فروغ قومی زبان میں ۔۔۔۔مفرح القلوب کا اردو ترجمہ (اکسیر القلوب)

پچھلے دنوں مجھے اسلام آباد جانا پڑا ۔جب کبھی اسلام آباد جاتا ہوں، ادارہ فروغ قومی زبان ( سابقہ مقتدرہ قومی زبان) کے بک شاپ کا چکر ضرور لگاتا ہوں ۔ اس دفعہ بک شاپ میں میری دلچسپی کی کوئی کتاب ،انہوں نے شائع نہیں کی تھی ۔

پہلی دفعہ ادارے کی لائبریری پر دھاوا بولا اور جیسا کہ عموما لائبریری اسٹاف والوں کا رویہ ہوتا ہے کہ کتاب کی فوٹو کاپی میں لیت و لعل کرتے ہیں ۔فروغ قومی زبان کی لائبریری کے اہلکاروں نے ایسا کچھ مظاہرہ نہیں کیا ۔

مجھے اردو زبان و بیان بالخصوص صرف و نحو پر چند کتب کی فوٹو کاپی درکار تھیں ۔متعلقہ الماری کی نشاندہی پر میں نے وہاں سے کچھ کتابیں اردو گرامر کے حوالے سے منتخب کیں اور انہیں لائبریری میں متعلقہ اہلکار کے حوالے کرکے ان کی فوٹوکاپی کی درخواست کی ۔

مناسب ادائیگی کے بعد انہوں نے مجھے تین دن بعدنقول کی وصولی کی ہدایت کی گئی۔

جب میں کتابیں منتخب کر رہا تھا تو دریں اثنا میرے دوست صحافی صدیق خان سواتی نے مجھے ایک شیلف کی طرف متوجہ کیا کہ اس میں طب کی پرانی کتابیں ہیں ۔ میں نے ان کی بات پر کچھ خاص توجہ نہیں دی اور کہا کہ یہ کچھ ایسی نایاب /کم یاب کتابیں نہیں ہیں لیکن جب میں نے ایک کتاب کھول کر دیکھی تو میری آنکھیں کھل گئیں ۔

وہ مفرح القلوب کا اردو ترجمہ " اکسیر القلوب " تھا ۔

مفرح القلوب کیا ہے ؟ اور کس نے لکھی ہے ؟

علمِ طب کی مشہور کتاب القانون فی الطب (ابن سینا) کی تلخیصات زیادہ تعداد میں مسلم اور مغربی اطبا نے تیار کی تھیں ۔اس کتاب کی ایک تلخیص علامہ شمس الدین چغمینی نے بھی لکھی ہے جو قانونچہ طب کے نام سے معروف ہے ،جو کبھی درسِ نظامی میں طلبا کو طب سے روشناس کرنے کے لیے پڑھائی جاتی تھی ۔

اس کتاب کی شرح حکیم علامہ اکبر ارزانی رحمہ اللہ نے فارسی زبان میں لکھی تھی ۔جو بہترین اور نفیس کتاب ہے ۔

کئی سا ل سے میرا ارادہ تھا کہ اس فارسی کتاب کو اردو ترجمہ کا قالب پہنادوں لیکن ہمیشہ ایک بات آڑے آتی تھی کہ فارسی میں کما حقہ صلاحیت نہیں رکھتا تھا ۔اگر چہ خود طب کی ابتدائی کتابیںفارسی میں پڑھی تھیں اور تدریس ِ طب کے دوران اس کے اصل فارسی نسخے کا مطالعہ بھی کرتا تھالیکن خود سمجھنا الگ چیزہے اور دوسرے کو (ترجمہ کرکے )سمجھانا الگ۔

بہر حال اس سارے واقعے سے میرا مقصد یہ ہے کہ سرکاری لائبریریوں ، اتوار بازار، جمعہ بازار اور پرانی کتابیں بیچنے والے افراد کے پاس ، ذاتی لائبریریوں میں جو بعضے نایاب کتابیں،اردوزبان میں مختلف علوم و فنون کی پڑی ہیں ۔ ادبی و لسانی علوم کے علاوہ ان کی طرف بھی توجہ ہونی چاہیے ۔ وہ بھی زبان کا سرمایہ ہے ۔
 
Top