فروری میں مہنگائی میں اضافے کی شرح جون 2014 کے بعد بلند ترین سطح پر رہی، اسٹیٹ بینک

جاسم محمد

محفلین
اقتدار میں آنے سے پہلے کیا تبدیلی کے عبقری معیشتی علم بردار چورن فروش تھے، خدانخواستہ؟ :)
2016 میں ہی معلوم تھا کہ ملک کدھر جا رہا ہے۔ جبکہ اس وقت کی حکومت معاشی ترقی کے گُن گا رہی تھی۔
Khan said the PML-N and PPP governments had added $49 billion to the current external debt of $73 billion. Most of this amount, estimated at $32.6 billion, was added from 2008 to 2016 while the remaining $17.4 billion was added during the 1990s
18-1478976900.jpg
نومبر 2016 کا آرٹیکل
Pakistan’s external debt likely to swell to $110b in four years | The Express Tribune
 

جاسم محمد

محفلین
ڈالر 143 روپے 50 پیسے کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا
Last Updated On 02 April,2019 04:44 pm

485112_96677774.jpg

کراچی: (دنیا نیوز) بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ حتمی معاہدے سے قبل ڈالر کا ایک اور پھٹکا، عوام کے لیے ڈالر 143 روپے 50 پیسے کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا۔

ڈیلرز کے مطابق انٹربینک میں بھی امریکی کرنسی مزید 20 پیسے مہنگی ہو گئی جس کے بعد انٹربینک میں امریکی کرنسی 141 روپے 10 پیسے کی ریکارڈ سطح پر آ گئی ہے۔

معاشی تجزیہ کاروں کے مطابق ڈالر کی قیمت میں اضافے کی بڑی وجہ آئی ایم ایف کی شرط کو پورا کرنا، سخت مانیٹری پالیسی اور بیرونی سرمایا کاری میں کمی کا ہونا ہے۔

ڈالر کی قیمت بڑھنے سے ایک طرف تو ملک پر عائد قرضوں میں اضافہ ہوگا جبکہ درآمدی اشیا جس میں دالیں، کھانے کا تیل، مصالحہ جات، پیٹرول، ڈیزل، گیس، الیکٹرونکس مصنوعات، گاڑیاں اور موٹرسائیکلیں سب کچھ مزید مہنگا ہو جائے گا۔
 

جاسم محمد

محفلین
ڈالر کی قدر روز بڑھ رہی ہے پتہ نہیں حکومت کہاں سوئی ہوئی ہے ، لاہور ہائی کورٹ
ویب ڈیسک بدھ 3 اپريل 2019
1617246-LHCWEB-1554271019-400-640x480.jpg

حکومت اربوں روپے وصول تو کرلیتی ہے لیکن پیسے جاتے کہاں ہیں؟ جسٹس امیر بھٹی فوٹو: فائل

لاہور: ہائی کورٹ کے فاضل جج جسٹس امیر بھٹی نے ایک کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے ہیں کہ عوام مہنگائی میں پس رہے ہیں اور ڈالر کی قدر روز بڑھ رہی ہے لیکن پتہ نہیں حکومت کہاں سوئی ہوئی ہے۔

لاہور ہائی کورٹ میں سرکاری ٹھیکیداروں کو حکومت کی جانب سے ادائیگیاں نہ کرنے کے خلاف کیس کی سماعت ہوئی، دوران سماعت جسٹس امیر بھٹی حکومت پر برس پڑے، انہوں نے ریمارکس دیئے کہ حکومت ٹھیکیداروں سے کام کروالیتی ہے لیکن پیسے نہیں دیتی، بظاہر حکومت ٹھیکیداروں سے فراڈ کررہی ہے، عوام سے فراڈ برداشت نہیں کریں گے۔

عدالت کے روبرو سیکریٹری خزانہ پنجاب نے کہا کہ ہم طے ٹیکس کے طے شدہ اہداف حاصل نہیں کر پائے پنجاب میں 100ارب روپے کا شارٹ فال ہے۔

