور کتنے دریا عبور کرنا ہوں گے۔

ہمارے ارباب اقتدار اور عسکری قیادت، سیاسی و مذہبی رہنمائوں، علمائے کرام، دینی اسکالرز اور محب وطن حلقوں کو مل کر بیٹھنا اور سوچنا چاہیے کہ وہ اپنے قول و فعل سے پاکستان کے حوالے سے دنیا کو کیا پیغام دے رہے ہیں، ہمیں بحیثیت اجتماعی فیصلہ کرنا چاہیے کہ ہم اپنی آیندہ نسلوں کو کیسا پاکستان دینا چاہتے ہیں۔ لہو میں ڈوبا ہوا دہشت زدہ اور بد حال پاکستان یا امن و آشتی کا گہوارہ ایک مثالی اور خوشحال پاکستان! جان لو کہ ’’فیصلے کی گھڑی" آن پہنچی ہے اگر ارباب حل و عقد خواب غفلت سے بیدار نہ ہوئے تو سب کچھ تباہ ہو جائے گا۔

ربط
 
Top