فسانہء آزاد از ڈاکٹر ظہور احمد اعوان

Dilkash

محفلین
دل پشوری۔۔۔۔۔از ڈاکٹر ظہور احمد اعوان۔۔۔۔بشکریہ روزنامہ آج پشاور

فسانۂ آزاد
فسانہ آزاد اردو کی منفرد کتاب ہے‘نہ داستان نہ ناول‘ دونوں کے بیچ کی ایک شاندار تحریر۔ پنڈت رتن ناتھ سرشار نے اسے ایک مزاحیہ کہانی کے طور پر لکھا جو 1878-79ء تک لکھنؤ کے اخبار اودھ پنج میں بطور اقساط چھپتی رہی۔ اس کی شہرت و مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ لوگ اس کے انتظار میں بیٹھے رہتے تھے۔ 1880ء میں منشی نول کشور نے ہی اسے چھ جلدوں میں کتابی صورت میں چھاپا جس پر مجھے اشتباہ ہے۔

ایک ہفتہ وار رسالے میں 100 ہفتے چھپنے کے بعد اس کی ضخامت چھ جلدیں نہیں ہو سکتیں‘ اس پر کوئی تحقیقی کتاب نہیں پڑھ سکا ہوں ورنہ اس راز سے پردہ اٹھ جاتا۔ اس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اس کی ایک جلد بننی ہی محال تھی اور اس میں جگہ جگہ 15 ہزار تو شعر کوٹ ہوئے۔ سرشار سروانٹس کے مشہور زمانہ ناول ڈان کوئکزوٹ اس کے کردار کوئکزوٹ سے بے حد متاثر تھا۔

یہ بات بھی یاد رہے کہ اس زمانے کے منشی اور عام مصنف بھی انگریزی اس قدر جانتے تھے کہ انگریزی کتابیں فرفر پڑھتے اور ان کے تراجم کرتے تھے‘ سرشار نے اس سے متاثر ہو کر فسانہ آزاد کے نام سے آزادانہ کہانی لکھنے کے ساتھ اس کتاب Don Quikzote کا مکمل اردو ترجمہ بھی خدائی فوجدار کے نام سے کیا۔

ڈان کوئکزوٹ میں اس کا ہم راہی و ہم نفس سان پانچو نام کا مسخرہ ہوتا ہے جبکہ سرشار نے اس کے لئے میاں خوجی کے نام سے کردار تخلیق کیا جو سائے کی طرح میاں آزاد کے ساتھ پھرتا نظر آتا ہے۔ یہ پوری داستان ہے نہ پورا ناول بلکہ ہیئت و مواد کے اعتبار سے دونوں کے درمیان کی کڑی ہے۔

سرشار نے اپنے زمانے کے زوال پذیر لکھنؤ کی بڑی دلآویز تصویر کشی اس کتاب میں کی ہے اور یہ پڑھنے کے لائق کتاب ہے‘ اس میں کہانی کے سارے رنگ مزے اور لطف یکجا کر دیئے گئے ہیں۔ اردو کے ایک طالب علم کی حیثیت سے میں کہہ سکتا ہوں کہ جس نے یہ کتاب نہیں پڑھی وہ اپنا ہی مقروض رہا۔ لکھنوی رہن سہن‘ زبان و بیان‘ حالات و کیفیات کی یہ زندہ و متحرک تصویر ہے۔ سرشار 1846ء میں پیدا ہوا اور 1903ء میں فوت ہوا مگر جاتے جاتے اردو ادب کے لئے ایسا کارنامہ سرانجام دے گیا جو ادب میں تاج محل کی طرح جگمگاتا رہے گا۔

اس نے اس کے علاوہ بھی بہت سی دوسری کتابیں تحریر کیں جیسے شمس الضحیٰ‘ سیر کہسار‘ جام سرشار‘ کامنی‘ کڑم دھڑم‘ بے چاری دلہن‘ بی کہاں‘ طوفان بے تمیزی وغیرہ مگر فسانہ آزاد سب کا سرخیل ہے۔ افسوس کہ اردو زبان میں اس کی وہ قدر و منزلت نہیں ہوئی جس کی مستحق ہے‘ غالباً اس کی وجہ اس کی ضخامت ہے۔ داستان کی بساط لپیٹتے ہی فسانہ آزاد کی بساط بھی لپٹ گئی‘ داستان کی جگہ ناول آیا تو اس لکھنوی داستان کو مزید جھٹکا لگا اور پھر بیسویں صدی میں افسانہ آ گیا اور کہانی کا روپ مختصر ہوتے ہوتے چار چھ صفحات تک آ پہنچا تو سرشار کی تحریر پس پشت چلی گئی۔

فسانہ آزاد میں طنز‘ مزاح‘ ظرافت‘ ٹھٹھول اور مضحکہ خیزی Ridicule سب کچھ پایا جاتا ہے اور طنز و مزاح کے حساب سے تو یہ اردو ادب کا انسائیکلو پیڈیا ہے‘ اس میں جو کامیڈی ہے وہ الفاظ سے زیادہ حرکات و سکنات و موقع و محل Situational پر مبنی ہے۔ سرشار پڑھنے والے کو ایسی دنیا میں پہنچا دیتا ہے جو پڑھ پڑھ کر لوٹ پوٹ ہونے کے سوا اور کوئی موقع ہی نہیں دیتا۔

سرشار نے اس کتاب میں طرح طرح کے اسلوبیاتی‘ ڈرامائی اور کہانی کاری کے تجربات کئے ہیں جن کو آج کوئی دوسرا نثر کے میدان میں نہیں اپنا سکا‘ اس لئے میں اسے اردو کا سب سے بڑا نثر نگار قرار دیتا ہوں اور کہانی کار بھی‘ جس نے اردو نثر کے دامن کو اپنی تحریروں کے موتیوں سے بھر دیا۔

اس کا کردار میاں خوجی ایک بین الاقوامی شہرت کا حامل کردار بن چکا ہے‘ وہ اس کا بات بات پر نکالوں قرولی (چھری) اب ضرب المثل کی حیثیت اختیار کر گیا ہے‘ اس قسم کے کردار ہمیں معاشرے میں چاروں طرف ملتے ہیں جو کرتے کراتے کچھ نہیں بس ہانکتے چلے جاتے ہیں‘ جن کے بارے میں کہا جاتا ہے زبان کی کمائی (کھٹی) کھاتے ہیں۔

میاں خوجی دبلے پتلے مختصر القامت آدمی ہیں مگر باتیں سنو تو پتہ چلے کہ ساری دنیا کو انہوں نے ہی سر پر اٹھا رکھا ہے یا دنیا ان کے آکھے کی وجہ سے چل رہی ہے۔ اس کے بارے میں پڑھ پڑھ کر ہنسی آتی ہے اور آخر میں آدمی اس کا دوست و رفیق بن جاتا ہے۔ اردو زبان میں اس کے پائے کا دوسرا کوئی کردار موجود نہیں ہے‘ اس کتاب کا اسلوب بڑا منفرد ہے ناقابل تقلید‘ میں اسے میوزیم اسلوب کہتا ہوں کیونکہ اس جیسا دوسرا اسلوب مشکل سے ہی دستیاب ہوتا ہے۔ جن لوگوں کے پاس وقت ہو وہ اس کتاب کی چھ جلدوں میں سے ایک ایک جلد خرید کر مزے لے لے کر پڑھیں اور اس نئے دور میں پرانی یادوں‘ تاریخوں‘ تصورات‘ تخیلات اور اسالیب نثر سے لطف اندوز ہوں۔
 
Top