فرقت سے مگر خالی

پیشِ خدمت ہے خاکسار کا کلام.... دشتِ وحشت کی جنوں خیزیوں سے الجھتے کچھ خیالات.... الفاظ کے جامے میں.....


"ہر سمت ہے سناٹا ہر راہ گذر خالی"
کچھ ایسے ہوئے دیکھو عالَم کے نگر خالی

جرثومہ نیا آیا دنیا کو بدل ڈالا
ہر شخص مقیّد ہے ہر ملک و شہر خالی

یارب کی یہ مرضی ہے مرضی کا وہ مالک ہے
مسلم ہیں، مساجد ہیں سجدوں سے مگر خالی

برکت تھی مچلتی تھی دامن میں فرشتوں کے
در پر جو وہ پہنچے تو مہمانوں سے گھر خالی

فرصت نہ مقدّر میں برسوں سے شکایت تھی
اب کے ہے ملی اتنی، فرقت سے مگر خالی

اس رات کے عالم میں یہ کس کی شباہت ہے
روشن ہے بڑا لیکن لگتا ہے قمر خالی

میخانے بڑے دیکھے، دیکھی نہ روایت یہ
ساغر ہوں بھرے ساقی، پیمانے مگر خالی

یہ کس کی عنایت ہے اک شمعِ فروزاں سے
اشعار پگھلتے ہیں گو شمعِ سحر خالی


کلامِ ذکی انور ہمدانی
(مصرع اول جمیل اصغر برہانپور)


مورخہ 11 اپریل 2020
 
Top