فضائل و آدابِ حج

سید عمران

محفلین
حج اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے ایک رکن ہے۔ لغت میں حج کسی عظمت والی جگہ یا چیز کی طرف بار بار ارادہ کرنے کو کہتے ہیں۔شریعت کی اصطلاح میں مخصوص وقت میں مخصوص جگہوں پر مخصوص اعمال کرنے کو حج کہتے ہیں۔ حج کی ادائیگی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانے سے کی جاتی ہے مگر اس کی فرضیت امت محمدیہ کے ساتھ خاص ہے۔ حج زندگی میں ایک مرتبہ ہر اس مسلمان عاقل بالغ صحت مند شخص پر فرض ہے جس کو الله تعالیٰ نے اتنا مال دیا ہو کہ اس کے پاس مکہ مکرمہ آنے جانے اور کھانے پینے و رہائش کا خرچ اور وطن واپسی تک وطن میں موجود اپنے اہل و عیال کا خرچ برداشت کرنے کے لیے مال ہو۔
حج کے سفر سے پہلے خوب اہتمام سے کسی معتبر عالم دین سے حج کے مسائل سیکھیں، تاکہ حج کو جیسے ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے اسی طرح ادا کرسکیں۔ سفر حج کے دوران ہر طرح کے گناہوں سے بچیں، لڑائی جھگڑا، فحش گوئی، موبائل بینی اور بازار میں فضول گھومنے پھرنے اور وقت ضائع کرنے سے احتراز کریں۔

حج کی تین قسمیں ہیں​

(۱) حج قِران۔ اس میں عمرہ اور حج دونوں کا احرام حدودِ میقات سے پہلے باندھا جاتا ہے اور عمرہ اور حج کے مناسک کی ادائیگی کے بعد احرام کھولا جاتا ہے۔ اس میں مشقت زیادہ ہے،بعض دفعہ بہت دنوں تک احرام کی حالت میں رہنا پڑتا ہے اوراحرام کے ممنوعات سے بچنا پڑتا ہے۔ اس میں قربانی بھی واجب ہوگی۔

(۲) حجَ تَمَتُّع۔ اس میں حاجی میقات سے صرف عمرہ کا احرام باندھ کر جاتا ہے، مکہ پہنچتے ہی عمرہ کر کے احرام سے نکل جاتا ہے اور سلے ہوئے کپڑے پہن لیتا ہے۔ پھر ۸ ویں ذی الحجہ کو حدود حرم سے حج کا احرام باندھتا ہے اور حج کے تمام مناسک ادا کرتا ہے پھر دسویں کو قربانی کرکے احرام سے نکلتا ہے۔ اس حج میں بڑی سہولت ہے۔

(۳) حج اِفراد۔ اس میں حاجی صرف حج کا احرام باندھتا ہے اور حج کرنے کے بعد احرام سے نکلتا ہے۔ اس حج میں قربانی نہیں ہے۔

فرضیت حج​

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطبہ دیا اور ارشاد فرمایا: ’’ اے لوگو! تم پر اللہ تعالیٰ نے حج فرض کیا ہے، لہٰذا حج ادا کرو۔‘‘ (صحیح مسلم)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’جس کا حج کا ارادہ ہو تو وہ جلدی کرے اس لیے کہ کبھی کوئی بیمار پڑ جاتا ہے یا کوئی چیز گم ہوجاتی ہے یا کوئی اور ضرورت پیش آ جاتی ہے۔‘‘ (سنن ابن ماجہ، کتاب المناسک، باب الخروج الی الحج، 2؍962، الرقم: 2883)
حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا ہے کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں خطبہ دیا اور ارشاد فرمایا: ’’تم پر حج فرض کیا گیا ہے۔‘‘ حضرت اقرع بن حابس رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا: ’’یارسول ﷲ!کیا ہر سال فرض ہے؟‘‘ (حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاموش رہے۔ بعد ازاں) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر میں ہاں میں جواب دے دیتا تو حج ہر سال فرض ہو جاتا اور اگر ہر سال حج فرض قرار پاتا تو تم میں اس کی ادائیگی کی استطاعت نہ ہوتی۔ حج عمر بھر میں ایک مرتبہ ادا کرنا فرض ہے اور جو ایک سے زائد ادا کرے وہ نفل ہیں۔‘‘ (سنن ابوداؤد، کتاب المناسک، باب فرض الحج، 2؍ 139، الرقم: 1721)
حضرت عبد ﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ایک شخص نے بارگاہ نبوی میں حاضر ہو کر عرض کیا: ’’یا رسول اللہ! کون سی چیز حج کو فرض کرتی ہے؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’سامانِ سفر اور سواری۔‘‘ (سنن ترمذی، کتاب الحج، باب ما جاء فی ايجاب الحج بالزاد والراحلۃ، 3 ؍ 177، الرقم: 813)

