فیس بک نے کشمیر مارچ سے قبل جماعت اسلامی کے پیجز بلاک کردیے

جاسم محمد

محفلین
فیس بک نے کشمیر مارچ سے قبل جماعت اسلامی کے پیجز بلاک کردیے
ڈان اخبار | ویب ڈیسک10 دسمبر 2019

رپورٹ کے مطابق ترجمان جماعت اسلامی نے کہا کہ اسلام آباد میں 22 دسمبر کو ان کا کشمیر مارچ شیڈول ہے لیکن اس سے قبل ہی فیس بک نے پیجز کو بلاک کردیا۔

ترجمان نے مزید کہا کہ فیس بک انتظامیہ نے بغیر کسی پیشگی اطلاع یا انتباہ کے اپنے پلیٹ فارم سے ان کے صفحات اور ان کے لیڈرز، کارکنان اور ہمدرد جو کشمیر کاز کے لیے پارٹی کے رجحان پر عمل پیرا تھے انہیں بھی ہٹا دیا۔

انہون نے الزام عائد کیا کہ اس طرح حقیقت میں بھارتی لابی فیس بک میں اعلیٰ سطح پر کام کر رہی ہے، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی، ان کے کارکنان اور فالوورز کو مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کی سزا دی گئی۔

جماعت اسلامی کے ترجمان کا کہنا تھا کہ یہ وقت ہے کہ حکومت صرف مذمتی بیان جاری کرنے کے بجائے ٹھوس اور عملی اقدامات اٹھائے کیونکہ یہ اب کوئی خفیہ نہیں رہا کہ فیس بک اسلامی ممالک کے خلاف تنقید کی اجازت دیتا ہے لیکن جب بھارت اور کچھ دیگر ممالک کی بات آئے تو آواز کو دبا دیا جاتا ہے۔

خیال رہے کہ یہ کوئی پہلی دفعہ نہیں ہوا کہ فیس بک اور ٹوئٹر نے کشمیر کے معاملے پر پاکستانی اکاؤنٹس معطل یا بند کردیے، اس سے قبل بھی کشمیر کی حمایت اور بھارت کی مخالفت میں کی گئی کئی پوسٹس اور اکاؤنٹس کو ہٹایا گیا تھا۔

رواں سال اگست میں پاکستان کے ایک انگریزی اخبار ایکسپریس ٹریبیون کے نمائندے کا اکاؤنٹ اس وقت بند کردیا گیا تھا جب انہوں نے بھارت کے وزیر دفاع راجناتھ سنگھ کے ٹوئٹ پر رد عمل دیتے ہوئے ٹوئٹ کیا تھا۔

واضح رہے کہ 5 اگست کو ہی بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ کرتے ہوئے وہاں کرفیوں اور دیگر پابندیاں عائد کردی تھی جبکہ مواصلاتی نظام بھی معطل کرتے ہوئے لاکھوں فوجیوں کے ذریعے علاقے کو چھاؤنی میں تبدیل کردیا تھا۔

نمائندے کے اکاؤنٹس سے متعلق ویب سائٹ کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ بھارتی حکام نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ہی یہ اعتراف کیا کہ وہ کشمیر کی حمایت میں بولنے والے اکاؤنٹس کی بندش کے لیے متعلق ویب سائٹس پر دباؤ ڈال رہے ہیں۔

پوئینٹر انسٹیٹیوٹ کے مطابق فیس بک کے حقیقت جانچنے کے شراکت دار سب سے زیادہ بھارت میں ہی موجود ہیں جبکہ امریکا دوسرے نمبر پر ہے۔

علاوہ ازیں اگست میں ہی پاکستان نے سماجی رابطے کی ویب سائٹس فیس بک اور ٹوئٹر کے ساتھ مقبوضہ کشمیر کی حمایت میں بیان شائع کرنے پر بند کیے جانے والے پاکستانی اکاؤنٹس کا معاملہ اٹھادیا تھا۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) میجر جنرل آصف غفور نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا تھا کہ کشمیر کی حمایت میں بولنے والے اکاؤنٹس کو بند کیا جارہا ہے، تاہم پاکستانی حکام نے ان اکاؤنٹس کی مبینہ بندش کا معاملہ فیس بک اور ٹوئٹر صارفین کے سامنے اٹھادیا ہے۔
 

عدنان عمر

محفلین
فیس بک نے کشمیر مارچ سے قبل جماعت اسلامی کے پیجز بلاک کردیے
ڈان اخبار | ویب ڈیسک10 دسمبر 2019

رپورٹ کے مطابق ترجمان جماعت اسلامی نے کہا کہ اسلام آباد میں 22 دسمبر کو ان کا کشمیر مارچ شیڈول ہے لیکن اس سے قبل ہی فیس بک نے پیجز کو بلاک کردیا۔

