فغان مجنوں

متلاشی

محفلین
السلام علیکم!
میں’’ فغان مجنوں ‘‘ کے نام سے ایک نیا تھریڈ شروع کر رہا ہوں۔ اس تھریڈ میں وقتآ فوقتآ اپنی تحاریر بھیجتا رہوں گا ۔ امید ہے آُپ کو پسند آئیں گی۔۔۔
میری اب تک لکھی گئی تحاریر کی تعداد تین جو کہ درج ذیل ہیں:
1. آشنائے محبت
2. اگست سے اگست تک
3. جستجو
آپ یہ تمام تحاریر یہاں پڑھ سکتے ہیں۔ اپنی رائے سے ضرور نوازئیے گا.
شکریہ
والسلام
متلاشی۔۔۔۔!
 

متلاشی

محفلین
آشنائے محبت!
وہ دن…! میری زندگی کے بدترین دنوں میں سے ایک تھا…مگر وہ رات میری زندگی کی حسین ترین رات تھی … ہاں … میں اس دن صبح بہت پرجوش تھا … اور کیوں نہ ہوتا … آخر کوآج بہت دنوں بعد مجھے انٹرویو کے لئے بلایا گیا تھا … میں پچھلے کئی ماہ سے ملازمت کی تلاش میں سرگرداں تھا … مگر صدحیف… ابھی تک مجھے کوئی اچھا روزگارنہ مل سکا تھا …خیر … میں تیار ہو کر انٹرویو کے لئے نکل کھڑا ہوا … بہت سے ارمان دل میں بسائے ہوئے میں بس سٹاپ تک پہنچا …اور پھراک حسین زندگی کا خواب لیے ہوئے میں وہاں سے انٹرویو آفس تک پہنچاتھا … وہاں مجھ جیسے اور بھی بیسیوں لوگ تھے … میں بھی اُن کی طرح انتظا رگاہ میں بیٹھ گیا …اور دل ہی دل میں اک خوبصورت اور حسین زندگی کے خواب دیکھتا رہا… آخر اﷲ اﷲ کر کے میری باری آئی … مجھ سے سرسری سا انٹرویو لیا گیا … مگر میں نے تمام سوالات کے درست جوابات دئیے تھے … میرے بعد دوسرے لوگوں نے بھی اپنی اپنی باری پر انٹرویو دیا … اب آخر میں منتخب امیدواروں کا اعلان ہونا تھا … مجھے پوری امید تھی کہ میرا نام بھی ان میں شامل ہو گا…مگر جب اعلان ہوا تو میرا نام منتخب امیدواروں میں شامل نہ تھا …شاید اس لیے کہ میرے ساتھ، دوسرے امیدواروں کی طرح، کسی بڑے آدمی کی سفارش نہ تھی …مجھے سخت مایوسی ہوئی … میرے ارمانوں کا خون ہو گیا تھا… میرے ،اک حسین زندگی کے خواب چکنا چور ہوگئے تھے…بڑی مشکل سے میں گھر تک پہنچا … اور پھر اپنے آپ کو کمرے میں بند کر لیا … وہ دن میری زندگی کے بد ترین دنوں میں سے ایک تھا … میں بہت پریشان تھا …مایوسیوں نے میرے دل میں گھر کر لیا تھا… میرا سارا دن اسی کیفیت میں گزرگیا…باہر رات ڈھل رہی تھی…میں اس وقت اپنی زندگی کی ناکامیوں کویاد کر رہا تھا …جن میں امتحان کی ناکامیاں … بہتر ملازمت کے حصول کی ناکامیاں … اور سب سے بڑھ کر محبت کی ناکامیاں شامل تھیں … میں اپنی ان ناکامیوں کو یاد کر کے اپنی قسمت کو کوس رہا تھا … اورساتھ ساتھ اپنی ناکام محبت کا رونا بھی رو رہا تھا … میں سوچ رہا تھا … کہ یہ محبت فضول ہے … بکواس ہے … یہ زندگی کی بربادی کا دوسرا نام ہے … اس نے ہزاروں گھر اُجاڑے ہیں … اس نے لاکھوں دل توڑے ہیں … اس نے بے شمار انسانوں کو قتل کیا ہے … یہ بڑی ظالم ہے … بڑی ظالم … نہ جانے ابھی میں اور کیا کیا سوچتا کہ …اک چندھیا دینے والی روشنی نے میری سوچوں کا سلسلہ منقطع کر دیا … !
وہ اک حسن کا پیکر تھا … وہ اک بے مثل صورت تھی … وہ اک نور کا مجسمہ تھا … اس کے آنے سے میرے چاروں طرف روشنی ہی روشنی پھیل گئی … مجھے تازہ ہوا کے جھونکے آنے لگے … اک دلفریب خوشبو سے پورا ماحول معطر ہو گیا …وہ اک خواب ناک ماحول تھا …… وہ انسان تھا نہ جن … پھروہ کیا تھا ؟… میرے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت گویا صلب ہو گئی تھی… میں متواتر اس بے مثل صورت کو تکے جا رہا تھا… کاش کہ میں عمر بھر بت بنے اسے دیکھتا ہی رہتا …میرا ذہن ماؤف ہو چکا تھا … مجھے ارد گرد کا کچھ ہوش نہ تھا …کہ اُس کے لبوں نے اک خفیف سی جنبش کی … شاید اس نے میرا نام پکار ا تھا … اس کی آواز کے ترنم اور شیرینی نے دنیا بھر کی موسیقی کو مات دے دی تھی … میں اس کی آواز کے نشے میں مدہوش سا ہو گیا تھا کہ اس نے پھر سے مجھے پکارا…اک دم میں ہوش میں آگیااور گھبرا کرپوچھا … جج … جی … آپ کون ہیں …؟میری گھبراہٹ کو دیکھ کر اس کے لبوں پر اک حسین مسکراہٹ پھیل گئی … شاید وہ میری اس حالت سے محظوظ ہو رہی تھی … میں محبت ہوں … (میں محبت ہوں …محبت ہوں… محبت…!) اس کی آواز کی باز گشت مجھے دیر تک سنائی دیتی رہی … مجھے ایسے محسوس ہوا جیسے یہ اس کی آواز نہ ہو بلکہ میرے دل کی آوا ز ہو … مجھے اپنے کانوں پر یقین نہ آیا … جج… جی … کیا کہا آپ نے… ؟ میں ابھی تک گھبرایا ہوا تھا … ہاں … میں محبت ہوں …محبت … اور میں تمہیں یہ بتلانے آئی ہوں کہ تم نے مجھے غلط سمجھا ہے … میں تمہاری ناکامیوں کی ذمہ دا ر نہیں ہوں … میں ظالم نہیں ہوں … !جی … وہ کیسے…؟ میں نے اس سے پوچھا … اب میں اپنی ہکلاہٹ پر کافی حد تک قابو پا چکا تھا…سنو… اور غور سے سنو… وہ گویا ہوئی … اور میں ہمہ تن گوش اسے سننے لگا … وہ کہہ رہی تھی…
