سوال :
شیخ الاکبر رضی اللہ عنہ کی ان عبارات کا کیا مطلب ہے جن سے انہوں نے فتوحات المکیہ کے مقدمے((Preface کا آغاز کیا ہے :
" الحمد لله الذي أوجد الأشياء عن عدم وعدمه، وأوقف وجودها على توجه كلمه، لنتحقق بذلك سر حدوثها وقِدَمها من قِدَمه، ونقف عند هذا التحقيق على ما أعلمنا به من صدق قَدَمه. فظهر سبحانه وظهر وأظهر، وما بطن؛ ولكنه بطن وأبطن؛ وأثبت له الاسم الأول وجود عين العبد، وقد كان له ثبت، وأثبت له الاسم الآخر تقدير الفناء والفقد، وقد كان قبل ذلك ثبت."

عبارت کا لفظی ترجمہ : "سب تعریف اللہ کیلئے ہے جس نے اشیاء کو وجود بخشا عدم اور اسکے عدم سے۔ اور موقوف کیا انکے وجود کو اپنے کلمات کی توجہ پر۔ تاکہ ہم لوگ تحقیق(Realization) کرسکیں اسکے ذریعے، اُن اشیاء کے حدوث اور قدم کے راز کو، اُسکے قِدم سے۔ اور ٹھہرے رہیں اس تحقیق کے پاس، اُس پر، جسکا اس نے ہمیں علم دیا اپنے قَدم کے صدق سے۔ پس وہ پاک ذات ظاہر ہوئی ، اور ظاہرہوا وہ اور ظاہر کیا اس نے۔ اور پوشیدہ نہیں ہوا، لیکن پوشیدہ ہوکر اس نے پوشیدہ کیا۔ اور اسکے لئے اسم الاول کا اثبات کیا، عبد کے عین کے وجود نے، جبکہ یہ اسکے لئے پہلے سے ہی ثابت شدہ تھا۔ اور اسکے لئے اسم الآخر کا اثبات کیا، فناء اور فقدان کی تقدیر نے، جبکہ وہ اس سے پہلے ہی ثابت شدہ تھا"
جواب :
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الحمد للہ رب العالمین والصلٰاة والسلام علیٰ اشرف المرسلین و علیٰ آلہِ و صحبہِ والتابعین الیٰ یوم الدین۔
"الحمد لله الذي أوجد الأشياء عن عدم وعدمه " ( سب تعریف اللہ کیلئے ہے جس نے اشیاء کو وجود بخشا عدم اور اسکے عدم سے) :
شیخ نے اللہ کی حمد بیان کی ہے اسکی اُس تجلی پر ، جسے خلق کہتے ہیں، اور جس میں اللہ نے اشیاء(اشیاء میں اللہ سبحانہ کے سوا سب کچھ شامل ہے) کو وجود بخشا، عدم سے اور اسکے عدم سے۔ اور عدم کا عدم تو وجود ہی ہے۔ چنانچہ شیخ رضی اللہ عنہ کا کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اشیاء کی حقیقت عدم اور وجود کے مابین ہے۔ اور یہ مرتبہِ امکان ہے جس سے کوئی بھی مخلوق باہر نہیں ۔ کیونکہ وجود صرف اللہ سبحانہ کیلئے ہی ہے۔ پس اس میں کسی غیر کی شرکت نہیں ہوسکتی۔ اور چونکہ محض عدم سے کوئی شئے نہیں پیدا ہوسکتی، پس تجلیِ الٰہی صرف امکان کی جلوہ گاہ میں ہی واقع ہوتی ہے۔اور جو کئی بھی اسکے علاوہ کچھ گمان رکھتا ہے، مھض وہم میں مبتلا ہے ۔

" وأوقف وجودها على توجه كلمه " (اور موقوف کیا انکے وجود کو اپنے کلمات کی توجہ پر ) :
