فکر انگیز کالم: کیا نظام خطرے میں ہے...جرگہ۔۔۔۔۔۔سلیم صافی

http://beta.jang.com.pk/NewsDetail.aspx?ID=158822
تاریخیں دینا اپنی عادت ہے اور نہ نجومیوں کی طرح پیشنگوئیاں کرنااہل صحافت کا شیوہ سمجھتا ہوں تاہم تجزئیے کی بنیاد پر کہہ سکتا ہوں کہ جمہوریت مستحکم ہے‘ اور نہ خطرہ ٹل گیا ہے ۔ خطرہ برقرار ہے بلکہ وقت کے ساتھ بڑھتا جارہا ہے ۔ سردی آگئی ہے اورکینیڈا کی شدید سردی سے بچنے کے لئے ڈاکٹر علامہ طاہرالقادری ماحول گرم کرنے اورپکنک منانے پاکستان آرہے ہیں۔ لیکن ڈاکٹر صاحب اب کے بار خطرہ نہیں۔ وجہ صاف ظاہر ہے ۔ کینٹینر بنانے والوں نے فی الحال یہ کام چھوڑ دیا ہے ۔ان دنوں پنڈی یا آبپارہ میں فائیواسٹار کینٹینر نہیں بنتے۔ اب کی بار میاں شہباز شریف انہیں اس سہولت کے ساتھ پنجاب سے نکلنے نہیں دیں گے جس طرح کہ انہوں نے پچھلی بار تزک واحتشام کے ساتھ پنجاب سے اسلام آباد رخصت کروایا تھا۔ اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے تحریک انصاف کی سرپرستی بھی اب اس شان سے نہیں ہورہی ۔ یوں وہ بھی بڑا میدان سجا نہیں سکتی ۔ فوج وزیرستان تا بلوچستان اور کراچی تا بلتستان الجھی ہوئی ہے ۔ یوں اس کی قیادت سسٹم کو ہلانے کا اور خود گند کا ٹوکرا اپنے سر لینے کا سوچ بھی نہیں سکتی ۔ویسے بھی موجودہ فوجی قیادت شریف اور شریف کی نامزد کردہ ہے ۔تو پھر نظام کو کس سے خطرہ ہے؟ ۔ میرے نزدیک نظام کو کسی اور سے نہیں خود حکمرانوں سے خطرہ ہے ۔ وہ حکمران جو نام تو جمہوریت کا لیتے ہیں لیکن مزاج ان کا شاہانہ ہے ۔ جو پارلیمنٹ کی بالادستی کی دہائی دیتے ہیں لیکن خود اسے رتی بھر اہمیت نہیں دیتے ۔ جو آمروں کے خلاف جدوجہد کاکریڈٹ لیتے ہیں لیکن ملک اور پارٹیوں کو آمرانہ انداز میں چلارہے ہیں ۔جب سے اقتدار سنبھالا ہے ‘ تب سے مسلم لیگ(ن) بحیثیت پارٹی معطل کردی گئی ہے ۔ بدترین خاندانی آمریت کا مظاہرہ دیکھنے کو مل رہا ہے ۔ ایک ہی گھرانے کے لوگ فیصلے کرتے ہیں ۔ فیصلہ سازی میں مسلم لیگ(ن) کے مرکزی جنرل سیکرٹری اقبال جھگڑا سے حمزہ شہباز کی اہمیت ہزار گنا جبکہ خارجہ امور میں سلمان شہباز کا رول سرتاج عزیز سے سو گنا زیادہ ہے ۔ پیر صابرشاہ‘ سید غوث علی شاہ اور ذوالفقار کھوسہ جیسے لوگ وزیراعظم سے ملنا تو درکنار ٹیلی فون پر بات کرنے کے لئے ترس رہے ہیں۔ ہندوستان جیسے ملک کے ساتھ اہم معاملات بھائی اور بھتیجا طے کررہے ہیں جبکہ خارجہ امور کے ا سپیشل اسسٹنٹ ان کے ذاتی اسسٹنٹ کے طور پر ان کے ساتھ ہندوستان جاتے ہیں۔ ترکی جیسے دوست ملک کے تعلق کو پاکستان کے ساتھ تعلق کی بجائے ایک خاندان کے ساتھ تعلق میں تبدیل کیا جارہا ہے ۔ اسلام آباد کی بجائے انہیں لاہور بلایا گیا۔ وہاں ان کے ساتھ وہی تین چارمخصوص چہرے نظرآئے ۔ پھر انہیں اسلام آباد بلایا گیا لیکن یہاں صدر اور وزیراعظم کی دعوتوں میں اپوزیشن تو کیا اتحادی جماعتوں کے رہنمائوں کو بھی مدعو نہیں کیا گیا۔ اس طرح تو عمران خان تحریک انصاف کو بھی نہیں چلارہے ہیں جس طرح کہ یہ شرفاء پاکستان کو چلانے لگے ہیں۔ یہی معاملہ پیپلز پارٹی کا بھی ہے ۔ بدترین انتخابی شکست کے بعد بھی زرداری صاحب نے سبق نہیں سیکھا۔ وہی پرانا شاہانہ انداز ۔ بھائی اور بہن بیٹھ کر پارٹی عہدوں پر تقرری اور تنزلی کرتے ہیں۔ حسب سابق رضاربانی‘ سید خورشید شاہ ‘ اعتزاز احسن اور قمرزمان کائرہ جیسے باصلاحیت لوگ دکھاوے اور سیاست کے لئے رکھے گئے ہیں جبکہ پارٹی اور سندھ کی حکومت کو اسی طرح بھان متی کے کنبے اور بھتہ جمع کرنے والوں کے ذریعے چلایاجارہا ہے ۔ بلوچستان میں ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ وزارت اعلیٰ کے حصول اور شریفانہ گفتگو کو بلوچوں کے مسائل کا حل سمجھ بیٹھے ہیں جبکہ اپنے پورے خاندان کو حکمران بنانے کے بعد محمود خان اچکزئی مطمئن ہوگئے ہیں کہ پختونوں کی صدیوں کی محرومیاں دور ہوگئیں اور ان کے سارے مسائل حل ہوگئے۔ پختونخوا کے لوگوں نے تحریک انصاف کی صورت میں جو نیا تجربہ کیا وہ ان کو بہت مہنگا پڑرہا ہے ۔ جنوبی پنجاب اور دیگر صوبوں کے لوگ تو صرف تخت لاہور کا رونا رورہے ہیں لیکن خیبرپختونخوا میں تخت لاہور کے ساتھ ساتھ تخت بنی گالہ اور اس سے بڑھ کر تخت لودھراں کا ماتم ہورہا ہے ۔ اور تو اور خود تحریک انصاف خیبرپختونخوا کے کارکن‘ عہدیدار حتیٰ کہ وزیر بھی انصاف مانگ رہے ہیں۔ وہ سوال اٹھاتے ہیں کہ اگر جہانگیر ترین صاحب واقعی اتنے باکمال تھے تو اپنے صوبے میں تحریک انصاف کو کیوں کامیابی نہ دلواسکے اور یہ کہ جیتے ہوئے عوام کے منتخب نمائندوں کی مہار اس ہارے ہوئے باہر کے صوبے کے شخص کے ہاتھ میں کیوں دے دی گئی ہے ۔ جمہوریت کے نام پر ملک کے سیاہ و سفید کے مالک بن جانے والے جمہوریت کے ان دعویداروں کی جمہوریت پسندی کا اندازہ تو بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے ان کے لیت و لعل سے لگایا جاسکتاہے۔ صوبائی خودمختاری کا چیمپئن ہر کوئی بن رہا ہے لیکن اپنے صوبے کے اندر وسائل کی منصفانہ تقسیم کے لئے کوئی تیار نہیں ۔ اٹھارویں آئینی ترمیم کے تحت صوبوں کو تو خاطر خواہ وسائل مل گئے لیکن سندھ سے لے کر خیبرپختونخوا تک اور پنجاب سے لے کر بلوچستان تک کسی بھی صوبائی حکومت نے صوبائی فنانس کمیشن ایوارڈ کا اعلان نہیں کیا تاکہ اضلاع کے درمیان بھی وسائل منصفانہ بنیادوں پر تقسیم ہوں۔ کاٹن کی پیداوار جنوبی پنجاب میں ہورہی ہے لیکن گارمنٹس سٹی لاہور میں قائم کیا جارہا ہے۔ مسلم لیگ(ن) کو پورے پنجاب سے کامیابی ملی ہے لیکن خواتین ایم پی ایز میں سے تیس سے زائد کا تعلق لاہور شہر سے ہے ۔