فرعونیت کے علم بردار

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

ان تمام لوگوں کو پیدا کرنے والا اور ان کی پشت پناہی کرنے والا بھی امریکہ ہی ہے
اگر ان لوگوں نے امریکہ پر حملے کا اعلان کیا بھی ہے تو امریکہ کو چاہیے کہ اپنا دفاع اور اپنی سرحدات اور نگرانی کو محفوظ کرنے کا انتظام کرے اور ان دہشت گردوں کو خاتمے کی ذمہ داری پاکستانی حکومت اور فورسز پر ڈال دے
طالبان نے اگر امریکہ کے خلاف اعلان جنگ کیا ہے تو امریکہ میں بھی کئی ایسے شدت پسند ہیں جنہوں نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اعلان جنگ کیا ہے تو کیا اب تمام مسلم ممالک مل کر امریکہ پر چڑھ دوڑے اور ان شدت پسندوں کو ختم کرنے کے لیے حملے شروع کردیں اگر یہی دلیل آپ کی دلیل ہے تو اب تمام مسلم ممالک کو ایسے تمام لوگوں کا خاتمہ کرنا چاہیے جو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف شدت پسندانہ سرگرمیوں میں مصروف ہیں


آپ نے جو تقابل اور موازنہ پيش کيا ہے وہ حقائق پر نہيں بلکہ غلط تاثر پر مبنی ہے۔

جب ايبٹ آباد ميں آپريشن کيا گيا تھا تو اس کا مقصد دنيا کے خطرناک ترين دہشت گرد کو نشانہ بنانا تھا جو ہزاروں افراد کی ہلاکت کا ذمہ دار تھا نا کہ اس علاقے سے ايسے تمام افراد کا قلع قمع کرنا جنھوں نے کبھی بھی امريکہ کے خلاف اظہار نفرت کيا ہو۔ اور آپريشن ميں وہی ہوا جس کی کاوش کی گئ۔

امريکی حکومت ہر اس شخص کا تعاقب نہيں کر رہی جو ہماری پاليسيوں سے اختلاف رکھتا ہے، ہماری طرز زندگی کو رد کرتا ہے يا دنيا کے تمام مسائل کے ليے ہميں قصور وار قرار ديتا ہے۔ ايسی کوشش يا سوچ تو محض ايک نا ختم ہونے والی اتھاہ گہرائ کی جانب لے جائے گی اور يہ ہماری واضح کردہ خارجہ پاليسی سے قطعی مختلف ہے۔

ويسے بھی خود امريکہ کے اندر ايسے افراد اور گروہ موجود ہيں جن ميں مسلم اور غير مسلم دونوں شامل ہیں جو نا صرف يہ کہ ہماری خارجہ پاليسی سے متعلق فيصلوں پر مسلسل حملے کرتے ہیں بلکہ امريکی حکومت کی جانب سے کسی بھی مداخلت کے بغير کھلم کھلا عوام ميں اپنے خيالات کا پرچار بھی کرتے ہیں۔ اس ضمن ميں آپ کے سامنے ايک مسلم تنظيم حزب التحرير کی مثال رکھوں گا جو امريکہ بھر ميں سيمينار اور کانفرنس منعقد کرتی ہے جن ميں امريکی شہريوں کو اسلامی خلافت کے قيام کی جانب کوششيں کرنے کی ترغيب دی جاتی ہے۔

اسی طرح ايسے افراد اور گروہ بھی موجود ہيں جو مسلم اور غير مسلم سميت ديگر مذاہب کے بارے ميں اپنے نظريات کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ اس بات سے قطع نظر کے يہ خيالات کتنے متنازعہ، قابل نفرت يا انقلابی نوعيت کے ہیں، انھيں دہشت گردی کے ايسے عمل کے مساوی قرار نہيں ديا جا سکتا جس میں بے گناہ شہريوں کو ہلاک کر کے دانستہ اپنے سوچ کو دوسروں پر زبردستی مسلط کرنے کے لیے قتل وغارت غاری کا سہارا ليا جاتا ہے۔

ميں آپ کو يقين سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر امريکہ کے اندر کوئ فرد يا گروہ کسی دوسرے حلقے کے خلاف دہشت گردی کے کسی عمل يا ايسے کسی فعل کی منصوبہ بندی ميں ملوث پايا جائے تو مذہبی اور سياسی وابستگی سے قطع نظر انسانی جانوں کی حفاطت کو يقينی بنانے کے لیے رياست کے قانون کو نافذ کيا جائے گا۔

ميں آپ کی توجہ اس جانب مبذول کروانا چاہتا ہوں کہ 911 کے واقعے کے بعد جسٹس ڈيپارٹمنٹ نے مسلم، عرب، مشرق وسطی اور ايشيا سے تعلق رکھنے والے افراد کے خلاف تشدد کے واقعات کے ضمن ميں قريب 800 واقعات کی تحقيقات کروائ۔ اب تک ان ميں 48 ملزمان کے خلاف مقدمات کی سماعت ہوئ ہے اور 41 افراد کو سزائيں بھی دی جا چکی ہيں۔ 911 کے واقعے کے بعد جسٹس ڈيپارٹمنٹ نے تعصب پر مبنی واقعات ميں اسٹيٹ اور مقامی انتظاميہ کی مدد سے 160 مقدمات درج کيے ہيں۔