یعنی ان اشیاء کے وجود کو موقف(Dependent) کیا اپنے کلمہِ تکوین پر جسے کُن کہا جاتا ہے اور جسکے بارے میں اس نے خود خبر دی ہے کہ :{إِنَّمَا قَوْلُنَا لِشَيْءٍ إِذَا أَرَدْنَاهُ أَنْ نَقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ} [النحل: 40]. ( اور بیشک جب ہم کسی شئے کا ارادہ کرتے ہیں تو اسے کہتے ہیں ہوجا، اور وہ ہوجاتی ہے)۔ پس یہ کلمہ کُن، اسکے علمِ قدیم میں موجود اعیانِ ثابتہ کی طرف توجہ کرتا ہے تو وہ عینِ ثابت عالمِ شہود یعنی عالمِ خلق میں ظاہر ہوجاتا ہے، اور اس اعتبار سے اس کلمہ کُن کو مفتاح الایجاد یعنی وجود کی کنجی کہتے ہیں۔ اسی لئے شیخ نے فرمایا کہ ان اشیاء کا وجود اس پر موقوف ہے۔ اور اسکی وجہ یہ ہے کہ ارادہ مراد پر حکمران ہے، اور اگر ایسا نہ ہو تو اشیاء کا وجود ارادے سے نہیں بلکہ اتفاق سے (By chance) ہوتا اور یہ محال ہے۔اور کلمہِ کُن کی توجہ ہر ہر شئے پر انفرادی طور پر ہے، کیونکہ یہ خطاب عام(General) نہیں ہے کہ بس ایک بار کُن کہا اور سب کچھ موجود ہوگیا، اسکا عام ہونا محض معانی کے تعقل سے تعلق رکھتا ہے۔اور اگر تکوین کے معاملے میں یہ تخصیص (Individual Attention) نہ ہوتی توتفاصیل ارادے کے احاطے سے خارج ہوجاتیں اور یہ محال ہے۔

"لنتحقق بذلك سر حدوثها وقِدَمها من قِدَمه " (تاکہ ہم لوگ تحقیق(Realization) کرسکیں اسکے ذریعے، اُن اشیاء کے حدوث اور قدم کے راز کو، اُسکے قِدم سے ) :
انکا یہ قول "لنتحقق " (تاکہ ہم تحقق حاصل کرسکیں)یعنی ہم جان سکیں تحقق (Realization) کے طور پر، یعنی نظریاتی یا فکری طور پر نہیں ۔ "بذلك "(اسکے ذریعے) یعنی اشیاء کو وجود اور عدم کے مابین یعنی مرتبہ ِ امکان میں ظہور پذیر ہونے سے اور ان پر کلمہ امر (کُن) کی توجہ ہونے سے "سر حدوثها وقِدَمها " (انکے حدوث اور قدم کے راز ) یعنی ان اشیاء کے حدوث اور قدم کی حقیقت ۔ اور اشیاء کے حدوث کا تو سب کو پتہ ہے کہ یہ اشیاء نہیں تھیں اور پھر ہوگئیں۔ لیکن انکے قِدم (Eternity) کو سوائے اہلِ تحقیق کے اور اور کوئی نہیں جانتا۔اور انکے قِدم کی اصل (Root)حق کے قِدم میں سے ہے جس سے وہ قائم ہوئیں۔ اور وہ سبحانہ تعالیٰ انکا قیوم ہے۔یہ اس بات کا ایک پہلو ہے، اور ایک دوسرے پہلو سے دیکھیں تو انکا قِدم علمِ قدیم میں انکے تعین کی بناء پر ہے۔ چنانچہ اس جہت سے دیکھیں تو یہ اشیاء علمِ حق کے قِدم کی وجہ سے قدیم ہیں۔ اور یہ بات عام لوگوں کیلئے نہیں ہےالؑا یہ کہ وہ اس بات پر ایمان رکھتے ہوں (اگر ان میں اسکی لیاقت ہو تو) لیکن زیادہ تر اہلِ عقائد حوادث کے قِدم کا تعقل نہیں کرپاتے۔ اور اسکی وجہ یہ ہے کہ انکی عقول ایک ہی محل میں نقیضین(Contradictions) کے اجتماع یعنی پیراڈوکس (Paradox) کو سمجھنے میں ناکام رہتی ہیں ۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ معرفتِ الٰہیہ کا دارومدار عقل پر کبھی بھی نہیں ہوسکتا۔ بلکہ اسکا تعلق علومِ کشف (Vision)سے ہے جن سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جسے چاہے، اسے مخصوص فرماتا ہے۔کیونکہ اگر علماء کو اشیاء کے حدوث اور قدم کا علم ہو تو واجب ہوگا کہ وہ انکے حدوث و قِدم اور حق سبحانہ کے قِدم کے درمیان تفریق کر یں کیونکہ بغیر اس امتیاز کے ہر شئے باہم مختلط ہوجائے گی اور علم رخصت ہوجائے گا۔ اور یہی وہ بات ہے جس سے اہلِ عقائد دور بھاگتے ہیں جب انہیں اس بات کا اثبات کرنا پڑتا ہے جسکا اثبات کرنا درست نہیں ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ انکو اس فعل پر (یعنی انکار پر)جس بات نے ابھارا، وہ بات تو درست ہے، لیکن اس سے جو نتائج انہوں نے نکالے وہ ضروری نہیں کہ ہمیشہ درست ہوں۔