جسٹس امیر بھٹی نے ریمارکس دیئے کہ عوام مہنگائی میں پس رہے ہیں، ایگزیکٹو فیل ہوچکی ہے، ڈالر کی قیمت روز بڑھ رہی ہے، پتہ نہیں حکومت کہاں سوئی ہوئی ہے کبھی پیٹرول پر ٹیکس بڑھا کر مہنگائی کردی، یہاں حکومت نام کی چیز نہیں ہے، عوام کو کچھ ریلیف نہیں مل رہا اور حکومت میں آنیاں جانیاں لگی ہوئی ہیں، پہلے بھی یہی سسٹم تھا لیکن اتنا مہنگاحج اور غیر یقینی صورتحال نہیں تھی۔

جسٹس امیر بھٹی نے مزید ریمارکس دیئے کہ حکومت روز کسی نہ کسی ملک کے سربراہ کو بلا کر اربوں روپے مانگتی ہے، اربوں ڈالر لینے کے بعد ڈالر کی قیمت نیچے جانے کے بجائے اوپر جارہی ہے، حکومت اربوں روپے وصول تو کرلیتی ہے لیکن پیسے جاتے کہاں ہیں؟ یہ کسی کو نہیں پتہ، ڈالر کو روکنے کے بجائے حکومت ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھی ہے، اور کچھ نہیں ہوسکتا تو کم از کم ڈالر کو ہی روک لیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
معیشت اس سے زیادہ بہتر نہیں ہو سکتی
04/04/2019 عدنان خان کاکڑ




تحریک انصاف کے بہت ”ڈائی ہارٹ“ حامی بھی نہایت پریشان دکھائی دے رہے ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت آنے کے محض چھے آٹھ ماہ بعد ہی ڈائی ہارڈ سے ڈائی ہارٹ کی تبدیلی کو بعض قنوطی پریشان کن قرار دے رہے ہیں۔ اس مردہ دلی کو پھیلانے میں مقامی اور عالمی میڈیا بھی اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔ آج ہی روئٹر نے سٹوری شائع کی ہے کہ پنڈی کا ایک ٹیکسی ڈرائیور جس نے کپتان کی غریب پروری سے متاثر ہو کر اسے ووٹ دیا تھا اب سوچ رہا ہے کہ اپنی ٹیکسی کو آگ لگا کر نچنت ہو جائے۔

حالات نہایت مایوس کن دکھائی دے رہے ہیں لیکن گھبرانا نہیں چاہیے۔ لوگ نون لیگ کے پروپیگنڈے کا شکار ہو کر ہر اچھی چیز کو بھی بری نظر سے دیکھ رہے ہیں ورنہ ہر ذی شعور شخص یہ سمجھ سکتا ہے کہ معیشت بہتر ہو رہی ہے۔ کپتان کے بعض اقدامات عزیز ہم وطنوں کی دنیا سنوار رہے اور بعض ان کی عاقبت اور طبق روشن کر رہے ہیں۔ جناب اسد عمر بھی بتا چکے ہیں کہ مشکل وقت گزر چکا ہے اور معیشت دونوں ہاتھ پھیلا کر اٹھان لے چکی ہے۔

پہلے تو پیٹرول کی قیمت کو ہی دیکھ لیتے ہیں جس کی وجہ سے ٹیکسی والے صاحب اپنی گاڑی کو آگ لگانا چاہتے ہیں۔ جناب اسد عمر نے واضح کر دیا ہے کہ پیٹرول کی قیمت بڑھانا گھٹانا حکومت کے اختیار میں نہیں ہے۔ یہ ایک خود مختار ادارہ اوگرا کرتا ہے۔ اسد عمر صاحب کی بات درست ہے۔ اوگرا غالباً محض خانہ پری کے لئے وزیر اعظم کو قیمتوں کی منظوری کے لئے سمری بھیجتا ہے اور میڈیا پر خبر لگوا دیتا ہے کہ جی ہم نے اتنے کی سمری بھیجی تھِی لیکن وزیراعظم نے اتنے کی منظوری دی۔ حکومت کا اس میں کوئی کردار نہیں ہو گا اور وزیراعظم کی حیثیت ویسے ہی کٹھ پتلی کی ہو گی جیسے آئین میں صدر کی مقرر کی گئی ہے۔ یعنی جو ایڈوائس مل جائے اس پر دستخط کرنے ہیں۔