آپ اس بارے ميں تفصيلات اس ويب لنک پر پڑھ سکتے ہیں۔

http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=1234963&da=y

مارچ 2011 ميں واشنگٹن کے ايک تھنک ٹينک سينٹر فار سيکورٹی پاليسی نے ايک تحقيق پيش کی جس ميں يہ واضح کيا گيا مذہبی تعصب پر مبنی جرائم يعنی کہ "ہيٹ کرائم" جو کہ امريکی مسلمانوں کے خلاف ہوئے ان ميں سال 2001 کے بعد سے بتدريج کمی واقع ہوئ ہے اور ان کی تعداد سينکڑوں ميں رہ گئ ہے اور يہ تعداد يہوديوں کے خلاف ہونے والے متعصب جرائم کے مقابلے ميں کم ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
 

ساجد

محفلین
جب ايبٹ آباد ميں آپريشن کيا گيا تھا تو اس کا مقصد دنيا کے خطرناک ترين دہشت گرد کو نشانہ بنانا تھا جو ہزاروں افراد کی ہلاکت کا ذمہ دار تھا نا کہ اس علاقے سے ايسے تمام افراد کا قلع قمع کرنا جنھوں نے کبھی بھی امريکہ کے خلاف اظہار نفرت کيا ہو۔ اور آپريشن ميں وہی ہوا جس کی کاوش کی گئ۔
1: ایک آزاد ملک کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اس میں دندناتے ہوئے قتل کرنا اور املاک تباہ کرنا بین الاقوامی قانون کی شدید ترین خلاف ورزی ہے۔ اگر اسامہ وہاں موجود تھا تو پاکستان کو آگاہ کیا جاتا۔ خود امریکہ میں کتنے ہی ایسے غیر ملکی مقیم ہیں جو ان کے ممالک کو قتل ، دہشت گردی اور قومی خزانہ لوٹنے کے جرم میں مطلوب ہیں اور یہ حکومتیں امریکہ سے ان کی واپسی کے لئیے قانونی طور پہ درخواست کرتی ہیں ۔ لیکن آپ ایک ایسی جارحیت کی وکالت کر رہے ہیں جس کو کسی بھی قانون کے تحت Justify نہیں کیا جا سکتا۔
2: عراق ، افغانستان اور پاکستان میں جارحیت کر کے لاکھوں افراد کو قتل کرنے کی ذمہ داری کس پر آتی ہے؟ ٹونی بلئیر نے اقرار جرم کیا کہ عراق پر حملہ کرنے کے لئیے اس نے برطانوی مقننہ کو گمراہ کن رپورٹیں پیش کیں دراصل بقول اس کے وہ ذاتی طور پر صدام کی حکومت ختم کرنے میں دلچسپی رکھتا تھا۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ا س وقت کی امریکی حکومت کو بھی پتہ تھا بلکہ ساری دنیا کو اقوام متحدہ کے اسلحہ انسپکٹر ہانس بلکس نے بتا دیا تھا کہ عراق کے پاس W M D نہیں ہیں لیکن اس کے باوجود عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی۔ "جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے"۔ اس وسیع قتل عمد کا مقدمہ کس پہ دائر ہونا چاہئیے؟۔
ہماری خارجہ پاليسی سے متعلق فيصلوں پر مسلسل حملے کرتے ہیں
اس کو حملے نہیں ،اختلاف رائے کہتے ہیں اور جمہوریت میں یہ مبادیات کا درجہ رکھتا ہے۔

ميں آپ کو يقين سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر امريکہ کے اندر کوئ فرد يا گروہ کسی دوسرے حلقے کے خلاف دہشت گردی کے کسی عمل يا ايسے کسی فعل کی منصوبہ بندی ميں ملوث پايا جائے تو مذہبی اور سياسی وابستگی سے قطع نظر انسانی جانوں کی حفاطت کو يقينی بنانے کے لیے رياست کے قانون کو نافذ کيا جائے گا۔
امریکہ سے ہزاروں کلومیٹر دور بامیان میں مجسموں کو طالبان نے توڑا (میں بھی اس کی حمایت نہیں کرتا)۔ امریکی قانون امریکہ سے باہر بھی حرکت میں آیا لیکن امریکہ کے اندر بار بار دریدہ دہنی کے بعد ملعون ٹیری جونز نے سرعام قرآن پاک نذر آتش کیا اس پہ قانون چادر تانے سوتا رہ گیا۔

اور يہ تعداد يہوديوں کے خلاف ہونے والے متعصب جرائم کے مقابلے ميں کم ہے۔
اس پہ کسی تبصرے کی ضرورت نہیں یہ بات اپنی جگہ پہ ایک مکمل تبصرہ ہے وہ الگ بات ہے کہ سفید جھنڈے والے کی بجائے یہ تبصرہ کسی سفید چھڑی والے نے کیا ہو گا۔
 

سویدا

محفلین
برادرم فواد آپ کا یہ آخری جملہ بہت ہی معنی خیز ہے نیز یہ جملہ امریکی انصاف اور یہودیوں کی حمایت کی غمازی کررہا ہے

اور يہ تعداد يہوديوں کے خلاف ہونے والے متعصب جرائم کے مقابلے ميں کم ہے۔
 

سویدا

محفلین
مسلمانوں کے دلوں میں امریکہ کے خلاف نفرت کے جذبات پیدا ہونے کی وجہ امریکی ذمہ داروں کا یہی رویہ اور انداز ہے جو مسلمانوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے

یہ تعداد يہوديوں کے خلاف ہونے والے متعصب جرائم کے مقابلے ميں کم ہے۔
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