میں اک حقیقت ہوں … میں اک عبادت ہوں… میں زندگیاں برباد کرنے والی نہیں … میں تو خود زندگی ہوں … میں دلوں کو توڑنے والی نہیں… بلکہ دلوں کو ملانے والی ہوں … میرا کام لوگوں کے گھر اجاڑنا نہیں … بلکہ بسانا ہے … میں انسانوں کی نہیں … نفرتوں اور جفاؤں کی قاتل ہوں … میں ظالم نہیں … میں مظلوم ہوں … ہاں … میں مظلوم ہوں … جس کا جیسے جی چاہا … اس نے مجھے ویسے معنی دینا شروع کر دیے…کسی نے اپنی ہوس پرستی کو میرا نام دے ڈالا … تو کسی نے مجھے اپنی انا کی تسکین کا ذریعہ بنایا … کسی نے مجھ میں جھوٹ اور فریب کی آمیزش کی … تو کسی نے مجھے دکھلاوے کے طور پر استعمال کیا … کسی نے اپنی غرض پوری کرنے کے لئے مجھے بدنام کیا … تو کسی نے مجھے دوسروں کے قرب اور جسم کے حصول کا ذریعہ بنا کر میری توہین کی … کسی نے وعدے بھلا کر مجھے پامال کیا … تو کسی نے نفرتوں کے بیج بو کر میرے مقابل جفاکو لا کھڑا کیا … کسی نے مجھے گالی کے طور پر استعمال کر کے میرا مذاق اڑایا … تو کسی نے میری لازوال وفاؤں کو زوال پذیر بنا ڈالا … غرض جس نے جیسا چاہا میرے ساتھ ویسا سلوک کیا … مگر افسوس… کسی نے میری حقیقت کو نہ سمجھا… کسی نے میری سچائی کو نہ جانا… جب مجھے یوں سر عام رُسوا کیا گیا … تو مجھے از خود اپنی حقیقت … اپنی سچائی … کو ثابت کرنے کے لئے آنا پڑا … !
وہ بولے جار ہی تھی … میں اس کے اندازِ بیاں میں کھو یا جا رہا تھا … سنو … ! میں تمہیں بتاتی ہوں … کہ میں کیا ہوں …؟ میں محبت ہوں … میں وفا ہوں … میں حقیقت ہوں … میں صداقت ہوں …میں خالق کی، مخلوق سے ہوں … تو رحمت ہوں … میں مخلوق کی ، خالق سے ہوں … تو ریاضت ہوں … میں عابد کی ، معبود سے ہوں … توعبادت ہوں … میں غلام کی ، آقا سے ہوں … تو مدحت ہوں … میں باپ کی ، اولاد سے ہوں … تو شفقت ہوں … میں ماں کی ، اولاد سے ہوں … تو محبت ہوں … میں استاد کی ، شاگرد سے ہوں … تو نصیحت ہوں … میں حاکم کی ، محکوم سے ہوں … تو عدالت ہوں … میں محکوم کی ، حاکم سے ہوں … تو اطاعت ہوں … میں دوست کی ، دوست سے ہوں … تو رفاقت ہوں … میں طالب ِ علم کی ،علم سے ہوں … تو محنت ہوں … میں ذمہ دار کی ، اس کے فرض سے ہوں … تو دیانت ہوں … میں مزدور کی ، اس کے کام سے ہوں … تو مشقت ہوں … میں حق کی تلاش کرنے والے کی ، اس کی جستجو سے ہوں … تو ہدایت ہوں … میں سپاہی کی ، اس کے فرض سے ہوں … تو شجاعت ہوں … میں عوام کی ، بزرگوں سے ہوں … تو عقیدت ہوں … میں لکھاری کی ، اس کے قلم سے ہوں … تو امانت ہوں … ہاں … میں محبت ہوں … میں زندگی ہوں … میں بندگی ہوں … میں پاکیزگی ہوں… میں بے لوث ہوں … میں بے غرض ہوں … میں لازوال ہوں … جس میں غرض شامل ہو… وہ محبت نہیں کہلاتی… جس میں کوئی لالچ شامل ہو … وہ محبت نہیں ہوتی … جس میں کوئی مفاد شامل ہو … اُسے محبت نہیں کہا جاتا… محبت تو روح کے روح کے ساتھ تعلق کا نام ہے … اس میں جنس …جسم…خوبصورتی … بناوٹ…نام …نسب … چال … ڈھال … غرض وہ تمام چیزیں … جن کاظاہری صورت کے ساتھ تعلق ہوتا ہے … وہ سب محبت کے مفہوم سے باہر ہیں … محبت کا کسی کے جسمانی نقوش … رنگ و روپ … کے ساتھ کوئی تعلق نہیں … اگر کوئی کہے … کہ میں نے فلاں کو دیکھا ہے … وہ بہت خوبصورت ہے … اس کی آنکھیں بہت حسین ہیں … اُس کا چہرہ چاند جیسا ہے … اس کی رنگت دودھ کی طرح سفید ہے … اس کا نام بہت خوبصورت ہے … اس کی آوا بہت دلنشیں ہے … اس کی چال بہت عمدہ ہے … اس کے انداز ، اس کی ادائیں … دل موہ لینے والی ہیں … اس لئے مجھے اس سے محبت ہوگئی ہے … تو یہ جھوٹ ہے … یہ غلط ہے … میرا (محبت کا) یہ معیار نہیں … وہ میری توہین کر رہا ہے … اُسے … اُس شخص سے جس سے وہ محبت کا دعوے دار ہے … قطعاً محبت نہیں … اُسے … اُس حسن سے … اس چہرے سے … اس رنگت سے … اُس نام سے … اس آواز سے … اس چال سے … اس انداز سے … اس ادا سے … محبت ہے … نہ کہ اُس شخص سے … کیونکہ انسان کی اصل اس کی روح ہوتی ہے … ہاں… روح ہی انسان کی اصل ہے …جسم تو اک ذریعہ اور واسطہ ہے …جس کو آپ جیسے چاہیں استعمال کریں… محبت اک روحانی رشتہ کا نام ہے …جسمانی عناصر کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں… ہاں … یہی محبت کی اصل ہے … یہی محبت کی حقیقت ہے … اور یہی محبت کی معراج ہے … !