دوسرا معاملہ اشیائے خورد و نوش کی قیمت میں اضافے کا ہے۔ اور یہیں سے اصل گڑبڑ ہو رہی ہے کیونکہ اسد عمر صاحب نے واضح کر دیا ہے کہ ”مہنگائی میں اضافے کی بڑی وجہ اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں اضافہ ہے“۔ ہر شخص جانتا ہے کہ نون لیگ والوں کا سب سے بڑا سپورٹر تاجر طبقہ ہے۔ گلی محلے کے پرچون فروش محض کپتان کی دشمنی میں آٹے دال کا بھاؤ بڑھا رہے ہیں اور حکومت بے بسی سے دیکھ رہی ہے۔ یہ سازش اتنی زیادہ بڑی ہے کہ سرکاری ادارے یوٹیلٹی سٹور تک نے دال اور چاول کی قیمت میں پچاس روپے کلو تک کا اضافہ کر دیا ہے۔ غالباً ادھر بھی سارا سٹاف نون لیگ کا حامی ہے اور اس نے حکومت کو بتائے بغیر ہی اس طرح اس کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا۔

ماہرین معیشت کہہ رہے ہیں کہ عوام اب صرف وہ اشیا خرید رہے ہیں جو جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنے کو ضروری ہیں۔ محکمہ شماریات کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی اشیائے صرف کی قیمتیں 9.4 فیصد کی شرح سے مہنگی ہو کر نومبر 2013 کے بعد بلند ترین سطح پر ہیں۔ اسد عمر صاحب نے فوراً اس پر گرفت کی اور بتایا کہ محکمہ شماریات کو حساب کتاب نہیں آتا ہے اور اس نے یہ شرح 1.2 بڑھا کر بتائی ہے۔ اس لئے ہمیں مطمئن رہنا چاہیے کہ اشیائے صرف کی قیمتیں زیادہ نہیں بڑھی ہیں۔ لیکن بہرحال وہ بتا چکے ہیں کہ مہنگائی اسی سبب بڑھی ہے۔

اسی مہنگائی کو بنیاد بنا کر سٹیٹ بینک شرح سود کا تعین کرتا ہے۔ کوتاہ بینی سے کام لیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ اس نے گھبرا کر شرح سود میں اضافہ کیا ہے۔ لیکن معاملہ فہم افراد سے یہ حقیقت چھپی نہیں ہے کہ حکومت درحقیقت سود کے مذموم کاروبار کی بیخ کنی پر تلی ہوئی ہے۔ جتنی زیادہ شرح سود ہو گی، اتنے زیادہ لوگ سود خوروں سے دور بھاگیں گے۔ رفتہ رفتہ ملک سے سود کی لعنت کا خاتمہ ہو جائے گا۔ دنیا و عاقبت سنوارنے والے اس بہترین منصوبے پر صرف نون لیگ کے حامی ہی اعتراض کر سکتے ہیں۔

پنجاب کی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد نے بتایا ہے کہ ہسپتالوں کے آؤٹ ڈور وارڈ میں مریضوں کومفت دوائیں نہیں دی جائیں گی۔ اب اس پر قنوطی تو یہی کہیں گے کہ حکومت عوام سے سستا علاج چھین رہی ہے اور اسے غریبوں کا احساس نہیں ہے۔ لیکن اہل نظر جانتے ہیں کہ اس اعلان کا مطلب یہ ہے کہ اب حکومت کے بہترین اقدامات کی وجہ سے عوام کی صحت اس حد تک بہتر ہو گئی ہے کہ وہ بیمار پڑ کر ہسپتال نہیں جاتے ہیں۔ دوائیاں بیکار پڑے پڑے خراب ہو رہی تھیں۔ اس وجہ سے اب انہیں ذخیرہ کرنا چھوڑ دیا گیا ہے۔

