فرشتے کا دشمن : چھٹا صفحہ 110-111

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

سیدہ شگفتہ

لائبریرین


m7xohw.jpg



 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
“جلد بتاؤ۔ کیاصورت ہے۔۔۔۔!”
“ہم دونوں ہپی بن جائیں۔ تمہاری آنکھیں کرنجی ہیں اور بال سرخی مائل ہیں۔ بڑی آسانی سے غیر ملکی بن سکتی ہو۔!“
“شکل تو پہچانی جاسکے گی۔!”
“سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ گل بکاؤلی فلم اسٹوڈیو میں پانچ سال تک میک اپ مین بھی رہ چکا ہوں۔!“
“تم تو پتہ نہیں کیا کیا رہ چکے ہو۔!کبھی عوت بھی رہے ہو۔!”
”بس رہتے ہرتے رہ گیا ہوں گا ۔۔۔!شہزور کو جانتی ہو۔!”
“کون شہزور۔!”
“خوفناک شکل والا اور دیوزاد قسم کا ایک ہپی ہے۔!”
“سنو! میں صرف سیلانی اور آزاد خیال ہوں۔ نئی نسل کے جانوروں سے کبھی دل چسپی نہیں رہی ۔ بال بڑھانے والوں سے توگھن آتی ہے مجھے۔ میں نے یہ نام بھی نہیں سُنا۔!”
“شہزاد کو جانتی ہو۔۔۔۔!”
“یہ نام بھی میرے لئے نیا ہے۔!”
“گرین بیچ ہوٹل کا مالک ہے۔!”
“سٹری سی جگہ ہے! میں وہاں قدم رکھنا بھی وارانہ کروں گی۔!”
“خیر ۔۔۔۔آؤ۔۔۔میرے ساتھ۔!”
وہ اسے اس کمرے میں لے گیا تھا جہاں میک اپ کا سامان تھا۔ وہ حیرت سے چاروں طرف دیکھتی ہوئی بولی۔!
“خدا کے لئے مجھے بتاؤ۔ آخر ہو کیا چیز ۔!”
“چیز نہیں۔ آدمی ہوں۔!”
“کبھی کبھی خوف معلوم ہونے لگتا ہے تم سے۔!”
“بچے تو مضحکہ اڑاتے ہیں میرا ۔۔۔۔انہیں خوف معلوم نہیں ہوتا ہے۔ واہ بھئی ۔!”
اس کے بعد اس نے اسے بولنے سے منع کر دیا تھا اور اس کے چہرے پر اپنی مشاتی کے نقش اٹھانے لگا تھا اور پھر جب اس نے تھوڑی دیر بعد آئینہ دیکھا تھا تو چیخ پڑی تھی۔
“ہلو تم کون ہو ۔!”
“اب یہی جملہ انگریزی میں امریکن لہجے کے ساتھ دہراؤ۔! عمران نے کہا۔
“پتا نہیں تم کیا کرنا چاہتے ہو۔!”
“کیا اس ایڈویجر کے تصور سے تمہارے جسم میں‌سنسنی نہیں دوڑی آکڑ تم کیسی آزاد خیال اور سیلانی ہو۔!”
“کیا تم یہ سمجھ رہے ہو کہ میں خائف ہوں۔!”
“تم ہی بتاؤگی میں کیا جانوں۔۔۔۔!”
“قطعی خائف نہیں ہوں۔۔۔ مقصد معلوم کرنا چاہتی ہوں۔!”
حالانکہ کچھ دیر پہلے ہی کھلی فصاء میں سانس لینے کی خواہش ظاہر کی تھی ۔ اب مجھ سے مقصد پوچھ رہی ہو۔ !کہیں تم سو تو نہیں رہیں مس شیلا۔!”
“بس اتنی سی بات کے لئے ۔۔۔۔!”
“بنیادی خیال یہی ہے ویسے اسی بہانے شائد کچھ کام بھی ہوجائے۔ میں تمہیں مختلف قسم کے لوگوں کے درمیان لے جاؤں گا ۔ اور تم ان میں سے ایسے افراد کی شناخت کروگی جنہیں کھی عامہ کے ساتھ بھی دیکھا ہو۔!”
“یہ ہوئی نابات۔۔۔۔اچھا اب تم بھی تو وہ حلیہ دکھاؤ جس میں میرے ساتھ چلو گے۔!”
آدھے گھنٹے بعد وہ رانا پیلس سے روانہ ہوئے تھے تا شائد ہی وہاں کا کوئی فرد انہیں پہچان سکا ہو۔۔۔ عمران بھی ہپی بن گیا تھا۔۔۔ لیکن دیسی ۔۔ البتہ شیلا کسی سفید فام نسل کی معلوم ہوتی تھی۔
عمران ایک شکستہ حال اور بہت پرانے ماڈل کی گاڑی ڈرائیو کر رہا تھا
“پیشے کے اعبار سے علامہ کو اتنا دولت مند نہ ہونا چاہئے ۔!” عمران نے کہا۔
“خود مجھے بھی اس پر حیرت ہے۔!“ شیلابولی۔“لیکن ہمارے درمیان کبھی یہ مسئلہ زیرِ بحث نہیں آیا۔!”
“لیکن سوچتے سبھی ہونگے۔!”
“میں سوچتی ہوں تو دوسرے بھی سوچتے ہوں گے۔ !تمہارا کیا خیال ہے ۔ کہاں سے آئی
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top