فضائل حج​

حج کی فضیلت کا اندازہ اس بات سےبھی لگایا جاسکتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے لے کر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک متعدد انبیاءکرام نے حج کیا ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کون سا عمل سب سے افضل ہے؟ فرمایا کہ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھنا۔ عرض کیا گیا پھر کون سا ہے؟ فرمایا کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔ عرض کیا گیا کہ پھر کون سا ہے؟ فرمایا کہ برائیوں سے پاک حج۔ (صحيح بخاری، کتاب الحج، باب فضل الحج المبرور، 2؍553، رقم: 1447)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ جو رضائے الٰہی کے لیے حج کرے کہ جس میں نہ کوئی بیہودہ بات ہو اور نہ کسی گناہ کا ارتکاب، تو وہ ایسے لوٹے گا جیسے اس کی ماں نے اسے ابھی جنا ہو۔ (صحيح بخاری، ابواب العمرۃ، باب فضل حج المبرور، 2 ؍ 553، الرقم:1449)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’ایک عمرہ سے دوسرا عمرہ اپنے درمیان گناہوں کا کفارہ ہیں اور حج مبرور کا بدلہ جنت کے سوا اور کچھ نہیں ہے ۔‘‘ (صحيح بخاری، ابواب العمرۃ،باب وجوب العمرة وفضلها، 2 ؍ 629، الرقم: 1683)
’’مَبْرُور‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے، اس کے معنی ہیں مقبول۔ حج مبرور وہ مقبول حج ہے جس میں انسان اپنے تمام گناہوں سے توبہ و ستغفار کرےاور کامل طریقے سے حج ادا کرے، یعنی حج کے فرائض و واجبات کے ساتھ ساتھ سنن و مستحبات کا خیال رکھے، احرام کی حالت میں ممنوع کردہ چیزوں سے بچے، حج کی ریا کاری اور نمود و نمائش سے دور رہے، حرام مال سے حج نہ کرے ، اپنے کھانے پینے اور دیگر اخراجات حلال مال سے کرے۔ پھر حج کرنے کے بعد جس کی دینی حالت بہتر ہوجائے، تو یہ اس بات کی علامت ہوگی کہ اس کا حج بارگاہ الٰہی میں مبرور اور مقبول ہوچکا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’حج اور عمرہ یکے بعد دیگرے کیا کرو، کیوں کہ یکے بعد دیگرے حج و عمرہ کرنا فقر اور گناہوں کو ایسے مٹا دیتا ہے، جیسے بھٹی لوہے کا میل کچیل دور کر دیتی ہے۔‘‘ (سنن ابن ماجہ، کتاب المناسک، باب فضل الحج والعمرة، 2؍964، الرقم: 2887)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’رمضان میں عمرہ کرنا میرے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے۔‘‘(صحيح بخاری ، کتاب الحج، باب حج النساء 2 ؍659، الرقم: 1764)
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’رمضان میں عمرہ کرنے کا ثواب حج کے برابر ہے۔‘‘ (سنن ترمذی ، کتاب الحج، باب ما جاء فی عمرة رمضان، 3 ؍ 276، الرقم: 939)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’بیت اللہ شریف کے گرد طواف، نماز کی مثل ہے، سوائے اس کے کہ تم اس میں گفتگو کرتے ہو، پس جو اس میں کلام کرے وہ نیکی ہی کی بات کرے۔‘‘ (سنن ترمذی ، کتاب الحج، باب ما جاء فی الکلام فی الطواف،3؍293، الرقم:960)
حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ عرفات میں کھڑا تھا کہ اپنی سواری سے گر پڑا جس نے اُسے کچل دیا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’اسے پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دو اور دو عدد کپڑوں کا کفن دو۔ اسے خوشبو نہ لگانا، اس کا سر نہ چھپانا اور نہ اسے حنوط ملنا کیونکہ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ اسے تلبیہ کہتا ہوا اٹھائے گا۔‘‘ (صحيح بخاری، کتاب الحج، باب المحرم يموت بعرفۃ ولم يأمر النبی صلی الله علیہ وآلہ وسلم ان يوده عنہ بقيۃ الحج، 2؍656، الرقم: 1752)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’جب کوئی مسلمان تلبیہ کہتا ہے تو اس کے دائیں بائیں تمام پتھر، درخت اور مٹی کے ڈھیلے سب تلبیہ کہتے ہیں، یہاں تک کہ زمین ادھر ادھر (مشرق و مغرب) سے پوری ہو جاتی ہے۔‘‘ [سنن ترمذی، کتاب الحج، باب ما جاء فی فضل التلبیۃ والنحر، 3 ؍ 189، الرقم: 828]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’جب کسی حاجی سے (حج کے فوراً بعد اس کے گھر پہنچنےسے قبل)ملاقات کرو تو اسے سلام کرو اور اُس سے مصافحہ کرو اور اسے اس کے گھر میں داخل ہونے سے پہلے اپنے لیے بخشش کی دعا کرنے کے لیے کہو، کیوں کہ وہ بخشا ہوا ہے۔‘‘ (مسند احمد بن حنبل ، 2؍ 69، الرقم: 5371)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’حج اور عمرہ کرنے والے اللہ تعالیٰ کے مہمان ہیں، وہ اس سے دعا کریں تو ان کی دعا قبول فرماتا ہے اور اگر اس سے بخشش طلب کریں تو انہیں بخش دیتا ہے۔‘‘ (سنن ابن ماجہ ، کتاب المناسک، باب فضل دعاء الحج، 2؍ 9، الرقم: 2892)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’جو اپنے گھر میں نماز پڑھے اُسے ایک نماز کا اور جو قبائل کی مسجد میں نماز پڑھے اسے پچیس نمازوں کا، جو جامع مسجد میں نماز پڑھے اسے پانچ سو نمازوں کا، جو جامع مسجد اقصیٰ اور میری مسجد (مسجد نبوی) میں نماز پڑھے اسے پچاس ہزار کا، اور جو مسجد حرام میں نماز پڑھے اسے ایک لاکھ نمازوں کا ثواب ملتا ہے۔‘‘(سنن ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلاة والسنۃ فيها، باب ما جاء فی الصلاة فی المسجد الجامع، 1؍453، الرقم: 1413)
رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے میری قبر کی زیارت کی اُس کے لیے میری شفاعت واجب ہو گئی۔ ‘‘ (سنن دارقطنی، کتاب الحج، باب المواقيت،2؍278،الرقم:194)
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے بیت اللہ کا حج کیا اور میری (قبرکی) زیارت نہ کی تو اس نے میرے ساتھ جفا کی۔‘‘ (سبکی فی شفاء السقام فی زيارة خير الانام، 21)