لیکن ایسا نہیں ہے کہ یہ حکومت سب اچھا کر رہی ہے۔ اب یہی دیکھ لیں کہ سب نے تحریک انصاف کو اس لئے ووٹ دیا تھا کہ وہ زرداری اور نواز شریف وغیرہ جیسے کرپٹ لوگوں سے پاکستان کو پاک کر دیں۔ حکومت نے اقتدار سنبھالنے سے پہلے ہی ان کے خلاف اقدامات شروع کر دیے تھے۔ اور وہ تمام کرپٹ لوگوں کو نہایت خوفزدہ کرنے میں کامیاب ہو گئی تھی۔ اسی وجہ سے حکومت کے نہایت معتبر ذرائع سے خبریں بے اختیار لیک ہوتی رہی تھیں کہ نواز شریف پانچ دس ارب ڈالر دے کر این آر او کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن حکومت نہیں مان رہی اور انہیں عبرت کا نشان بنانے پر تلی ہوئی ہے۔

یہی وجہ ہو گی کہ نہایت خوف کے عالم میں شہباز شریف نے کہا کہ ”حکومت ضد، انا اور تکبر کو ایک طرف رکھ کر میثاق معیشت کی طرف آئے“۔ غور سے دیکھا جائے تو وہ اتنے سہمے ہوئے تھے کہ این آر او مانگ رہے تھے مگر حکومت نہیں دے رہی تھی۔

اب یہ خبر نہایت تشویش سے سنی گئی ہے کہ ان مہا کرپٹ لوگوں سے، جن کے خلاف کپتان بائیس برس سے جدوجہد کر رہا ہے، اسد عمر یہ نام نہاد میثاق معیشت کرنے جا رہے ہیں۔ اسد عمر نے بتایا کہ حکومت نے اپوزیشن کے ساتھ میثاق معیشت کا مسودہ تیار کر لیا ہے اور 4 اپریل کو خزانہ کمیٹی کو پیش کریں گے۔ نیز کالا دھن رکھنے والے عناصر کو حکومت اثاثہ جات پر ایمنسٹی دینے پر غور کر رہی ہے۔ کیا اس سہولت سے کرپٹ اپوزیشن والے فائدہ نہیں اٹھا لیں گے؟ کل ہی جناب اسد عمر نے اسلام آباد میں ڈیجیٹل اینڈ سوشل میڈیا فورم پر بات کرتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ معیشت اٹھان لے چکی ہے۔ معیشت اتنی اچھی پوزیشن میں ہے تو پھر نہایت ہی کرپٹ اپوزیشن سے یہ نام نہاد میثاقِ معیشت کیوں کیا جا رہا ہے؟
 

جاسم محمد

محفلین
تباہی آ نہیں رہی، تباہی آ گئی ہے
04/04/2019 اظہر سید


اسلام اباد سٹاک ایکسچینج میں آٹھ ماہ قبل 127 بروکرز تھے اور آج تین اپریل کو اسلام اباد حصص بازار میں صرف 21 بروکر کام کر رہے ہیں۔ پیر کے روز حصص بازار میں چار سو پوائنٹ کی کمی ہوئی اور منگل کو تین سو جبکہ آج بدھ کے روز ایک مرحلہ پر مارکیٹ تین سو پوائنٹ تک گر چکی تھی یعنی تین دن میں حصص انڈکس میں ایک ہزار پوائنٹ کی کمی ہو چکی ہے۔