وہ بولے جارہی تھی … میں اس کی باتوں کے سحر میں جکڑ کر رہ گیا تھا … مجھے اُس کی باتیں ناگوار محسوس ہو رہی تھیں … کیونکہ میرا نظریہ …یہ نہ تھا … ! مجھے معلوم ہے تمہیں میری باتیں ناگوار معلوم ہو رہی ہوں گی … مگر یہ سچ ہے … اوراکثر لوگوںکو سچ کڑوا ہی محسوس ہوتا ہے … شاید اس نے میری کیفیت کا اندازہ لگا لیا تھا … ہاں … اور سنو … محبت کبھی ناکام نہیں ہوتی … محبت تو نام ہی کامیابی کا ہے … مگر افسوس لوگوں نے میری حقیقت نہ جانی … ہاں … محبت کامیابی ہے … ہار اور ناکامی کے الفاظ …محبت کی لغت میں نہیں ہوتے … محبت کاہونا … اور محبت کا کرناہی …کامیابی ہے … محبوب کا حصول … محبت کا حاصل نہیں … یعنی اگر کوئی شخص یہ کہے کہ مجھے فلاں سے محبت ہے … اور میں اُسے حاصل کرنا چاہتا ہوں … تو ایسے شخص کی یہ سوچ غلط ہے …کیونکہ محبت کاحاصل … محبوب کا حصول … اس کا قرب … اور اس کے جسم کا حصول نہیں ہوتا …بلکہ محبوب کی رضا کا حصول ہی … محبت کا حاصل ہے … ہاں …محبت نام ہی تسلیم و رضا کا ہے … انسان کو جس کسی سے محبت ہوتی ہے … تو وہ اپنے محبوب کی اطاعت کر تا ہے … وہ اپنے محبوب کی فرمانبرداری کرتا ہے … وہ اپنے محبوب کو ہر حال میں راضی رکھتا ہے … صرف یہ دعویٰ … کہ مجھے تم سے محبت ہے … محبت کا ثبوت نہیں … بلکہ محبت کا ثبوت … محب کا عمل … محب کی فرمانبرداری … اور محب کی تسلیم و رضا بتاتی ہے … آج کل محبت کے عجیب دعوے دار ہیں … جو اپنے محبوب سے محبت کا دعویٰ بھی کرتے ہیں … اور پھراپنے محبوب پرشرائط عائدکرتے ہیں …پابندیاں لگاتے ہیں … اور اگر وہ نہ مانے …تو وہ اس سے ناراض ہو جاتے ہیں … عجیب لوگ ہیں … ارے … محبوب ،پابندیاں لگاتا ہے … محبوب، شرائط عائد کرتا ہے … محبوب، ناراض ہوتا ہے … محب کا یہ کام نہیں … اس کا کام تو ہر حال میں اپنے محبوب کو راضی رکھنا… اور اس کی رضا حاصل کرنا ہے …آج کل لوگوں کی یہ سوچ ہے کہ … اگروہ اپنے محبوب کو حاصل کر لیں…تو وہ سمجھتے ہیں کہ بس اب محبت ختم ہو گئی … انہوں نے محبت کی بازی جیت لی … اول … تو یہ سوچ ہی غلط ہے … کیونکہ اگر محبوب کے حصول کو محبت کا حاصل ٹھہرایا جائے … تو پھر وہ بلا غرض نہیں رہے گی … کیونکہ محبوب کے حصول میں … اس کے قرب اور اس کے جسم کا حصول بھی آئے گا … تو پھر وہ محبت نہ رہے گی … بلکہ غرض بن جائے گی … اور دوم یہ کہ محبت تو کبھی ختم نہیں ہوتی … اگر محبوب کو حاصل کر لیا … تو پھر تو محبت ختم ہو جائے گی … کیونکہ جب مقصدہی حاصل ہو جائے … توپھر محبت کا کوئی جوازباقی نہیں رہتا … اس لیے ثابت ہوا کہ محبوب کا حصول محبت کا حاصل نہیں … بلکہ محبت کا حاصل…محبوب کی رضا کا حصول ہے … ہاں … یہی محبت کا تقاضا ہے … یہی محبت کا حاصل ہے … یہی محبت کا نچوڑ ہے … !
وہ تھوڑی دیر کو رُکی …اورپھر گویا ہوئی … اور ہاں … ایک اور بات … اور وہ یہ … کہ محبت لازوال ہوتی ہے… محبت کبھی ختم نہیں ہوتی … محبت کو کبھی زوال نہیں آتا …محبت کبھی فنا نہیں ہوتی…بلکہ ہمیشہ قائم رہتی ہے …وہ محبت … محبت نہیں … جس کو زوال آجائے … جو ختم ہو جائے … ہاں … محبت ایک لازوال اور ہمیشہ رہنے والے رشتے کانام ہے … اک لازوال رشتہ … !
وہ خاموش ہو گئی تھی … مگر میں ابھی تک اس کے الفاظ کے سحر سے اپنے آپ کو آزاد نہ کروا سکا تھا … میں بالکل خاموش تھا … اس کی باتیں حقیقت پر مبنی تھیں …اس کے لہجے میں سچائی کی خوشبو تھی … مگر کچھ سوالات تھے … جن کی وجہ سے میرا ذہن مطمئن نہ ہو رہاتھا … مجھے ان کا جواب چاہیے تھا … آخر میں نے اپنی تمام تر ہمت مجتمع کر کے استفاہمیہ نظروں سے اسے دیکھا … اور کچھ سوالا ت کی اجازت چاہی … پوچھو …! جو پوچھنا چاہتے ہو …اُس نے دھیرے سے مسکرا کر کہا … !اجازت ملتے ہی … میں بولا… !
یہ جو آپ نے کہا کہ انسان کی اصل اس کی روح ہوتی ہے … اور جسمانی خوبصورتی اور نقش و نگار کو دیکھ کر محبت میں مبتلا ہونے والا شخص اپنے دعویٰ میں جھوٹا ہے … تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسان کے سامنے تو دوسرے کا جسم ، اور سراپا ہی ہوتا ہے …اور انسان کودوسرے کی کوئی بات یا خوبی پسند آتی ہے تو اسے ، اس سے محبت ہو جاتی ہے … روح کو تو انسان دیکھ نہیں سکتا … پھر روح سے محبت کیسے ہو سکتی ہے … ؟