"ونقف عند هذا التحقيق على ما أعلمنا به من صدق قَدَمه " (اور ٹھہرے رہیں اس تحقیق کے پاس، اُس پر، جسکا اس نے ہمیں علم دیا اپنے قَدم کے صدق سے ) :
انکا قول "ونقف" (ٹھہرے رہیں) یعنی اس عینی مشاہدے پر جس سے خبر کی حقیقت کا علم حاصل ہوا اور جسے صدق القَدم کہا گیا ہے اور یہ اس قَدم الصدق سے ہے جسکا ذکر حق تعالیٰ کے اس قول میں ہے کہ :{وَبَشِّرِ الَّذِينَ آمَنُوا أَنَّ لَهُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّهِمْ} [يونس: 2]. (اور مومنین کو خوشخبری دو کہ انکے لئے انکے رب کے پاس قَدمِ صدق ہے) چنانچہ قدمِ صدق مومن کیلئے ہے خبر پر ایمان لانے کی وجہ سے اور صدقِ قدم سچی خبر دینے والے کیلئے ہے۔ چنانچہ شیخ کے کلام کا مطلب یہ ہے کہ حقیقتِ وجود کے معائنے اور مشاہدے سے جس چیز کا تحقق حاصل ہوتا ہے وہ اس چیز کے مخالف ہرگز نہیں ہے جو اللہ کے مخبرِ ِ صادق صلی اللہ علیہ وسلم ، وحی کے ذریعے لیکر آئے ہیں۔ تاکہ کوئی گمان کرنے والا یہ گمان نہ کرے کہ چونکہ اہل اللہ کے علوم ، علمائے دین کے ادراک سے بالا ہیں، تو شائد وہ رب العالمین کی کے نازل کردہ حق کے بالمقابل، باطل ہیں۔ ہرگز نہیں، بلکہ یہ تو حقِ مبین ہیں اور مؤمنین میں سے اہلِ غفلت کے حیطہِ ادراک سے باہر ہیں۔
" فظهر سبحانه وظهر وأظهر، وما بطن؛ ولكنه بطن وأبطن" (پس وہ پاک ذات ظاہر ہوئی ، اور ظاہرہوا وہ اور ظاہر کیا اس نے۔ اور پوشیدہ نہیں ہوا، لیکن پوشیدہ ہوکر اس نے پوشیدہ کیا) :
شیخ رضی اللہ عنہ کی مراد یہ ہے کہ اللہ سبحانہ اس 'خلق' نامی تجلی سے ظاہر ہوا، اور تجلی یعنی ظہور لفظ جلاء سے ہے جو شہر سے خروج کو کہا جاتا ہے، لیکن اللہ سبحانہ کے ظہور سے اشیاء (جو عدمی ہیں) کے اعیان ظاہر ہوئے۔ ٌس یہ معنی ہیں ظہر و اظہر کے۔ اور یہ اظہار جُود ( جود و کرم)کے مقتضیات میں سے ہے۔ کیونکہ جُود نہ ہوتا تو موجودات میں سے کسی شئے کا سراغ نہ ملتا، اور نہ ہی کوچہِ وجود میں اسکا قدم پڑتا۔ اور ان اشیئے عدمیہ کے اعیان کے ظہور کی وجہ سےسے، وہ پاک ذات پوشیدگی اور بطن میں نہیں جاتی اور یہ نہیں ہوستا کہ یہ ظاہر ہو اور وہ باطن۔ نہیں ایسا نہیں ہوتا کیونکہ ایسی بات وہی کرے گا جو ان امور سے جاہل ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ اسکا ظہور اسکے بطون کی مانند ہے، یعنی یہ کہ اگر وہ ظاہر ہو تو اعیان بھی ظاہر ہونگے اور اگر وہ پوشیدہ ہو تو اعیان بھی پوشیدہ ہوجائیں گے۔ اور یہ کہ اشیاء اسکے ظہور سے ظاہر ہوئیں اور اسکے بطون سے پوشیدہ ہوگئیں ۔ اور جو شخص یہ کہتا ہے کہ ان اشیاء کے پوشیدہ ہونے سے وہ ذات ظاہر ہوتی ہے اور اسکے پوشیدہ ہوجانے سے اشیاء ظاہر ہوتی ہیں، اس نے گویا ان اشیاء کو انکی اپنی ذات سے فی نفسہا قائم سمجھا جو کہ محال ہے۔