گویا یہ لوگ اپنے لئے تو اختیار مانگتے ہیں لیکن جمہوری اصولوں کے مطابق نیچے اختیار دینے کے روادار نہیں۔ وہ وسائل پر تو اپنا اختیار مانگتے ہیں لیکن پھر اپنے صوبے کے اندر میرٹ کی بنیاد پر وسائل تقسیم کرنے کو تیار نہیں۔ اللہ کرے ایسا نہ ہو لیکن اگر روئیے یہی رہے تو خاکم بدہن سسٹم کا بوریا بستر گول ہوکر رہے گا ۔ پھر جب ان لوگوں کے کرتوتوں کی وجہ سے نظام لپیٹا جائے گا تو یہ لوگ ہمیں بتایا کریں گے کہ ان کے پاس تو اقتدار تھا لیکن اختیار نہیں تھا اور وہ تو یہ یہ کچھ کرنا چاہتے تھے لیکن فوج نے انہیں کرنے نہیں دیالیکن اب ایک بار پھر فوج کے ساتھ بھی بدترین سیاست ہورہی ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت قبائلی علاقوں‘ سوات اور بلوچستان میں جو فوجی تعینات ہیں ‘ وہ شدید ترین بلکہ بدترین آزمائش سے دوچار ہیں۔ وہ گھروں سے دور قربانیاں دے رہیں لیکن جواب میں ان کو عوام کی طرف سے مطلوبہ حمایت اور محبت نہیں ملتی ۔ ان علاقوں میں ان سے پولیسنگ کا کام لیا جاتا ہے اور ا س کام کے لئے ان کی کوئی تربیت نہیں ہوئی ۔ جس کی وجہ سے عوام کوبھی شکایات پیدا ہوتی ہیں اور میرعلی جیسے سانحات بھی پیش آرہے ہیں ۔ فورسز کے یہ لوگ جس آزمائش سے پچھلے دس سال میں دوچار تھے‘ آج اس سے بھی بدترین صورت حال میں پھنسے ہوئے ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ بلوچستان کے مسئلے کو سیاسی طریقے سے حل کیا جائے گا لیکن گزشتہ سات سال میں کوئی سنجیدہ کوشش نظر نہیں آئی ۔ طالبان سے متعلق کہا جارہا ہے کہ ان سے مذاکرات ہی پہلا آپشن ہے لیکن مذاکرات ہوئے اور نہ ہوتے نظرآرہے ہیں ۔ میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ کوئی مذاکرات نہیں ہورہے تھے لیکن اگر حکومتی دعویٰ درست ہے تو پھر بتایا جائے کہ مذاکرات کس سے اور کس کے ذریعے ہورہے تھے ۔ یا پھر یہ کہ اب حکومت مذاکرات کے سلسلے میں کیا کررہی ہے اور اگر مذاکرات نہیں ہوسکتے یا نہیں ہورہے تو متبادل راستہ کیا ہے۔ بعض اوقات تو ایسا گمان ہوتا ہے کہ جان بوجھ کر فوج کو اس آزمائش میں رکھاجارہا ہے اورشاید منظم منصوبے کے تحت اس سے عوام کو متنفر کیا جارہا ہے تاکہ حکمرانوں کو دیگر محاذوں پر من مانی کرنے کا موقع میسر آئے اور اگر ایسا نہیں ہے تو پھر طالبان‘ بلوچستان اور افغانستان وغیرہ پر فوج کو کوئی جامع اور متبادل پالیسی کیوں نہیں دی جارہی ۔ کل اگر فوج نے ماضی کی طرح اپنے لئے پالیسی خودبنادی تو پھر کیا ہوگا۔اقتدار کے نشے میں مست حکمران یہ کیوں نہیں سوچتے کہ اب کے بار تو شاید صدیق الفاروق جیسے چند دانے بھی ڈنڈے کھانے کے لئے موجود نہیں ہوں گے ۔ اب تو شاید پیر صابر شاہ بھی کلثوم نواز کے سر پر دوپٹہ ڈالنے کی زحمت گوارا نہ کرے اور اب کے بار تو شاید سعودی عرب بھی مداخلت کرنے نہ آئے
 
Top