ترجمان نے مزید کہا کہ فیس بک انتظامیہ نے بغیر کسی پیشگی اطلاع یا انتباہ کے اپنے پلیٹ فارم سے ان کے صفحات اور ان کے لیڈرز، کارکنان اور ہمدرد جو کشمیر کاز کے لیے پارٹی کے رجحان پر عمل پیرا تھے انہیں بھی ہٹا دیا۔

انہون نے الزام عائد کیا کہ اس طرح حقیقت میں بھارتی لابی فیس بک میں اعلیٰ سطح پر کام کر رہی ہے، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی، ان کے کارکنان اور فالوورز کو مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کی سزا دی گئی۔

جماعت اسلامی کے ترجمان کا کہنا تھا کہ یہ وقت ہے کہ حکومت صرف مذمتی بیان جاری کرنے کے بجائے ٹھوس اور عملی اقدامات اٹھائے کیونکہ یہ اب کوئی خفیہ نہیں رہا کہ فیس بک اسلامی ممالک کے خلاف تنقید کی اجازت دیتا ہے لیکن جب بھارت اور کچھ دیگر ممالک کی بات آئے تو آواز کو دبا دیا جاتا ہے۔

خیال رہے کہ یہ کوئی پہلی دفعہ نہیں ہوا کہ فیس بک اور ٹوئٹر نے کشمیر کے معاملے پر پاکستانی اکاؤنٹس معطل یا بند کردیے، اس سے قبل بھی کشمیر کی حمایت اور بھارت کی مخالفت میں کی گئی کئی پوسٹس اور اکاؤنٹس کو ہٹایا گیا تھا۔

رواں سال اگست میں پاکستان کے ایک انگریزی اخبار ایکسپریس ٹریبیون کے نمائندے کا اکاؤنٹ اس وقت بند کردیا گیا تھا جب انہوں نے بھارت کے وزیر دفاع راجناتھ سنگھ کے ٹوئٹ پر رد عمل دیتے ہوئے ٹوئٹ کیا تھا۔

واضح رہے کہ 5 اگست کو ہی بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ کرتے ہوئے وہاں کرفیوں اور دیگر پابندیاں عائد کردی تھی جبکہ مواصلاتی نظام بھی معطل کرتے ہوئے لاکھوں فوجیوں کے ذریعے علاقے کو چھاؤنی میں تبدیل کردیا تھا۔

نمائندے کے اکاؤنٹس سے متعلق ویب سائٹ کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ بھارتی حکام نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ہی یہ اعتراف کیا کہ وہ کشمیر کی حمایت میں بولنے والے اکاؤنٹس کی بندش کے لیے متعلق ویب سائٹس پر دباؤ ڈال رہے ہیں۔

پوئینٹر انسٹیٹیوٹ کے مطابق فیس بک کے حقیقت جانچنے کے شراکت دار سب سے زیادہ بھارت میں ہی موجود ہیں جبکہ امریکا دوسرے نمبر پر ہے۔

علاوہ ازیں اگست میں ہی پاکستان نے سماجی رابطے کی ویب سائٹس فیس بک اور ٹوئٹر کے ساتھ مقبوضہ کشمیر کی حمایت میں بیان شائع کرنے پر بند کیے جانے والے پاکستانی اکاؤنٹس کا معاملہ اٹھادیا تھا۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) میجر جنرل آصف غفور نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا تھا کہ کشمیر کی حمایت میں بولنے والے اکاؤنٹس کو بند کیا جارہا ہے، تاہم پاکستانی حکام نے ان اکاؤنٹس کی مبینہ بندش کا معاملہ فیس بک اور ٹوئٹر صارفین کے سامنے اٹھادیا ہے۔
ابوالعلامعرّیؔ

کہتے ہیں کبھی گوشت نہ کھاتا تھا معّری
پھل پھُول پہ کرتا تھا ہمیشہ گزر اوقات

اک دوست نے بھُونا ہوا تِیتر اسے بھیجا
شاید کہ وہ شاطِر اسی ترکیب سے ہو مات

یہ خوانِ تر و تازہ معّری نے جو دیکھا
کہنے لگا وہ صاحبِ غفران و لزومات

اے مُرغکِ بیچارہ! ذرا یہ تو بتا تُو
تیرا وہ گُنہ کیا تھا یہ ہے جس کی مکافات؟

افسوس، صد افسوس کہ شاہیں نہ بنا تُو
دیکھے نہ تری آنکھ نے فطرت کے اشارات

تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جُرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات!

(علامہ اقبال)
 
Top