" وأثبت له الاسم الأول وجود عين العبد، وقد كان له ثبت" (اور اسکے لئے اسم الاول کا اثبات کیا، عبد کے عین کے وجود نے، جبکہ یہ اسکے لئے پہلے سے ہی ثابت شدہ تھا) :
یعنی اللہ کے اسم ' الاول' کو عینِ عبد کے وجود کے بغیر سمجھا نہیں جاسکتا۔ اور عبد سے مراد یہاں عالم ہے ۔ پس یہاں اول وہ ہے جو وجودِ عالم سے پہلے تھا اور وہ حق تعالیٰ ہے۔ کیونکہ اولیت ایک نسبت ہے اور اسکے لئے کوئی دوسری شئے چاہئیے۔ یعنی جب یہ پوچھا جائے کہ وہ اول کس نسبت سے ہے یعنی کس سے پہلے ہے؟ تو جواب میں کہا جائے گا کہ وہ عالم (مخلوقات) کی نسبت سے اول ہے۔ اور یہ اسم (الاول) ازل میں حق تعالیٰ کیلئے درجہِ ثبوت میں تھا وجودِ عالم سے پہلے اور یہاں اولیت کی نسبت ، ع جو لمِ الٰہی (جو قدیم ہے) میں اعیانِ عالم کے ثبوت کے حوالے سے ہےاور ایک علمی نسبت ہے۔ اور کلام میں اسکی جانب اشارہ ہے۔
"وأثبت له الاسم الآخر تقدير الفناء والفقد، وقد كان قبل ذلك ثبت " (اور اسکے لئے اسم الآخر کا اثبات کیا، فناء اور فقدان کی تقدیر نے، جبکہ وہ اس سے پہلے ہی ثابت شدہ تھا) :
اور اسمِ الٰہی 'الآخر' کو ثابت کیا ہے اس فنا نے جو وجودِ عالم کیلئے مقدر ہے اور لازم ہے۔ اللہ تعالیٰ نےاس فناء کی ان الفاظ میں خبر دی ہے :{كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ (26) وَيَبْقَى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ} [الرحمن: 26، 27]. ( اور جو بھی اس پر ہے وہ فنا کے گھاٹ اترنے والا ہے، اور باقی رہے گا تیرے رب کا چہرہ جو جلال اور اکرام والا ہے) اور فناء کی تقدیر، وجودِ عالم کے ساتھ ہی ایک لازمے کے طور پر موجود ہے، یعنی یہ نہیں کہ عالم کو وجود عطا کرنے کے بعد فناء کو اسکا مقدر ٹھہرایا گیا ہو، جیسا کہ عوام اس وہم میں مبتلا ہیں۔ نہیں ایسا نہیں ہے۔ہیں، اگرچہ وجودِ عالم کے ساتھ ہی یہ اسم 'الآخر' شہودی طور پر ثابت ہوگیا لیکن تخلیقِ عالم سے قبل یہ اسم علمِ الٰہی (قدیم) میں علمی طور پر ثابت شدہ تھا۔ اور اسکی شان بھی ویسی ہی ہے جیسی اسم الاول کی ہے اور ان میں کوئی مخالفت نہیں ہے صرف یہ ہے کہ وہ اول ہے عالم کی نسبت پہلے ہے اور یہ بعد میں ہے محض نسبت کے اعتبار سے۔ اور یہ سب نسبتیں ہیں جنکا تعقل تو کیا جاسکتا ہے لیکن انکاشہود نہیں ہوسکتا۔
واللہ و رسولہ اعلم
(جواب از شیخ عبدالغنی العمری حفظہ اللہ)
(اردو ترجمہ : محمود احمد غزنوی)
http://www.alomariya.org/QR.php
 
مدیر کی آخری تدوین:
میں عربی عبارت کو بہتر فونٹ میں کیسے یہاں لکھوں؟
ہم نے فی الحال مراسلہ مدون کر کے اس میں جہاں جہاں عربی عبارت تھی اس پر ایریل فونٹ اپلائی کر دیا ہے۔ :) :) :)
لیکن اس سے فونٹ تبدیل نہیں ہوا۔۔۔۔۔پہلے مجھے یاد ہے کہ عربی کے فونٹ کی ایک آپشن ہوا کرتی تھی۔۔۔
وہ آپشن اب بھی موجود ہے لیکن موجودہ ایڈیٹر میں اس کے لیے ابھی بٹن شامل نہیں کیے گئے ہیں۔ اس حوالے سے کام کرنا ہے ابھی۔ :) :) :)
 
Top