تمام بروکرز مسلسل نقصان اٹھا رہے ہیں اسلام آباد حصص بازار میں جو 21 مجاہد مورچے پر ڈٹے ہوئے ہیں وہ اپنے دفاتر کے مالک ہیں یعنی انہیں اپنے بروکج ہاوس کا ڈھائی لاکھ روپیہ کرایہ نہیں دینا ہوتا باقی جو 107 بروکر کرایہ کے دفاتر میں کام کر رہے تھے وہ نادہندہ ہو گئے، وہ مسلسل نقصان برداشت کرنے کی ہمت نہیں کر پائے۔ وہ اپنے بروکج ہاوس بند کر گئے ہیں اور انہوں نے اپنی ممبر شپ سرینڈر کر دی ہے اور تمام عملہ فارغ کر دیا ہے۔

مارکیٹ کا والیم یا حجم آٹھ ماہ قبل 75 کروڑ حصص روزانہ تھا یہ خرید و فروخت بروکرز کو زندہ رکھے ہوئے تھی آج پانچ اپریل 2019 کو مارکیٹ کا حجم 25 کروڑ تھا اور گزشتہ آٹھ ماہ کے دوران مسلسل کم ہوتے ہوئے یہ 25 کروڑ کی اوسط پر پہنچا ہے۔ ملک کے تینوں حصص بازاروں میں اب 300 بروکر بچے ہیں 25 کروڑ حصص کی خرید و فروخت کے کمیشن کو سامنے رکھیں تو سب کے سب خسارے میں جا رہے ہیں کیونکہ انہیں تمام ٹیکس ادا کرنا ہیں اور ان کا کمیشن کم ہو چکا ہے مارکیٹ میں اب چھوٹے سرمایہ کار نہیں ہیں اس لئے بروکر بھاگ رہے ہیں اور حصص بازار ویران ہو رہا ہے۔

رئیل اسٹیٹ کے شعبہ میں پراپرٹی کی قدر 50 فیصد کم ہو چکی ہے۔ فائلر کی شرط اور ملک ریاض کے خلاف کارروائی نے پراپرٹی کا کاروبار برباد کر دیا ہے۔ بحریہ ٹاون، ڈی ایچ اے یا دیگر مہنگی ہاوسنگ سکیموں میں اگر کوئی پلاٹ آٹھ ماہ قبل دو کروڑ کا تھا وہ ایک کروڑ کا رہ گیا ہے جس طرح حصص بازار میں 100 ارب روپیہ کے حصص 25 ارب کے رہ گئے ہیں اور 75 ارب روپیہ آنے والی تبدیلی کی بھینٹ چڑھ گئے ہیں۔ اسی طرح ایک ہزار ارب روپیہ کی پراپرٹی 500 ارب روپیہ کی رہ گئی ہے۔ پراپرٹی کی نصف یعنی پچاس فیصد قدر تبدیلی کا شکار ہو گئی ہے۔ پلاٹ بیچنے والے لگتا ہے سارے ہیں لیکن خریدنے والے محسوس ہوتا ہے، مریخ پر چلے گئے ہیں۔ ہم نے ایٹم بم اور میزائل بنا لئے لیکن ایسا کوئی خلائی جہاز نہیں بنایا جو سرمایہ کاروں کو مریخ سے واپس زمین پر لا سکے۔

ہم نے دشمن قوتوں کو تو شکست دے دی لیکن ہم سٹاک مارکیٹ میں ہار گئے ہزاروں چھوٹے سرمایہ کار جو روز یہاں کام کرتے تھے اور ہر روز کمائے منافع سے اپنے بچوں کیلئے خریداری کرتے تھے، کھانا کھاتے تھے اور روپیہ کی نقل و حمل کے ضامن تھے، وہ سب بھاگ گئے۔ ہم انہیں روکنے میں ناکام ہو گئے۔

ہم عزت اور ذلت اللہ کے ہاتھ میں ہے پر یقین کرتے تھے لیکن جو ذلت بے روزگار ہونے والے برداشت کر رہے ہیں۔ جس طرح بے روزگاری کی وجہ سے اور کاروبار ختم ہونے کی وجہ سے جرائم میں اضافہ ہو رہا ہے ،لوگ بچوں کو بھوک کے ہاتھوں قتل کر رہے ہیں۔ لوگ اپنی بیویوں کو زندہ جلا رہے ہیں، خودکشیاں کر رہے ہیں، ہم ان پر یقین نہیں کرتے۔