1: ایک آزاد ملک کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اس میں دندناتے ہوئے قتل کرنا اور املاک تباہ کرنا بین الاقوامی قانون کی شدید ترین خلاف ورزی ہے۔ اگر اسامہ وہاں موجود تھا تو پاکستان کو آگاہ کیا جاتا۔ خود امریکہ میں کتنے ہی ایسے غیر ملکی مقیم ہیں جو ان کے ممالک کو قتل ، دہشت گردی اور قومی خزانہ لوٹنے کے جرم میں مطلوب ہیں اور یہ حکومتیں امریکہ سے ان کی واپسی کے لئیے قانونی طور پہ درخواست کرتی ہیں ۔ لیکن آپ ایک ایسی جارحیت کی وکالت کر رہے ہیں جس کو کسی بھی قانون کے تحت Justify نہیں کیا جا سکتا۔
2



ايبٹ آباد ميں ہونے والے آپريشن کا مقصد کسی ايک فرد کو اس کی مذہبی يا سياسی وابستگی کی بنا پر قتل کرنا نہیں تھا۔ يقينی طور پر اس نے پاکستان ميں سیاسی پناہ بھی حاصل نہيں کی تھی۔ يہ دہشت گردی کے قلع قمع کے لیے جاری عالمی جنگی کوششوں کا حصہ تھا اور اس تناظر میں اسامہ بن لادن کو نشانہ بنانا ايک اعلان شدہ ٹارگٹ تھا۔

اس میں کوئ شک نہیں ہے کہ وہ ايک قانونی آپريشن تھا۔ اسامہ بن لادن القائدہ کا ليڈر تھا۔ وہ تنظيم جس نے 911 کے حملے کيے تھے ۔مزيد برآں بن لادن اور اس کی تنظيم نے امريکہ کے خلاف اعلان جنگ کر کے مزيد حملوں کی منصوبہ بندی بھی جاری رکھے ہوئے تھی۔ ہم نے اپنی قوم کے دفاع ميں قدم اٹھايا۔ آپريشن اس انداز میں ترتيب ديا گيا تھا کہ اس ميں کسی بے گناہ کی ہلاکت کے امکانات کم سے کم ہوں۔ اس کے علاوہ جنگی قوانين کے عين مطابق اگر ممکن ہوتا تو اسامہ بن لادن کی جانب سے گرفتاری کو قبول کر ليا جاتا۔

ہم نے اسامہ بن لادن کے کمپاؤنڈ کے متعلق حساس معلومات کا پاکستان سميت کسی ملک کے ساتھ تبادلہ نہیں کيا تھا۔ اس کی صرف ايک ہی وجہ تھی۔ ہم يہ سمجھتے تھے کہ آپريشن کی کاميابی اور ہمارے فوجيوں کی حفاظت کے ليے ايسا کرنا ناگزير تھا۔ بلکہ حقيقت يہ ہے کہ خود ہماری اپنی حکومت کے اندر محض چند افراد کو اس آپريشن کے بارے ميں پيشگی اطلاع تھی۔

آپريشن کے تھوڑی ہی دير بعد امريکی عہديدران نے پاکستان کی سينير قيادت سے رابطہ کر کے انھيں آپريشن کے بارے ميں ارادے اور نتائج سے آگاہ کيا۔ ہم نے دنيا بھر ميں اپنے بے شمار قريبی اتحاديوں اور شراکت داروں سے روابط کيے۔

جب سے 911 کے واقعات ہوئے ہيں، امريکہ نے دنيا پر يہ واضح کر ديا تھا کہ اسامہ بن لادن جہاں بھی ہو گا ہم اس کا تعاقب کريں گے۔ پاکستان کافی عرصے سے اس حقيقت سے آشنا ہے کہ ہم القائدہ کے ساتھ حالت جنگ ميں ہيں۔ امريکہ کی يہ اخلاقی اور قانونی ذمہ داری تھی کہ وہ ميسر معلومات پر عمل کرے۔

جيسا کہ صدر اوبامہ نے واضح کيا تھا کہ اس تعاقب ميں پاکستان کے تعاون سے معلومات کے حصول ميں مدد ملی۔

جس ٹيم نے يہ آپريشن کيا تھا انھیں اس بات کا اختيار ديا گيا تھا کہ وہ اسامہ بن لادن کی جانب سے گرفتاری نہ دينے کی صورت میں اسے ہلاک کر سکتے ہیں۔ اور گرفتاری دينے کی صورت ميں حفاظتی جزيات کو مد نطر رکھتے ہوئے اسے گرفتار کرنے کا حکم تھا۔ پورا آپريشن جنگی قوانين کے عين مطابق تھا۔ اس آپريشن کی منصوبہ بندی اسی انداز میں کی گئ تھی کہ ٹيم پوری طرح تيار تھی اور بن لادن کو گرفتار کرنے کے لیے تمام وسائل سے ليس تھی۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
 