یہ ایک اچھا سوال ہے … اس نے ستائشی نظر سے مجھے دیکھا … اور بولنے لگی … یہ حقیقت ہے کہ محبت اصل میں روح سے ہوتی ہے … اور انسانی جسم … اور سراپے کا … محبت سے کوئی تعلق نہیں…جہاں تک آپ کے سوال کا تعلق ہے تواس کا جواب یہ ہے کہ انسان کا کردار اُس کی روح … اور اس کی سوچ… کی عکاسی کر تا ہے … اور انسان اپنے کردار ہی کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے … نہ کہ نسل اور رنگ و روپ سے … توا نسان کے کردار کو دیکھ کر اگر اس سے محبت ہو جائے … تو وہ محبت اصل محبت کہلائے گی … دوسرے لفظوں میں ہم اسے اس کی روح سے محبت بھی کہہ سکتے ہیں … !
اس کا جواب سن کر میں قدرے مطمئن ہو گیا تھا … مگرکچھ سوالات ابھی بھی میرے ذہن میں موجود تھے … اس کے خاموش ہو تے ہی … میں بولا …!آپ کا جواب مجھے پسند آیا ہے … مگر ایک اور سوال ہے… اور وہ یہ کہ … آپ نے یہ کہا ہے کہ محبت کا حاصل … محبوب کا حصول نہیں … بلکہ محبوب کی رضا ہی … محبت کاحاصل ہے …تو بات یہ ہے کہ … یہ انسانی فطرت ہے …کہ انسان جس چیز کو پسند کر تا ہے … جو چیز اُسے اچھی لگتی ہے … تو انسان اُسے حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے … اور اس کا یہ عمل قابلِ ملامت بھی نہیں … تو پھر محبوب کا حصول کیسے غلط ہے …؟
تمہارے ا س سوال کا جواب یہ ہے کہ … یہ درست ہے کہ انسان کو جو چیز پسند ہو…تو انسان اسے حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے … اور وہ قابلِ ملامت بھی نہیں ٹھہرتا…مگر اصل بات یہ ہے کہ … محبت کی اصل … محبت کی حقیقت … تو محبوب کی رضا کا حصول ہی ہے … لیکن اگر انسان کسی بے جان چیز یا کسی جاندار مگر بے شعور (یعنی جس کی رضا حاصل نہ کی جا سکتی ہو )سے محبت کرے …یا اُسے پسند کرے … تو چونکہ وہ اس کی رضا حاصل نہیں کر سکتا … کیونکہ وہ بے جان ہے یا بے شعور ہے … اس لئے اپنی محبت کے ثبوت کیلئے وہ اس چیز کو ہی حاصل کر لیتا ہے … اس لیے اس چیز کے حصول سے … محبت کی اصل (یعنی محبوب کی رضا ) کے حصول پر کوئی فرق نہیں پڑتا … ! تو ثابت ہوا کہ اگر کوئی شخص محبوب کے حصول کو ہی …محبت کا حاصل ٹھہرائے… تو اس کی یہ سوچ غلط ہے … کیونکہ اس طرح وہ اپنے محبوب کے احساسات… جذبات…اور پسند …کا پاس نہیں رکھ رہا … بلکہ اس پر اپنی مرضی مسلط کر رہا ہے … توگویا وہ اپنے محبوب کو …بے جان اور بے شعور سمجھ کر اس کی توہین کر رہا ہے … !
اُس کا یہ جواب بھی میرے دل کو بھا رہا تھا … مگر ایک اور آخری سوال … جو میرے ذہن میں کلبلا رہا تھا … وہ یہ تھا کہ … آپ نے کہا کہ … محبت لازوال ہے … تو میں نے اکثر دیکھا ہے کہ … کئی خاندانوںمیں … یا دو بھائیوں میں … یا دو دوستوں میں … بہت محبت ہوتی ہے … پھر کسی وجہ سے وہ اس محبت کو بھول کر ایک دوسرے کی جان کے دشمن بن جاتے ہیں … اگر محبت لازوال ہے … یہ ختم نہیں ہو سکتی… توپھر وہ اس صورت میں کیسے ختم ہو جاتی ہے …؟
میرا سوال سن کر وہ دھیرے سے مسکرائی … اور بولی … اس کا جواب یہ ہے کہ اصل میں … اُن میں محبت اتنی مضبوط نہیں ہوتی … اُس محبت کے مقابلے میں جو نفرت پھیلائی جاتی ہے … وہ اس محبت پر غالب آجاتی ہے … اس لیے ان کے درمیان محبت کا رشتہ ختم ہو جاتا ہے … لیکن ایسے بھی کئی لوگ دیکھے گئے ہیں … جن کی محبت انتہائی مضبوط ہوتی ہے … اُن کے درمیان نفرتوں کے جتنے بھی بیج بو دئیے جائیں … انہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا … ان کی محبت … ان نفرتوں پر غالب آ جاتی ہے … تو نتیجہ یہ نکلا کہ … اگر محبت کامل اور مضبوط ہو … تو پھر یہ لازوال ہوتی ہے … اور اصل محبت بھی یہی کامل اور مضبوط محبت ہے … کہ نفرتیں جس کا کچھ نہ بگاڑ سکیں … !
اُس نے میرے تمام سوالوں کا تسلی بخش جواب دے دیا تھا … اب میرا ذہن صاف ہو چکا تھا … ہاں … اب میرا نظریہ ٔ محبت بھی بدل چکاتھا … اور سچ تو یہ ہے کہ اب مجھے …’’ محبت‘‘ سے محبت ہو گئی تھی … کیونکہ … اس کا کردار بے داغ تھا … اس کے لہجے میں سچائی کی خوشبو تھی … اب میں اس سے ہمدردی محسوس کر رہا تھا … وہ تو چلی گئی تھی … مگر مجھے اک نئی سوچ دے گئی تھی… اک نئی راہ دکھلا گئی تھی … اب میرا مشن … میری زندگی کا مقصد … محبت کی صداقت … محبت کی حقیقت … کو بیان کر نا تھا … ہاں … محبت کی حقیقت … کیونکہ … اس’’ محبت ‘‘نے ہی تو… مجھے محبت کی حقیقت سے آشنا کیا تھا …!
بتحریر… محمد ذیشان نصر…لاہور
25-06-2010
 