گدون انڈسٹریل اسٹیٹ میں 98 فیصد صنعتی یونٹ بند ہو چکے ہیں۔ حطار انڈسٹریل اسٹیٹ میں 70 فیصد صنعتی یونٹ بند ہو گئے ہیں۔ بنگلادیش سے جو پاکستانی صنعتکار اپنی صنعتیں واپس منتقل کر رہے تھے وہ سب اپنے آپ کو کوستے ہوئے واپس بنگلادیش چلے گئے ہیں۔ ایک ماچس فیکٹری کا مالک کہتا ہے میں 10 سال سے فیکٹری چلا رہا تھا تین ماہ سے میرا بجلی کا بل 50 لاکھ ماہانہ سے 75 لاکھ ماہانہ ہو گیا ہے گیس کا بل 25 لاکھ سے 40 لاکھ پر پہنچ گیا ہے اور چین سے آنے والی ماچس اچھی بھی ہے، پچاس فیصد کم قیمت بھی۔ چنانچہ گزشتہ ہفتے میں نے فیکٹری بند کر دی اور 70 ملازمین فارغ کر دئے ہیں۔

مری روڈ صرافہ مارکیٹ کے ایک بڑے جیولر کا کہنا ہے کہ سونے کی قیمت مسلسل بڑھ رہی ہے اور خریدار مسلسل کم ہو رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے ہر کوئی بیچنے آرہا ہے۔ پورے دن میں دوکان میں 50 لوگ داخل ہوتے ہیں۔ ان میں صرف تین خریدنے والے اور 47 بیچنے والے ہوتے ہیں۔ اب ہماری اپنے بیچے ہوئے زیور خریدنے کی سکت بھی ختم ہو گئی ہے۔ منی مارکیٹ کے ایک ڈیلر کا کہنا ہے ڈالر بیچنے والے ناپید ہیں۔ ہر شخص لگتا ہے ڈالر خریدنے آ رہا ہے۔ ہم دوبئی سے بھی ڈالر منگوا رہے ہیں اور بلیک مارکیٹ سے بھی خرید رہے ہیں لیکن ڈیمانڈ بڑھتی جا رہی ہے اور ڈالر غائب ہوتے جا رہے ہیں۔ جو عام لوگ ڈالر خرید رہے ہیں، وہ اصل میں چھوٹے سرمایہ کار ہیں جو اب اپنی سرمایہ کاری محفوظ کرنے کیلئے کاروبار چھوڑ کر ڈالر خرید رہے ہیں۔

جیولرزمارکیٹ کے دوکاندار نے ایک اور بات بھی کی تھی کہ سونے کے خریدار ہیں لیکن وہ زیورات نہیں بلکہ سونے کے بسکٹ خریدنے والے ہیں اور اس میں ہمیں ایک تولہ پر صرف ایک ہزار ملتے ہیں جو روزانہ کے خرچہ کے تناسب سے گھاٹے کا سودا ہے۔

جو تبدیلی لائی گئی تھی وہ آگئی ہے اور ہم تبدیلی لانے والوں کو ایک زوردار سیلوٹ کرتے ہیں۔ پاکستان زندہ باد
 

جاسم محمد

محفلین
ادویہ سازکمپنیوں نے ادویات کی قیمتوں میں 100 فیصد ازخود اضافہ کردیا

ادویہ ساز کمپنیوں نے جان بچانے والی ادویات کی قیمتوں می٘ں بھی اضافہ کر دیا۔ فوٹو کریڈٹ : شٹر اسٹاک

ادویہ ساز کمپنیوں کی جانب سے ادویات کی قیمتیں از خود 100 فیصد تک بڑھانے پر لوگ پریشان ہو گئے۔ جان بچانے والی ادویات کی قیمتوں میں بھی 400 روپے تک کا اضافہ کا ہو چکا ہے۔