ساجد

محفلین
ايبٹ آباد ميں ہونے والے آپريشن کا مقصد کسی ايک فرد کو اس کی مذہبی يا سياسی وابستگی کی بنا پر قتل کرنا نہیں تھا۔ يقينی طور پر اس نے پاکستان ميں سیاسی پناہ بھی حاصل نہيں کی تھی۔ يہ دہشت گردی کے قلع قمع کے لیے جاری عالمی جنگی کوششوں کا حصہ تھا اور اس تناظر میں اسامہ بن لادن کو نشانہ بنانا ايک اعلان شدہ ٹارگٹ تھا۔
مجھے شاید اس کے نیچے دو الفاظ ہی لکھ دینا چاہئیں "لامتناہی تضاد" ۔ لیکن پھر آپ کے وہ پر کشش جملے یاد آئے کہ جو اپنے مفاہیم و مطالب میں پاکستان دوستی اور ڈرائیونگ سیٹ پہ پاکستانی حکومت کے ہونے کے بارے میں ہیں تو مجھے لا محالہ لغت میں منافقت کے معانی دوبارہ تلاش کرنا پڑے کہ کہین بدل تو نہیں گئے۔ لیکن بدقسمتی سے آپ کے الفاظ ان معانی پہ سو فیصد پورے اترتے ہیں۔ آپ دعویدار ہیں مسلمان ہونے کے ۔ میں یہاں مذہب کا حوالہ نہیں دینے جا رہا صرف یہ کہوں گا کہ یہ کام دیگر مذاہب و دھرم میں بھی ممنوع ہے کجا کہ ایک مسلم ہونے کا دعویدار ایسی بات کہے۔
اب یہ مترشح ہے کہ جب رائج الوقت عالمی قوانین کے تحت آپ امریکی جارحیت کا دفاع کرنے میں مکمل ناکام ہو چکے ہیں تو آپ نے اس سے بھی ایک قدم آگے بڑھ کے جنگل کے قانون کے وکالت بھی شروع کر دی ہے۔ سیاسی پناہ کا شوشہ لگائے بغیر بھی آپ اپنی بات کہہ دیتے تو مفہوم ادا ہو جاتا۔ اب اس موضوع کو میں کھول بیٹھا تو مغربی جمہوریت اور انصاف پسندی کے نہ جانے کتنے پول کھل جائیں گے۔لیکن قلت وقت کی بنا پہ فی الحال اس پنڈورا بکس کو نہیں کھول رہا۔
دہشت گردی کا قلع قمع کی بات انتہائی عجیب ہے۔ کیا عالمی قوانین اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ دوسرے ممالک کے قوانین کو پامال کر کے وہاں قتل و غارت گری کی جائے۔ املاک تباہ کی جائیں اور بعد میں اسے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا نام دے دیا جائے؟ ناٹو اور امریکہ پورا عالم نہیں ہے بلکہ پورے عالم کا محض 25 فیصد ہیں دیگر 75 فیصد اس "دہشت گردی کے خلاف جنگ" کے طریقہ سے شدید اختلاف کرتے ہیں اور حتی کہ نیٹو ممالک میں بھی اس کے خلاف شدید ردعمل پایا جاتا ہے۔
اعلان شدہ ٹارگٹ، ایک اور تضاد۔ اگر اس طرح سے ممالک میں گھس کر اپنے مخالفین کو قتل کرنا درست مان لیا جائے تو 9-11 کے بارے میں کیا خیال ہے؟۔ "آپ اپنے دام میں صیاد آگیا" والا معاملہ تو آپ نے خود ہی کر لیا نا؟۔ لیکن میرا اصولی موقف ہے کہ امریکہ ہو یا دیگر دنیا اس قسم کے واقعات کی وقوع پذیر ہونے کی قطعی حمایت نہیں کرنا چاہئیے ۔ مجھے 9-11 کے متاثرین سے ہمدردی ہے اور آپ سے گزارش ہے کہ آپ بھی اس قسم کے واقعات کی وکالت نہ کیا کریں۔ یہی وہ بنیاد ہے جس کی وجہ سے عالمی رائے عامہ امریکہ کے خلاف جاتی ہے۔
 

ساجد

محفلین
جب سے 911 کے واقعات ہوئے ہيں، امريکہ نے دنيا پر يہ واضح کر ديا تھا کہ اسامہ بن لادن جہاں بھی ہو گا ہم اس کا تعاقب کريں گے۔ پاکستان کافی عرصے سے اس حقيقت سے آشنا ہے کہ ہم القائدہ کے ساتھ حالت جنگ ميں ہيں۔ امريکہ کی يہ اخلاقی اور قانونی ذمہ داری تھی کہ وہ ميسر معلومات پر عمل کرے۔
کیا خوب منطق ہے اخلاقیات کی۔ ایسی اخلاقیات تو طالبان کا وطیرہ ہیں۔ اور کیسا کباڑہ کیا قانون کی تشریح کا۔ قانون ہی کہتا ہے کہ امریکہ کی دوسرے مما لک میں در اندازی سنگین جرم ہے اور آپ نہ جانے کس قانون کی بات کر رہے ہیں۔ اگر آپ کے "قانونی معیار" کو کسوٹی بنا لیا جائے تو دنیا جہنم سے بد تر ہو جائے۔ اور یہ آپ کی حکومت کر بھی رہی ہے کہ اس کی پالیسیاں عالمی امن کو شدید خطرے میں ڈال چکی ہیں۔ جنوبی ایشیا میں اب مفادات کا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ جب تک چین اس کھیل سے قدرے لا تعلق رہا یہ کھیل آپ کی حکومت کے ہاتھ میں تھا لیکن آپ کے حد سے زیادہ "فاؤلز" نے اب چین کو بھی اس میں کودنے کا موقع فراہم کر دیا ہے۔ لہذا "مشتری ہوشیار باش"۔ اب آپ واپسی کی تیاری کریں اور جنوبی ایشیا کو اس کے حال پہ چھوڑ دیں کہ دنیا کے جس خطے میں بھی آپ نے قدم رکھا وہاں سے امن کی فاختہ اڑ گئی۔ آپ ہی کے ایک موقر روزنامے کے مطابق چین کی حکومت نے اپنے مفادات کے تحت ایک خط وائٹ ہاؤس کو بھجوا دیا ہے کہ آئندہ پاکستان میں ایبٹ آباد جیسے آپریشن کی غلطی کی گئی تو اسے چین پر حملہ تصور کیا جائے گا۔ لہذا جو ہو گیا وہ بہت ہے۔ اب بہتر یہی ہے کہ جنوبی ایشیا کو مزید طاقتوں کا میدان بنانے کی بجائے آپ یہاں سے تشریف لے جائیں۔
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