متلاشی

محفلین
تعارف

میرا نام محمد ذیشان نصر ہے۔ میں Acma کا سٹوڈنٹ ہوں۔ آج کل لاہور میں رہائش پذیر ہوں جبکہ میری آبائی علاقہ سرگودھا ہے۔
اردو ادب اور کمپیوٹر پروگرامنگ کا جنون کی حد تک شوق ہے۔ اور میری کاوش (آشنائے محبت) بھی اس شوق کا پیش خیمہ ہے۔
اس کے علاوہ اگر آپ مزید کچھ جاننا چاہتے ہوں تو پوچھ سکتے ہیں۔
ایک نئی تحریر بنام ’اگست سے اگست تک‘ پیشَ خدمت ہے ۔ اپنی رائے سے ضرور نوازئیے گا۔ شکریہ
والسلام
متلاشی
 

متلاشی

محفلین
اگست سے اگست تک
یہ اگست کا مہینہ ہے…دل خون کے آنسو رو رہا ہے… زُباں شدّتِ جذبات سے گنگ ہے …آنکھیں حیر ت و استعجاب سے کھلی کی کھلی ہیں… الہی…! تیری دھرتی پر کبھی ایسا ماجرا بھی ہوا…؟ چشم ِ فلک نے کیا اس سے پہلے ایسا کوئی نظارہ دیکھا…؟ نہیں …نہیں…یہ کیا ہو گیا…؟ کیا ایسا بھی ہو سکتا ہے…؟نہیں… ! مجھے تو یقین نہیں آتا… مگر میرے یقین نہ کرنے سے کیا ہوتا ہے…؟ جب حقیقت خود سامنے آکر ہمارا منہ چڑائے تو پھر اُس سے انکار ممکن نہیں…!
اِک وہ بھی اگست کا مہینہ تھا …اور اک یہ بھی اگست کا مہینہ ہے … مہینہ تو ایک ہی ہے … مگر فرق سال کا ہے … وہ سال 1947کا تھا … اور یہ سال 2008کا ہے … فرق صرف 61سالوں کا ہے … مگر کیا 61سال کسی قوم کی سوچ بدلنے کو کافی ہوتے ہیں … ؟ ہاں … ان 61سالوں میں ہم بہت بدل گئے … 61سال پہلے جب ہم نے ’’پاکستان‘‘ کا نام لیا تھا … تو ہم نے نعرہ لگایا تھا … ’’پاکستان کا مطلب کیا … لا الہ الا اللہ ‘‘ مگر ان 61سالوں کے اندر ہم نے بہت ’’ترقی ‘‘ کی … ہم ’’دقیانوسیت‘‘ سے چھٹکارا پا کر ’’روشن خیال ‘ ‘ بن گئے …ایسے روشن خیال کہ … ہمارے سامنے ہماری بیٹی کو بے آبرو کیا جائے … تو ہم اس پر تالیاں پیٹیں … ہمارے سامنے ہماری ماؤں کے سروں سے آنچل چھینا جائے … تو ہماری غیرت نہ جاگے … ہمارے سامنے کعبہ کی بیٹی کو دن دیہاڑے فاسفورس بمبوں سے تار تار کر دیا جائے … مگر ہمارے کانوں پر جوں تک نہ رینگے … ہمارے سامنے ہزاروں بہنوں پر گولیوں کی برسات کر دی جائے … مگر ہم دور کھڑے ہو کر تماشہ دیکھیں … ہمارے سامنے … ہمارے بھائیوں کو زندہ جلا دیا جائے … مگر ہمارے لب نہ ہلیں … ہمارے سامنے قرآنِ مجید کی بے حرمتی کی جائے … مگر ہم خاموش رہیں … ہمارے سامنے مساجد کو ملیا میٹ کر دیا جائے … مگر ہماری آنکھیں آنسوؤں سے خالی ہوں … ہمارے سامنے اسلام کے نام لیواؤں کو مشقِ ستم بنایا جائے … مگر ہم خوابِ غفلت سے نہ جاگیں …کیا یہی پاکستان تھا…؟ کیا پاکستان اسی لئے حاصل کیا گیا تھا…؟ …کیا…؟ ہمارے آباء و اجداد نے یہی دن دیکھنے کے لئے اپنی جان و مال اور عزت تک کی قربانی دی تھی …؟ الہی…! تو نے ہمیں یہی دن دکھانے کے لئے زندہ کیوں رکھا…؟ زمیں شق کیوں نہ ہوئی کہ ہم اس میں سما جاتے …؟ آسماں ہم پر کیوں نہ ٹوٹ گرا…؟ کہ ہم یہ دن دیکھنے سے بچ جاتے … کاش … کاش … ! یہ دن دیکھنے سے پہلے ہی ہمیں موت آ جاتی …!
اس زندگی سے تو موت ہی بہتر تھی … مگر ہم زندہ ہیں … زندہ تو ہیں… مگر موت سے بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں …ہمیں اللہ کے عذاب نے اپنی لپیٹ میں لے لیا … ہم نے اُن مظلومین کے ساتھ جو کچھ کیا … وہ سب اب ہم خود بھگت رہے ہیں … ہم نے اُن کا پانی بندکیا … ہمارا پانی بھی بند ہو گیا … ہم نے اُن کی بجلی کاٹی … ہم پر بھی بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا عذاب آیا … ہم نے اُن کی گیس کاٹی…آج ہم بھی گیس سے محروم ہیں … ہم نے اُن کی خوراک بند کی … تو ہمارے ہاں بھی گندم اور خوراک کی قلت ہو گئی … ہم نے اُن کو بے گناہ خون میں نہلایا … آج …آئے دن کے بم دھماکوں میں ہم بھی خون میں تڑپائے جارہے ہیں … غرض ہم نے اُن کے ساتھ جو کچھ کیا … وہ سب آج ہمارے ساتھ ہو رہا ہے … مسلمانو…! ہوش کرو… خدارا…! اب تو خوابِ غفلت سے جاگو …! یہ خدا کا عذاب نہیں تو پھر اور کیا ہے … ؟ اور یہ تو صرف دنیا کا عذاب ہے … آخرت کا عذاب تو اس سے بھی بد تر ہے … اب بھی وقت ہے… اُٹھو…اپنے رب کی طرف دوڑو… اپنے گناہوں کا اعتراف کرو… … اپنے رب کو مناؤ… اپنے رب کو راضی کرو …اس سے معافی طلب کرو … ورنہ وہ دن دُور نہیں … کہ …
تمہاری داستاں تک نہ ہو گی داستانوں میں…
بتحریر… متلاشی…لاہور
29-07-2011
 

متلاشی

محفلین
السلام علیکم !
ایک نئی تحریر بنام ’’جستجو‘‘ پیشَ خدمت ہے ۔ اپنی رائے سے ضرور نوازئیے گا۔ شکریہ متلاشی
 

متلاشی

محفلین
جستجو۔۔۔۔۔!

