فنا کی رات ۔۔۔۔۔۔ برائے اصلاح

صفی حیدر

محفلین
محترم الف عین صاحب اور دیگر اساتذہ و محفلین سے اصلاح کی درخواست ہے ۔۔۔۔۔
" فنا کی رات "
میں اکیلا تو نہیں ہوں
شب کی تنہائی میں تنہا تو نہیں ہوں
جو ازل سے ہے رواں اس قافلے کا میں ہوں حصہ
جس کی منزل ہے وجودِ ظاہری کا خاک ہونا
چاندنی ہے
آسماں روشن چمکتے ہوئے تاروں سے بھرا ہے
رات کی کھیتی میں پھیلی روشنی ہے
ایک آفاقی سکوتِ دلنشیں ہے
شب کی خاموشی میں ایسا لگ رہا ہے
کائناتی وسعتیں بانہوں کو پھیلائے فنا کے راستے پر منتظر ہیں
چاہتی ہیں میں بقا کی ہر تمنا بھول جا ئوں
اور بقائے نفس کی سب آرزوئیں ترک کر دوں
 

صفی حیدر

محفلین
بہت شکریہ سر عباد اللہ ۔۔۔ آپ نے اس مصرعے کو زیادہ بہتر اور رواں کر دیا ہے ۔۔۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
مجھے بھی وہی غلطی نظر آئی۔ مصرع بہتر اور رواں ہی نہیں، اوزان میں درست کر دیا ہے۔
آسماں روشن چمکتے ہوئے تاروں سے بھرا ہے
میں ’ہوئے‘ فاع کے وزن پر آ رہا ہے۔ درست وزن فعو ہے۔
 

صفی حیدر

محفلین
شکریہ سر الف عین ۔۔۔۔ آپ نے درست نشاندہی اور راہنمائی کی ۔۔۔ " ہوئے" کے وزن کو جانچنے میں مجھ سے چوک ہو گئی۔۔۔۔۔
اس مصرعے کی سر عباد اللہ نے اصلاح کر دی ہے ۔۔۔
 
Top