1انسپکٹر ہانس بلکس نے بتا دیا تھا کہ عراق کے پاس W M D نہیں ہیں لیکن اس کے باوجود عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی۔


ڈبليو ايم ڈی کے حوالے سے ميں نے اسی فورم پر تفصيل کے ساتھ ان محرکات، حالات اور زمينی حقائق کی وضاحت کی تھی جو بالآخر عراقی ميں فوجی کاروائ کے حوالے سے ہمارے فيصلے کا سبب بنے۔

چونکہ آپ نے ہانس بلکس کا حوالہ ديا ہے اس ليے يہ ضروری ہے کہ ان حقائق کا جائزہ ليا جائے جو انھوں نے بذات خود اپنی سرکاری رپورٹ ميں عراقی کے زمينی حقائق کے حوالے سے بيان کيے تھے۔

فروری 14 2003 کو ہانس بلکس نے واضح طور پر عراق کی حکومت کی جانب سے تمام تر يقين دہانيوں کے باوجود عدم تعاون کی حقيقت کو بيان کيا تھا۔ اس وقت ان کی جانب سے پيش کی جانے والی رپورٹ سے ايک اقتتباس

"ميں نے اپنی پچھلی ملاقاتوں کے جوالے سے يہ واضح کيا تھا کہ سال 1999 ميں اقوام متحدہ کی سيکورٹی کونسل کی دو دساويزات سی – 1999/94 اور سی 1999/356 ميں اٹھائے جانے والے بہت سے ايشوز ابھی تک وضاحت طلب ہيں۔ اب تک عراق حکومت کو ان ايشوز کے حوالے سے مکمل آگاہی ہونی چاہيے تھی۔ مثال کے طور پر ان ايشوز ميں نرو ايجنٹ وی ايکس اور لانگ رينج ميزائل سرفہرست ہيں اور يہ ايسے سنجيدہ ايشوز ہيں جن کو نظرانداز کرنے کی اجازت عراقی حکومت کو نہيں دی جا سکتی۔ عراقی حکومت کی جانب سے پچھلے سال 7 دسمبر کو دی جانے والی رپورٹ ميں ان سوالات کے واضح جوابات دينے کا موقع ضائع کر ديا گيا ہے۔ اس وقت عراق حکومت کی جانب سے ہميں سب سے بڑا مسلہ اسی حوالے سے ہے۔ ثبوت کی فراہمی کی ذمہ داری اقوام متحدہ کے انسپکٹرز پر نہيں بلکہ عراقی حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ عراقی حکومت کو ان اہم ايشوز کو مسلسل نظرانداز کرنے کی بجائے مکمل وضاحت فراہم کرنا ہوگی۔"

اس اقتتباس سے يہ واضح ہے کہ صدام حکومت کی جانب سے مسلسل عدم تعاون کی روش اختيار کی جا رہی تھی۔

اس کے بعد مارچ 2 2003 کو عراق پر حملے سے محض چند روز قبل اس موقع پر جبکہ اقوام متحدہ کی جانب سے عراق حکومت کو دی جانے والی آخری مہلت بھی ختم ہو چکی تھی تو ہانس بلکس نے اقوام متحدہ کو ايک اور رپورٹ پيش کی۔ اس رپورٹ ميں سے ايک اقتتباس

"ان حالات کے پس منظر ميں سوال يہ پيدا ہوتا ہے کہ کیا عراق کی حکومت نے اقوام متحدہ کی سال 2002 میں منظور کی جانے والی قرارداد 1441 کے پيراگراف 9 کی پيروی کرتے ہوئے يو – اين – ايم – او- وی – آئ –سی سے فوری اور غير مشروط تعاون کيا ہے يا نہيں۔ اگر مجھ سے اس سوال کا جواب طلب کيا جائے تو ميرا جواب يہ ہو گا اقوام متحدہ کی نئ قرارداد کی منظوری کے چار ماہ گزر جانے کے بعد بھی عراقی حکومت کی جانب سے تعاون نہ ہی فوری ہے اور نہ ہی يہ ان تمام ايشوز سے متعلقہ ہے جن کی وضاحت درکار ہے"۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
 