جستجو!
وہ صحرا کی تپتی ریت پر دنیا و مافیہا سے بے خبر چلا جا رہا تھا …آفتاب کی تپش اپنے جوبن پر تھی …دُوردُور تک کوئی ذی روح موجودنہ تھا …دھوپ کی تمازت سے اُس کی سرخ و سفید رنگت سیاہ پڑ چکی تھی … پیاس کی شدت سے اُس کا حلق کسی ویران کنوئیں کی مانند خشک ہو چکا تھا …اُس کی ٹانگیں اس کے وجود کا ساتھ نہ دے رہیںتھیں …مگر وہ چلے جا رہا تھا … کیونکہ چلنا ہی اُس کا مقدر تھا …ہاں…وہ اَزلی مسافر تھا …وہ اک نامعلوم منزل کا راہی تھا … اسے گِرد و بیش کی کچھ خبر نہ تھی … نہ معلوم کب سے وہ اس ویرانے بھٹک رہا تھا … شاید اس کی یاداشت دنیا کی بھیڑ میں کہیں کھو گئی تھی …یا شاید بے نام منزل کی جستجو نے اُسے دیوانہ بنا دیا تھا … ہاں …شاید وہ دیوانہ ہی تھا … نامعلوم منزل کی لگن میں پھرنے والا …جسے اپنے آپ کی بھی کچھ خبر نہ ہو… تو لوگ ایسے شخص کو دیوانہ ہی تو کہتے ہیں … وہ اس عالم دیوانگی میں نہ جانے کہاں کہاں سے گزرا تھا …اور نہ جانے کتنی مسافتیں ابھی اس کی راہ میں حائل تھیں …مگر اُسے کسی چیز کی پروا نہ تھی … اُسے تو بس منزل پر پہنچنے کی لگن تھی… اک نامعلوم منزل کی لگن …!
وہ چل رہا تھا …مگراُس کے پاؤں لڑکھڑا رہے تھے … بالآخر اس کی قوت صحرا کی وسعتوں کے سامنے بے بس ہو گئی …وہ نڈھال سا ہو کر بیٹھ گیا …اس کی منزل ابھی بہت دُور تھی … بہت دُور …! شاید میں اپنی منزل کو نہ پاسکوں …! وہ سوچنے لگا …دنیا میں بے شمار انسان بستے ہیں …سب اپنی اپنی زندگیاں گزار رہے ہیں …وہ بہت خوش قسمت ہیں … انہیں کوئی فکر ہے نہ غم …کتنی پرسکون اور پر تعیش زندگی گزار رہے ہیں … اک میں ہی وہ بد نصیب ہوں جسے اس بھری پری دنیا میں چین نہ ملا … ہاں …شاید میری قسمت ہی کھوٹی تھی …جو نا معلوم منزلوں کی جستجو میں چل نکلا …مگر میں کیا کرتا…؟ میری روح بے چین تھی … مجھے سکون درکار تھا … مگر لوگ بھی تو پر سکون زندگی گزارتے ہیں … و ہ کتنے آرام سے رہتے ہیں … بڑے بڑے بنگلے ، لمبی لمبی کاریں ،فیکٹریاں ، بینک بیلنس … ان کے پاس سب کچھ ہے …وہ آرام دہ زندگی گزار رہے ہیں … پھر مجھے سکون کیوں نہ ملا…؟ میرے پاس بھی تو یہ سب کچھ تھا … مگر میں بے کُل تھا …بے قرار تھا … بے چین تھا …کوئی ہے جو مجھے دائمی سکون کا راز بتا دے … مگر کوئی نہیں … ہاں … کوئی نہیں …! شاید میں اس دنیا میں اکیلا ہوں … کوئی میرا ہم نوا نہیں … کوئی میرا دوست نہیں … کوئی میرا ہمددر نہیں … کوئی نہیں جو میرے درد کا ساماں کرے … کو ئی نہیں جو میرے احساسات کو سمجھ سکے … کوئی نہیں جو میرے خیالات کا ادراک کر سکے … ہاں … میں اکیلا ہوں … اس بھری پری دنیا میں اکیلا … کوئی میرا ہم سفر نہیں … کوئی نہیں جو مجھے میری منزل تک پہنچائے … مجھے میری منزل تک کون پہنچائے گا …؟ مگر کوئی پہنچا بھی کیسے سکتا ہے …! کیوں کہ میں تو اک نامعلوم منزل کا راہی ہوں … اک ان دیکھی منزل کا مسافر … ! مگر میں اپنی منزل پر پہنچوں گا … ہاں … مجھے یقین ہے میں اپنی منزل پر ضرور پہنچوں گا … کوئی میرا ہم سفر نہیں تو کیا ہوا…کوئی میرا ہمدرد نہیں تو کیا ہوا …! میری لگن … میرا جذبہ … میری تڑپ … اور میری جستجو ہی مجھے میری منزل تک پہنچائے گی …!
اس سوچ نے اس کے اندر اک نئی طاقت بھر دی …وہ اک نئے عزم…نئے جذبے …کے ساتھ اُٹھ کھڑا ہوا …اور چلنے لگا …چلتے چلتے اسے دور ریت میں چمکتی ہوئی کوئی چیز نظر آئی … شاید وہ پانی ہے … اُس نے سوچا … اس کے قدم تیزی سے اس طرف بڑھنے لگے …پانی دیکھتے ہی اُس کی پیاس بھڑک اُٹھی تھی … وہ جلد از جلد وہاں تک پہنچ جانا چاہتا تھا … مگر جوں جوں آگے بڑھتا … پانی دور سے دور ہوتا چلا جاتا…تب اُسے پتہ چلا کہ وہ پانی نہیں تھا … وہ تو نظر کا دھوکہ تھا … وہ تو محض اک سراب تھا … تیز تیز چلنے کے بعد وہ تھک چکا تھا … پانی دیکھتے ہی جو قوت اُس کے اندر اُبھری تھی وہ ماند پڑ چکی تھی … وہ نڈھال سا ہو کربیٹھ گیا …اس حالت میں بھی اس کا ذہن مصروف تھا … وہ کچھ سوچ رہا تھا … یہ دنیا بھی تو دھوکے کا اک گھر ہے … یہ بھی تو محض اک سراب ہے … جب انسان دنیا میں ہوتا ہے تو وہ سمجھتا ہے اس کے پاس بہت کچھ ہے … اُس کے پاس مکان ہے … دکان ہے … رقم ہے … اس کے پاس محبت کرنے والی بیوی اور فرماں بردار اولاد ہے … اُس کے دوست ہیں … اُس کے رشتہ دار ہیں … وہ سب اس کے اپنے ہیں … وہ سب اُس کے پیارے ہیں … وہ یہی سمجھتا ہے کہ یہ سب اُس کا اپنا ہے … مگر جب اس دنیا میں اس کی سانسیں پوری ہو چکتی ہیں … جب وہ اس عالمِ فانی سے دارِ آخرت کی طرف کوچ کرتا ہے … توا ُس کے اپنے ہی اُسے منوں مٹی کے نیچے اکیلا دفن کر آتے ہیں … کوئی بھی اس کے ساتھ نہیں رہتا … سب اسے چھوڑ آتے ہیں … پھر چند دن کے سوگ کے بعد… وہ اُسے اس طرح بھول جاتے ہیں… جیسے وہ اس دنیا میں آیا ہی نہ تھا …! تب جا کر انسان پر یہ حقیقت کھلتی ہے کہ یہ دنیا بھی اک فریب خانہ ہے … یہ دھوکے کا گھر ہے … یہ بھی محض اک سراب ہے … اس کی کچھ حقیقت نہیں … اس میں کوئی کسی کا نہیں … سب اپنی اپنی راہ پر چل رہے ہیں … ہاں … یہ دنیا اک راہ گزر ہے … اس
میں بسنے والے سب مسافر ہیں … سب راہی ہیں … !
