فارسی گو شاعر شاہ فقیراللہ آفرین لاہوری کا تعارف

حسان خان

لائبریرین
شاہ فقیراللہ آفرین لاہوری پنجاب سے تعلق رکھنے والے فارسی گو شاعر تھے۔ وہ ۱۶۶۰ء عیسوی میں لاہور میں پیدا ہوئے جہاں انہوں نے اپنی پوری زندگی بسر کی۔ کہا جاتا ہے کہ ان کا تعلق گجر برادری کے جویہ قبیلے سے تھا۔ انہوں نے مروجہ تعلیم حاصل کی، اور دورانِ تعلیم انہوں نے اچھی خاصی فارسی شاعری یاد کی اور مولانا روم کی مثنوی پر عبور حاصل کیا، جسے انہوں نے بعد میں پڑھایا۔ ان کے مقامی علماء اور مغل حکام سے اچھے تعلقات تھے، لیکن انجامِ کار انہوں نے گوشہ نشینی کی زندگی کو ترجیح دی۔ معاصر اور متاخر تذکرہ نگاروں نے ان کی تصانیف کو احترام کی نظر سے دیکھا ہے۔ لاہور سے ۱۹۶۷ء میں شائع ہونے والی اُن کی حجیم کلیات کی جلد اول ان کی غزلوں اور کچھ مدحیہ قصائد پر مشتمل ہے۔ اُن کی کل غزلوں کی تعداد ۸۶۹ ہے۔ جبکہ دوسری جلد میں مزید اڑتیس قصائد اور تین مثنویاں شامل ہیں، جو مشہور رہی ہیں۔ اُن تین مثنویوں کے نام یہ ہیں:
۱۔ ناز و نیاز، یا ہیر رانجھا؛ یہ مثنوی اورنگزیب کے دور میں ١٧٠٧ء لکھی گئی تھی۔
۲۔ انبانِ معرفت؛ یہ ۱۷۳۰ء میں مکمل ہوئی تھی۔
۳۔ ابجدِ فکر؛ اس کا سالِ تصنیف ۱۷۳۴ء ہے۔
موخر الذکر دونوں مثنویاں محمد شاہ کے عہد میں لکھی گئی تھیں۔
اس کے علاوہ ان کی ایک مثنوی 'مہتاب و کتان' کے نام سے بھی ہے، جس کا ایک نسخہ جامعۂ پنجاب میں محفوظ ہے۔
اگرچہ آفرین لاہوری صوفی طبیعت کے مالک تھے، لیکن وہ باضابطہ طور پر کسی بڑے صوفی سلسلے سے وابستہ نہیں تھے۔ ان کی شاعری صوفیانہ خیالات سے پُر ہے اور اس میں رسول اللہ (ص) اور ان کے خانوادے اور شہیدانِ کربلا کی خصوصی ستائش کا عکس نظر آتا ہے۔ والہ داغستانی کے مطابق، وہ محبوبِ حقیقی سے جدائی کے غم سے سرشار تھے۔ والہ داغستانی ۱۱۴۸ھ میں ہونے والی آفرین لاہوری سے اپنی ملاقات کا ذکر یوں کرتے ہیں: "میں نے اُن سے ملنے کی خواہش کی۔ چونکہ وہ لوگوں سے، خصوصاً اغنیاء اور اربابِ دنیا سے ملنا ترک کر کے عزلت گزیں ہو گئے تھے، اس لیے انہوں نے مضائقہ کیا۔۔۔ بعد میں جب انہیں میری شکستہ بالی سے آگاہی ہوئی، تو وہ ملاقات کو آئے اور پہلے اپنے نہ آنے پر معذرت طلب کی اور چند روز اس فقیر کے کلبے میں رہے۔ ہماری باہم گفتگوئیں ہوا کرتی تھیں، چونکہ وہ سراپا آلودۂ درد تھے، اس لیے میں نے ان کی ملاقات اور بات چیت سے عجیب لطف حاصل کیا۔ الحق، اتنی دردمندی کا حامل شخص کم ہی دیکھا گیا ہے۔"
وہ بیکار مشاغل اور ان میں مصروف رہنے والے لوگوں سے کنارہ کش رہتے تھے۔ اپنی عاشقانہ شاعری میں فروتن ہونے کے بجائے سربلند ہونے کی وجہ سے وہ یار کے حسن سے شاذ و نادر ہی متاثر نظر آتے ہیں۔ اُن کی شاعری میں تازگی، ایجادیت اور نئے تصورات نظر آتے ہیں، حتیٰ کہ مبتذل مضامین بھی اُن کی شاعری میں نیا آب و رنگ اختیار کر لیتے ہیں۔ اپنی شاعری میں انہوں نے صائب تبریزی کی تمثیل گوئی کی پیروی کی ہے۔ حاکم لاہوری کہتے ہیں کہ آفرین اکثر صائب تبریزی اور کبھی کبھار ناصر علی سرہندی کی طرز میں مشق کیا کرتے تھے۔ خوشگو نے اپنے تذکرے میں اُن کی شاعری میں کچھ عروضی خامیاں گنوائی ہیں، لیکن اس کے ساتھ ہی اس کا بھی اعتراف کیا ہے کہ وہ اہلِ علم تھے اور شعر گوئی میں مہارت رکھتے تھے۔
آفرین لاہوری مسجدِ وزیر خان کے صحن میں ہونے والی ادبی مجالس میں شرکت کیا کرتے تھے اور اپنے مقامِ والا کی وجہ سے صدر مقام پر نشست فرماتے تھے۔ تذکروں میں بہت سے ایسے فارسی گو شعراء کا نام ملتا ہے جو آفرین لاہوری کے شاگرد تھے یا اُن سے اصلاح لیا کرتے تھے۔ ان شعراء میں میر محمد زمان لاہوری مفتون، حاجی بیگ لاہوری ہنر، میرزا نصراللہ بیگ لاہوری یتیم، میر عالی نسب لاہوری وجدان، نورالعین بٹالوی واقف، ابوالحسن قابل خان لاہوری میرزا، صوفی مشتاق احمد لاہوری مشتاق، محمد احسن لاہوری خبرت، عبدالعزیز لاہوری تحسین وغیرہ کا نام لیا جا سکتا ہے۔
آفرین کا بالآخر ۱۷۴۱ء میں انتقال ہو گیا اور وہ اپنے گھر کے احاطے میں مدفون ہوئے۔ حاکم لاہوری نے قطعۂ وفات میں 'رفت نقادِ معنی از عالم' کہہ کر مادۂ تاریخ نکالا تھا۔
ایرانی محقق دکتر ذبیح اللہ صفا آفرین لاہوری کے متعلق لکھتے ہیں: "حق یہ ہے کہ آفرین کو ہند کے توانا شاعروں میں سے جاننا چاہیے، جنہیں فصاحت و بلاغت اور خیال بندی و مضمون آفرینی میں چیرہ دستی حاصل تھی۔"

محمد وارث سید عاطف علی محمود احمد غزنوی
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
اکثر لاہوریوں اور پاکستانیوں کو اب یہ بات ذرا عجیب لگے، لیکن غزنوی عہد سے لے کر بیسویں صدی تک لاہور فارسی ادب کا ایسا بڑا مرکز تھا جو اصفہان، تبریز اور بخارا کو بھی ٹکر دیا کرتا تھا۔ :)
 
Top