تارک حج کے لیے وعید​

جو شخص حج فرض ہو جانے کے بعد بھی بلا عذر حج نہ کرے اس کے بارے میں قرآن و حدیث میں سخت وعیدیں آئی ہیں۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَ لِلّٰهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْهِ سَبِیْلًاؕ وَ مَنْ كَفَرَ فَاِنَّ اللّٰهَ غَنِیٌّ عَنِ الْعٰلَمِیْنَ (آل عمران:۹۷)​
اور لوگوں میں سے جو لوگ (بیت اللہ تک) پہنچنے کی استطاعت رکھتے ہوں ان پر اللہ کے لیے اس گھر کا حج کرنا فرض ہے۔ اور اگر کوئی انکار کرے تو اللہ دُنیا جہان کے تمام لوگوں سے بے پروا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’جس شخص کو فریضہ حج کی ادائیگی میں کوئی ظاہری ضرورت یا کوئی ظالم بادشاہ یا مہلک مرض نہ روکے اور وہ پھر (بھی) حج نہ کرے اور (فریضہ حج کی ادائیگی کے بغیر) مرجائے تو چاہے وہ یہودی ہو کر مرے یا عیسائی ہو کر مرے ۔ ‘‘ (سنن دارمی، کتاب المناسک، باب من مات ولم يحج، 2؍ 45 الرقم: 1785)
 
Top