تھوڑی دیر سستانے کے بعد وہ چل پڑا … کیونکہ کہ اُسے ہر صورت اپنی گمنام منزل پر پہنچنا تھا … دن ڈھل رہا تھا …سورج کی تماز ت کم پڑ رہی تھی … وہ چلے جا رہا تھا… مگر صحرا تھا کہ ختم ہونے کا نام ہی نہ لیتا تھا … یوں لگتا تھا جیسے وہ ساری عمر اس صحرامیں بھٹکنے میں گزار دے گا … اور یہ وسیع و عریض صحرا ہی اس کا مدفن بنے گا … وہ چلتا رہا …بالآخر وہ اک ٹیلے کے قریب پہنچا … اور بیٹھ گیا … وہ بہت تھک چکا تھا … اب اس کے پاؤں میں مزید چلنے کی سکت باقی نہ رہی تھی … شام ہونے کو تھی … وہ سورج کو دیکھنے لگا … جو رفتہ رفتہ دور افق میں غائب ہو رہا تھا …اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ اس کی نظروں سے اوجھل ہو گیا … دفعتاً ایک خیا ل اس کے ذہن میں کوندا … کیا میں بھی سورج کی طرح غروب ہو جاؤں گا…؟ یا اپنی منزل کو حاصل کر لوں گا … سورج …! آگ کا اتنا بڑا گولا … جو سارا دن روشنی دیتا ہے … اور پھر بالآخر غروب ہو جاتا ہے …شاید میری زندگی کا ٹمٹاتا چراغ بھی سورج کی طرح بجھنے کو ہے … وہ سوچ رہا تھا … کیا واقعی سورج بھی غروب ہوجاتا ہے …؟ اس کے ذہن میں اک سوال ابھرا …لوگ تو یہی کہتے ہیں … مگر جب یہ اک خطہ ٔ ارض پر بسنے والوں کی نظر سے غائب ہوتا ہے … تو وہ کہتے ہیں کہ سورج غروب ہو گیا … مگر وہی سورج اُسی وقت کسی دوسرے خطہ ٔ ارض پر طلوع ہو رہا ہوتا ہے… اور کسی اور خطہ ٔ ارض پر پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا ہوتا ہے … اس کی سوچ کا سلسلہ جاری تھا … تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اصل میں سورج غروب نہیں ہوتا … بلکہ زمین کا وہ حصہ جہاں شام ہوتی ہے …وہ حرکت کرتے کرتے سورج کے سامنے سے ہٹ جاتا … سورج تو ازل سے چل رہا ہے … اس کا کام تو چلنا ہے … وہ سوچ رہا تھا … کیا سورج بھی میری طرح اک مسافر ہے …؟ اک راہی ہے …؟ کیا اسے بھی کسی کی تلاش ہے …؟ کیا وہ بھی کسی کی جستجو میںپھر رہا ہے …؟ وہ سوچ رہا تھا … رات ڈھل رہی تھی … پھر آسمان پر سیاہ بادلوں کی اوٹ سے چاند نے چپکے سے اپنا سر باہر نکالا …تو اس کی سوچ کا رُخ آفتاب سے ماہتاب کی طرف مڑ گیا …اس نے سوچا… یہ ماہتاب بھی تو آفتاب کی طرح اک مسافرہی ہے … یہ بھی تو ازل سے کسی کی تلاش میں سر گرداں ہے … ؟ ہاں … شاید یہ چاند… سورج … ستارے …یہ سب کے سب مسافر ہیں … یہ بھی میری طرح اپنی اپنی منزل کی طرف از ل سے چل رہے ہیں … ہاں … اب میں اکیلا نہیں ہوں … یہ آفتاب … یہ ماہتاب … اور یہ ستارے … سب کے سب میرے ہمراہی ہیں … یہ سب میرے ہم سفر ہیں … اب میں اکیلا نہیں ہوں … ہاں … اب میں اکیلا نہیں ہوں … !
وہ انہی سوچوں میں مگن تھا … نیند اس سے کوسوں دور تھی … وہ سونا چاہتا تھا … وہ آرام کرنا چاہتا تھا … مگر شاید نیند اس سے رُوٹھ گئی تھی … اس کا ذہن خیالات کی آماجگاہ بنا ہوا تھا … سو چتا سوچتا وہ اپنے ماضی میں کھو گیا … !
جب سے اُس نے لڑکپن کے بعد شعور کی منزل پر قدم رکھا تھا … اس کے تھوڑے ہی عرصہ بعد وہ اک عجیب صورتحال سے دوچار تھا … اُسے اپنی زندگی میں کسی چیز کی کمی محسوس ہوتی تھی … اُس کے پاس سب کچھ تھا … حد سے زیادہ مہربان والدین … بہت زیادہ محبت کرنے والے بھائی بہن … اچھے دوست …مگر زندگی کی حقیقی خوشی سے وہ محروم تھا … شاید وہ اک احساسِ محرومی تھا… جس نے اس کی زندگی سے سکون چھین لیا تھا … وہ بہت اداس تھا … اس کی زندگی ادھوری تھی … اُس کی آنکھوں میں ہر وقت ویرانیاں سی چھائی رہتی تھیں … اس کا چہرہ ہر وقت مرجھائی ہوئی کلی کی مانند ہو تا تھا … اسے کوئی خوشی … خوشی محسوس نہ ہوتی … خوشی کے ان لمحات میں اگروہ مسکرا بھی لیتا …تو اس کی مسکراہٹ بھی اک غم زدہ مسکراہٹ ہوتی … اسے حقیقی خوشی حاصل نہ تھی … شاید دنیا میں دائمی خوشی کا حصول نا ممکن ہے … اُس کی روح بے چین تھی … وہ مضطرب تھا … اُسے سکون چاہیے تھا … اُسے سکھ درکار تھا … مگر اُس کی روح کو تسکین نہ ملتی … اس کی زندگی میں شاید کسی چیز کی کمی تھی … مگر اُسے اس چیز کے بارے میں معلوم ہی نہ تھا … اسے محسوس ہوتا تھا کہ اس کی زندگی ادھوری ہے … مگراس ادھورے پن کا سبب اسے معلوم نہ تھا… وہ اک عجیب صورتحال سے دوچار تھا … اُس کے دوست اُسے کہتے تھے کہ … شاید اُسے کسی سے محبت ہو گئی ہے … ایک لمحہ کے لئے وہ سوچتا … مگر پھر وہ خود ہی اس خیال کو رَد کر دیتا … کیونکہ اُس کے ذہن میں کوئی نام نہ تھا … کوئی ایسا چہرہ نہ تھا …جسے وہ اپنی محبت کہتا … جسے وہ اپنی منزل ٹھہراتا … جسے وہ اپنی جستجو کا سبب سمجھتا … پھر … وہ بے چین کیوں تھا … ؟ بے سکون کیوں تھا …؟ کوئی ہے …؟ جو اُسے اُس کی بے چینی کا سبب بتلائے … کوئی ہے جو اُسے سکون دے سکے … ؟کوئی ہے جو اس کے احساسات کو سمجھ سکے …؟ کوئی ہے جو اس کی زندگی میں حقیقی خوشی بھر دے …؟ کوئی ہے …؟ کوئی ہے …؟ مگر … کوئی نہیں … یہ دنیا اک صحرا ہے … جس میں وہ اکیلا بھٹک رہا ہے … بظاہر تو وہ اس بھری پُری دنیا میں رہ رہا ہے … مگر یہ دنیا اُس کے لئے اک صحرا کی مانند ہے … جس میں کوئی اس کا اپنا نہیں … کوئی اس کا دوست نہیں … کوئی اس کا ہمدرد نہیں … کوئی اس کا ہم سفر نہیں … کوئی اس کا ہم نوا نہیں … کوئی اس کا ہم مزاج نہیں … کوئی اس کا غمخوار نہیں … وہ … وہ اکیلا ہی اس بھری پُری دنیا کے ویرانے میں بھٹک رہا ہے … مگر اس کا حوصلہ پختہ ہے … اس کا جذبہ جوان ہے … اس کی لگن سچی ہے … اس کی تڑپ کامل ہے … اس کا شوق ، اس کا ذوق دیدنی ہے … اُس جستجو اُس کی امنگوں کی گواہ ہے … اس کی یہی سوچ … اس کا یہی جذبہ…اس کا یہی شوق … اس کا یہی ذوق …اس کی یہی لگن … اس کی یہی تڑپ … اس کا یہی ولولہ … اس کی یہی امنگیں … اس کی یہ کوششیں … اس کی یہی کسک… اس کی یہی تلاش … اور اس کی یہی جستجو … ہی اُسے اُس کی منزل تک پہنچائے گی … وہ اپنی منزل تک ضرور پہنچے گا … یہ اُس کا ایمان ہے…یہ اُس کا یقین ہے … اور یہی اس کا مقصدِ حیات ہے … یہی اس کی منزل مرُادہے … اور یہی اس کی جستجو کا حاصل ہے … ہاں …یہی ہے اس کا حاصلِ جستجو … !
بتحریر… متلاشی…لاہور
22-06-2010
 