ساجد

محفلین
ڈبليو ايم ڈی کے حوالے سے ميں نے اسی فورم پر تفصيل کے ساتھ ان محرکات، حالات اور زمينی حقائق کی وضاحت کی تھی جو بالآخر عراقی ميں فوجی کاروائ کے حوالے سے ہمارے فيصلے کا سبب بنے۔
محرکات تو ٹونی بلئیر کا اقبالِ جرم ہی چیخ چیخ کر بیان کر رہا ہے جس میں وہ خود اعتراف کر رہا ہے کہ اس نے مقننہ کو عراق پر حملے کے سلسلہ میں گمراہ کیا تھا۔
حالات کسی بھی حوالے سے ایسے نہیں تھے کہ عراق میں جارحیت کی جاتی۔
ذرا ذیل کی سطرپہ کلک کیجئیے اور خود ہی پڑھئیے کہ دی ٹیلی گراف کس طریقہ سے آپ کے تحریر کردہ جھوٹ کا بھانڈا پھوڑ رہا ہے۔
Hans Blix warned Tony Blair Iraq might not have WMD
آئیے اب ذرا زمینی حقائق بھی آپ پر واضح کر دوں۔
ذیل کے لنک پر بھی غور کیجئیے اور ایک اور جھوٹ کو افشاء ہوتے دیکھئیے۔
Blix casts doubt on WMDs
گارڈین کی اس خبر میں ہانس بلکس کہتے ہیں؛
"The chief UN weapons inspector, Hans Blix, said he was starting to suspect Iraq had no weapons of mass destruction in advance of the war on Iraq, a German newspaper reported today. "
آگے پڑھئیے
"Mr Blix pointed to statements by Lt Gen Amer al-Saadi, who officials say led Iraq's unconventional weapons programmes and surrendered to US-led forces last month.

"The fact that al-Saadi surrendered and said there were no weapons of mass destruction has led to me to ask myself whether there actually were any," Mr Blix told the paper. "I don't see why he would still be afraid of the regime, and other leading figures have said the same."

The US based its war on Iraq on claims the country was hiding weapons of mass destruction and had active programmes to produce more. UN inspectors had not found stocks of chemical or biological weapons by the time they were forced to leave the country on the eve of the US-led attack. "
یہاں دیکھئیے کہ ہانس بلکس امریکی جھوٹ کیسے آشکار کر رہے ہیں۔
"Washington is carrying out inspections of its own, which have so far failed to turn up evidence of WMD stocks. The White House has resisted a resumption of the UN inspections.

A UN resolution approved yesterday that ended sanctions against Iraq left the future of UN inspections in doubt.
 

ساجد

محفلین
اب ذرا پاکستان کے اندر فوجی جارحیت کے حوالے سے امریکی اخلاقیات پر بات کروں تو اب آپ کی حکومت پہ اخلاقی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اپنے تمام کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیار اقوام متحدہ کے انسپکٹروں کی نگرانی میں تباہ کر دے۔ کیا خیال ہے اس بارے میں؟ اجی ہم تو اس قسم کی اخلاقیات میں کبھی نہ پڑتے اگر آپ دوسرے ممالک خاص طور پر پاکستان میں اپنی جارحیت کو اخلاقی ذمہ داری کا نام نہ دیتے۔
 

ابن عادل

محفلین
ساجد بھائی واقعی آپ نے ہمارے دل کی ترجمانی خوب مدلل انداز سے کی اللہ آپ کو جزائے خیر دے ...
مزید یہ کہ آپ ذرا ان عالمی محانظوں سے یہ سوال بھی کیجیے کہ ساری دہشت گردی مسلم ممالک ہی میں ہے تو یہ جو ابھی ناروے میں ہوا . 100 سے زائد افراد مارے گئے . وہاں کب یہ صاحب بہادر چڑھائی کریں گے .....!!!!!!!!!!!!
 

