فلسفہ حسن

حسن کیا ہے ؟ جبکہ دنیا کے مختلف خطوں میں بسنے والے لوگوں کے نزدیک میعار حسن الگ الگ ہے۔ کسی مصری سے پوچھو کہ حسن کیا ہے تو وہ کہے گا گول چہرہ، سرخ رنگت، ابھرے ہوئے رخسار، لمبی آنکھیں۔ اور اگر کسی افریقی سے پوچھو تو وہ کہے گا کہ درمیانہ چہرہ، سیاہ رنگ، موٹے موٹے ہونٹ۔ اور اگر فرنگی سے یہی سوال کرو تو وہ جواب دیگا کہ سفید رنگ، موٹا چہرہ، باریک ہونٹ، تو اب کہیں کہ حسن کیا ہے ؟۔ نظریات میں کتنا تضاد ہے۔ کسی کی نظر میں وہ بہت حسین ہے جو دوسروں کی نگاہ میں نہایت بد صورت۔
ان باتوں کو جانچنے سے تو یہی نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ حسن کوئی بھی شے نہیں۔

تو جواب ہے۔ نہیں۔ بلکہ دنیا میں اگر کوئی چیز اپنا صحیح وجود رکھتی ہے تو وہ حسن ہی ہے۔ زمین و آسمان حسن کی کھلی ہوئی کتاب ہیں۔ چاندنی رات میں جو چیز روح کے پردوں میں گدگدیاں کرتی ہے وہ کیا ہے۔ حقیقی حسن!

پہاڑوں کی سنجیدگی، ندیوں کی روانی، آبشاروں کا ترنم، انسان کے ذہن پر جو اسرات مرتب کرتا ہے۔ وہ کیا ہے؟۔ یہی تو ہے وجود حسن و جمال۔
ہونٹوں کی بناوٹ خواہ کیسی ہو، ان پر صداقت کی سرخی ہونی چاہیئے۔ آنکھوں کی شباہت خواہ کیسی ہو، ان میں حیا کا نور ہونا چاہیے۔ چہرے کی نفاست خواہ کیسی ہو، ان میں شرافت کی جھلک ہونی چاہیئے۔ رخساروں کی قدامت خواہ کیسی ہو، ان میں پاکیزگی کا عکس ہونا چاہیے۔

گویا شرم و حیا، شرافت و پاکیزگی کے دلفریب و دلکش ملاپ کا نام حسن ہے۔ یہی ندی نالوں کی معصوم روانی، اور چندا کی پاک چاندنی میں ہے اور یہی پھول پتوں کی زندگی بخش مسکراہٹ میں پنہاں ہے۔

شاید یہ ایک خمریاتی و جمالیاتی حسین الجھاؤ ہے۔ جس کا مکمل سلجھاؤ انسانی فہم و ادراک سے بالاتر ہے۔
 
Top