متلاشی

محفلین
جناب شمشاد صاحب اور الف عین صاحب کا بہت بہت شکریہ جنہوں نے مجھے اس فورم میں ویلکم کہا۔۔۔۔
 
آپ کی تحریریں خوب ہیں۔ غالباً انھیں کسی وقت دوبارہ بھی پڑھنا چاہوں گا۔ :)

در اصل آپ کی تحریرں کچھ عدم توجہ کا شکار ہوئیں اس کے کچھ اسباب ہیں۔ ایسی تحریروں کے لئے ایک علیحدہ ذیلی زمرہ موجود ہے "آپ کی تحریریں"۔ تمام تحریریں ایک ہی تھریڈ کے بجائے علیحدہ تھریڈ کی شکل میں ہوتیں تو زیڈر شپ کچھ بڑھ جاتی۔

اخیر میں ایک درخواست ہے کہ محفل میں پیغامات میں ای میل پتہ شامل کرنے کی اجازت نہیں ہے لہٰذا تھوڑا سا احتیاط برتا کریں تو ہمیں شہولت رہے گی۔ :)
 

متلاشی

محفلین
آپ کی تحریریں خوب ہیں۔ غالباً انھیں کسی وقت دوبارہ بھی پڑھنا چاہوں گا۔ :)

در اصل آپ کی تحریرں کچھ عدم توجہ کا شکار ہوئیں اس کے کچھ اسباب ہیں۔ ایسی تحریروں کے لئے ایک علیحدہ ذیلی زمرہ موجود ہے "آپ کی تحریریں"۔ تمام تحریریں ایک ہی تھریڈ کے بجائے علیحدہ تھریڈ کی شکل میں ہوتیں تو زیڈر شپ کچھ بڑھ جاتی۔

اخیر میں ایک درخواست ہے کہ محفل میں پیغامات میں ای میل پتہ شامل کرنے کی اجازت نہیں ہے لہٰذا تھوڑا سا احتیاط برتا کریں تو ہمیں شہولت رہے گی۔ :)

میری کوتاہیوں اور لغزشوں کی طرف توجہ دلانے کا بہت بہت شکریہ۔۔۔آئندہ ان سے اجتناب کرنے کی کوشش کروں گا۔۔۔
 
Top