سویدا

محفلین
قانون اور جمہوریت کے دعویداروں کا اصل چہرہ ساری دنیا دیکھ رہی ہے۔
1 ڈرون حملے بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی ہیں۔ لیکن امریکہ اس کا ارتکاب کئیے جا رہا ہے۔
2 پاکستان کی مقننہ اس کے روکنے کے لئیے ایک متفقہ قرارداد منظور کر چکی ہے اور اس کی کاپی امریکہ کو ارسال کر دی گئی لیکن خود مختاری اور ممالک کی جغرافیائی حدود کے کسی قانون کی امریکہ نے کبھی پرواہ نہیں کی۔
3 خود امریکہ کے حربی ماہرین ڈرون کے استعمال کے خلاف ہیں اور اسے حربی قوانین کی پامالی قرار دے چکے ہیں۔
4 اقوام متحدہ کا ادارہ یونیسف کہہ چکا ہے کہ ڈرون میں یا خود کش حملوں میں ایک معصوم جان کی تلفی بھی ناقابل قبول ہے اور اس میں بچوں کی اکثریت جاں بحق ہوئی ہے۔ لیکن امریکہ ڈھٹائی پہ قائم ہے۔
اگر یہ ڈرون ہی مسئلے کا حل ہیں تو برطانیہ 5 دن تک لندن اور مانچسٹر کو جلتے کیوں دیکھتا رہا ۔ 2 ڈرون حملے کافی نہ ہوتے شدت پسندوں پہ قابو پانے میں؟۔
ناروے ایک شدت پسند عیسائی کے ہاتھوں اپنے 86 شہری یک مشت گنوا کر بھی اس کی تحقیقات کیوں کر رہا ہے ان مراکز پہ ایک ڈرون کافی نہ ہوتا جہاں سے اس شدت پسند نے ٹریننگ لی؟۔
شمالی آئر لینڈ کے قتل و غارت کے اعداد و شمار پہ کبھی غور کیا؟ کیا خیال ہے وہاں ڈرون کے استعمال کے بارے میں؟
بھارت اپنی نو شورش زدہ ریاستوں میں روزانہ درجنوں شہری گنوا رہا ہے ۔ لیکن اسے ڈرون استعمال کرنے کا خیال نہ آیا۔
سری لنکا 35 برس تک تامل ٹائیگرز سے لڑتا رہا لیکن ڈرون کے بغیر ہی یہ لڑائی چلتی رہی۔ کم عقل سری لنکز نے یہ آسان ڈرون حل کیوں اختیار نہ کر لیا۔
میڈیا اور امریکی جھوٹ سے متاثرین کبھی موت کا رقص اس قریب سے دیکھیں کہ ان کا کوئی عزیز اس کی بھینٹ چڑھ گیا ہو تو میں دیکھوں گا کہ کس طرح سے ڈرونز کی حمایت جاری رکھتے۔
سب سے بڑا جھوٹ ہے کہ ڈرونز نے طالبان کو کمزور کیا ان کی کمر پاکستانی فوج نے توڑی۔ یہ خود کش طالبان تو خود امریکہ کے فنڈ سے پلتے ہیں وہ ان میں سے انہی مارتا ہے جو نافرمان ہو جائیں اور پاکستان میں دہشت گردی سے انکار کر دیں یا امریکیوں کو آنکھیں دکھانے کی غلطی کر بیٹھیں۔ نیک محمد اور بیت اللہ محسود کی موت اس کے ثبوت ہیں۔ اول الذکر نے امریکہ سے تعاون کرنے سے انکار کیا تھا اور پاکستان کا ساتھ دینے کی حامی بھر لی تھی۔ اور ثانی الذکر نے اپنا گروپ بنانے کی کوشش کی تھی۔ ابھی بھی وہ طالبان کو نہیں صرف حقانی کے امریکہ مزاحم گروپ کو ڈرون کا نشانہ بنا رہا ہے۔ یاد رکھین کہ امریکہ افغانستان اور پاکستان میں جارحیت کر رہا ہے اور یہ ضروری نہیں کہ اس کی مزاحمت کرنے والے طالبان یا ان کے حامی ہوں۔ جن کے پیارے اس جارحیت میں ان سے بچھڑ گئے اور جن کے گھر اجڑے وہ بھی جذبات رکھنے والے انسان ہیں اور امریکہ طالبان کا ڈھنڈورہ پیٹ پیٹ کر سب کو روندنے کے چکر میں ہے۔
طالبان خونی اور قاتل ہیں ان کی کہانی ایک حقیقت ہے لیکن امریکی ڈرونز سے اس کہانی کا کوئی تعلق نہیں سوائے جھوٹ اور میڈیا کے غلط استعمال کے۔

ساجد بھائی جزاک اللہ
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

ساجد بھائی واقعی آپ نے ہمارے دل کی ترجمانی خوب مدلل انداز سے کی اللہ آپ کو جزائے خیر دے ...
مزید یہ کہ آپ ذرا ان عالمی محانظوں سے یہ سوال بھی کیجیے کہ ساری دہشت گردی مسلم ممالک ہی میں ہے تو یہ جو ابھی ناروے میں ہوا . 100 سے زائد افراد مارے گئے . وہاں کب یہ صاحب بہادر چڑھائی کریں گے .....!!!!!!!!!!!!

امريکہ اوسلو اور يوٹويا جزيرے ميں حاليہ حملوں کی پرزور مذمت کرتا ہے۔

فورمز پر کچھ رائے دہندگان کی رائے کے برخلاف امريکی حکومت معصوموں کے خلاف ہر قسم کے تشدد کی مذمت کرتی ہے، اس بات سے قطع نظر کہ يہ واقعات کہاں پيش آتے ہيں يا ان جرائم کے مرتکب افراد اپنے اقدامات کی وضاحت کے ليے کسی قسم کی مذہبی يا سياسی توجيہہ کا سہارا ليتے ہیں۔

ہمارا موقف ہميشہ يہی رہا ہے کہ دہشت گرد سياسی اور مذہبی سوچ کی نمايندگی نہيں کرتے۔ يہ محض مجرم ہيں اور دہشت گردی کا عمل جرم ہے۔ دہشت گردی کو قابل قبول انتقام، ردعمل يا کسی سياسی عمل سے متعلق جدوجہد سے تعبير نہيں کيا جانا چاہیے۔

ناروے ميں دہشت گردی کے اس المناک واقعے سے يہ حقيقت بھی واضح ہو گئ ہے کہ دہشت گردی ايک عالمی مسلہ ہے جو کسی ايک ملک يا خطے تک محدود نہيں ہے۔ يہ واقعہ ان افراد کی آنکھيں بھی کھول دے گا جن کے مطابق دہشت گردی کے خلاف جنگ محض امريکہ کی ذاتی جنگ ہے۔ وقت کی اہم ضرورت يہی ہے کہ عالمی سطح پر دہشت گردی کے ذريعے معاشرے پر اپنا سياسی اور مذہبی اثر ورسوخ بڑھانے کے فلسفے کو شکست دی جائے۔

دہشت گردوں کا مذہب سے کوئ تعلق نہيں ہے۔ دہشت گرد محض جذبات کو بھڑکانے اور اپنے غير انسانی فعل کو درست ثابت کرنے کے لیے مذہبی نعروں کا سہارا ليتے ہيں۔ بے گناہ انسانوں کی جانوں کا ضياع ان کے مذہب سے قطع نظرانتہاہی قابل مذمت فعل ہے۔ يہ درس تو خود اسلام سميت دنيا کے تمام مذاہب ميں موجود ہے۔

