فرات ذھن پہ کرب کا پہرا تھا - عابد حشری

فرات ذھن پہ کرب کا پہرا تھا
میں اپنی ذات میں دریا تھا اور پیاسا تھا

جو زخم زخم ھوا دست آشنایاں سے
وہ میرا چہرہ نہ تھا زندگی کا چہرہ تھا

جمال فکر و نظر سے دمک رھا تھا شعور
مرے وجود کے آنگن میں کب اندھیرا تھا

کرے کرے نہ کرے اکتساب نور فضا
ھمارا کام تو یارو دئیے جلانا تھا

طلوع مجھ میں ھوا جب مرے یقین کا چاند
پھر اس کے بعد نہ میں تھا نہ میرا سایہ تھا

منافقت کی فضا میں محبتوں کا چلن
بڑا اندھیرا تھا یارو بہت اجالا تھا


عابد حشری
 
Top