میڈیکل اسٹورز مالکان کے مطابق ڈیڑھ ماہ بعد ادویات کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا ہے۔ امراض قلب کی دواکی قیمت میں 317 روپے، شوگر کو کنٹرول کرنےوالی دوا کی قیمت 272 سے 460 روپے اور بلڈ پریشر کی دوائی کی قیمت 185 سے 500 روپے تک بڑھ چکی ہے۔

ٹی بی کی ایک میڈیسن 872 سے 1625 کی ہو گئی ہےجب کہ ہارمونز کا ایک انجکشن 750 سے 1437 کا ہو گیا ہے۔ گلے کے امراض کی دوا 548 سے بڑھا کر 921 روپے کر دی گئی ہے۔ سر درد کیلئے استعمال ہونے والی دوا کی قیمت میں 27 روپے فی پیکٹ کا اضافہ ہوا ہے۔

ادویہ ساز کمپنیوں کے مالکان کا کہنا ہے کہ ڈالر کی وجہ سے ادویات کی قیمتوں میں اضافہ کرنا پڑا جب کہ فارماسسٹ کا کہنا ہے کہ میڈیسن کے نرخ میں کئی گنا اضافے نے کاروبار متاثر کر دیا ہے۔

دوسری جانب ادویات کی قیمتوں میں 100 فیصد اضافےکو لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کر دیا گیا ہے۔

لاہور ہائیکورٹ میں یہ آئینی درخواست ایڈووکیٹ ندیم سرور نے دائر کی جس میں وفاقی حکومت سمیت دیگر کو فریق بنایا گیا ہے۔

درخواست گزار کا مؤقف ہےکہ حکومت نے جان بچانے والی ادویات کی قیمتوں میں 9 سے 15 فیصد تک اضافہ کیا مگرادویات بنانے والی کمپنیوں نےحکومتی نوٹیفکیشن کی آڑ میں 100 فیصد اضافہ کر لیا۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی ادویات بنانے والی کمپنیوں کے خلاف ان قیمتوں میں اضافے پر کارروائی نہیں کر رہی۔

درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ ادویات کی قیمتوں میں 100 فیصد اضافہ کرنے والی کمپنیوں کے خلاف عدالتی کارروائی کا حکم دیا جائے۔

مریضوں کا کہنا ہے کہ قیمتیں بڑھا کر عوام پر بوجھ ڈالا جا رہا ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ پنجاب ادویات کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے لیے موثر اقدامات کریں۔
 

جاسم محمد

محفلین
وفاقی حکومت نے 8 ماہ میں 3400 ارب کے قرضے لیے
شہباز رانا ہفتہ 6 اپريل 2019
1620957-loan-1554523997-942-640x480.jpg

بجٹ کا 69فیصدقرضوں کی ادائیگی اور دفاعی اخراجات میں ہی پورا ہوجائے گا۔ فوٹو : فائل


اسلام آباد: حکومتی قرضے 27.6کھرب ہوگئے جب کہ وفاقی حکومت نے8ماہ میں3.4 کھرب کے قرضے لیے جس کی وجہ کم محصولات، بلند اخراجات اور روپے کی قدرمیں کمی ہے۔

اسٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق جولائی سے فروری 2019تک حکومت نے یومیہ14ارب روپے کے قرضے لیے جس میں پی ٹی آئی حکومت کے ساڑھے 6ماہ بھی شامل ہیں جب کہ ایف بی آر کی جانب سے محصولات میں کمی بھی قرضے بڑھنے کی وجہ ہے مالی سال کے 9ماہ میں ٹیکس وصولی ہدف سے 318ارب کم رہی۔

حکومتی تخمینے کے مطابق بجٹ کا 69فیصد قرضوں کی ادائیگی اور دفاعی اخراجات میں ہی پورا ہوجائے گا۔
 
Top