صدر اوبامہ نے بھی ناروے کے عوام سے اپنی ذاتی تعزيت کا اظہار کيا اور يہ واضح کيا کہ اوسلو ميں دہشت گرد حملے اس امر کی ياد دہانی ہے کہ مستقبل ميں ايسے حملوں کی روک تھام کے ليے پوری دنيا کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے

"ميں ناروے کے عوام سے ذاتی طور پر تعزيت کرتا ہوں اور يہ ياد دہانی ہے کہ پوری عالمی برادری کے لیے اس قسم کی دہشت گردی کی روک تھام ان کے باہم مفاد ميں ہے۔ اس کے علاوہ ہميں اينٹيلی جينس اور اس قسم کے ہولناک حملوں کو روکنے کے لیے ايک دوسرے کے ساتھ مل کر باہم تعاون کے ساتھ کام کرنا ہو گا"

امريکی حکومت، عالمی برادری کے ساتھ مل کر تشدد کے سدباب کے ليے کام کرتی رہے گی جو ہر جگہ امن کے دلدادہ افراد کے ليے خطرہ ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
 

ساجد

محفلین
فورمز پر کچھ رائے دہندگان کی رائے کے برخلاف امريکی حکومت معصوموں کے خلاف ہر قسم کے تشدد کی مذمت کرتی ہے،
×کسی رکن نے بھی اس تشدد کی حمایت نہیں کی۔ آپ کے پالیسی سازوں سے سوال تھا کہ اگر ڈرون حملے ہی ایسے مسائل کا حل ہیں تو ۔۔۔۔یہاں کیوں نہیں۔ شاید یہ بات اچھی نہیں لگی اور سوال گندم جواب چنا ہو گیا۔
××اللہ کی شان ہے کہ معصوموں پہ تشدد کی مخالفت وہ کر رہے ہیں جو معصوموں کی خون ریزی کا خود بار بار ارتکاب کرتے ہیں۔۔۔وار آن ٹیرر کی آڑھ میں۔
دہشت گردوں کا مذہب سے کوئ تعلق نہيں ہے۔ دہشت گرد محض جذبات کو بھڑکانے اور اپنے غير انسانی فعل کو درست ثابت کرنے کے لیے مذہبی نعروں کا سہارا ليتے ہيں۔ بے گناہ انسانوں کی جانوں کا ضياع ان کے مذہب سے قطع نظرانتہاہی قابل مذمت فعل ہے۔ يہ درس تو خود اسلام سميت دنيا کے تمام مذاہب ميں موجود ہے۔
بات بہت خوبصورت کہی آپ نے اور یہی سچ بھی ہے کہ دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ لیکن تشدد کا ارتکاب اب صرف مذہبی ہی نہیں معاشی اور سیاسی نعروں کی بنیاد پہ بھی کیا جا رہا ہے اور سب سے دلچسپ نعرہ "جمہوریت" کا نعرہ ہے جس کی وجہ سے عراق میں جمہوریت لانے کے لئیے عرب آمریتوں کے ذرائع استعمال کئیے گئے اور ان کے علاقوں میں افواج جمع کی گئیں۔
صدر اوبامہ نے بھی ناروے کے عوام سے اپنی ذاتی تعزيت کا اظہار کيا اور يہ واضح کيا کہ اوسلو ميں دہشت گرد حملے اس امر کی ياد دہانی ہے کہ مستقبل ميں ايسے حملوں کی روک تھام کے ليے پوری دنيا کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے
جو ساتھ ہیں وہ بھی زچ ہو گئے ہیں اور فوجی بھاگ رہے ہیں۔ نئے بھرتی ہونے سے انکار کر رہے ہیں۔ اس جنگی عیاشی نے ان کی معیشتوں کا بھی برا حال کر دیا ہے۔ "اب یہاں کوئی نہیں آئے گا"۔ لہذا حقیقت پر مبنی بات کریں تو بہتر ہو گا۔ اور جو غلط پالیسیاں اختیار کی گئی ہے اسے درست کر لیں تو دنیا میں امن قائم ہونے کی راہ نکل سکتی ہے ورنہ آپ خود مشاہدہ تو کر ہی رہے ہیں کہ یہ تشدد اب یورپ میں بھی سرایت کر چکا ہے اور صرف مسلمانوں پہ یورپی حکومتوں کی ناروا تنقید نے وہاں کے شدت پسندوں کو شیر کر دیا ہے اور ایک بار یہ جن بوتل سے باہر آ گیا تو دنیا کو مکمل تباہی سے کوئی نہ بچا سکے گا۔
 

عسکری

معطل
یار دفع کرو نا ان کے پلے کیا پڑنا ہے ؟ ان کے لیے زمینی حقائق وہی جو امریکی عینک کے پار ہوں قانون وہ جو ان کے جوتے کی نوک پر ہوں آپ بھی ان سے کیا توقع لگائے بیٹھے ہیں؟ 1900 سے 2011 تک جتنے لوگ امریکہ نے مارے ہیں اتنے ساری دنیا نے ملا کر بھی نا مارے ہوں ۔ جن کی فوجیں دنیا کے کونے کونے میں پڑی ہیں بتائیں کس قانون سے امریکی فوجی اپنے بوٹ امریکہ سے باہر نکالتا ہے؟ ان کو صرف ایک زبان سمجھ آتی ہے اور وہ ہے طاقت کی زبان ۔
 
Top