غم جہاں میں غم یار ضم نہ کر پایا ٭ طالب حسین طالب

غم جہاں میں غم یار ضم نہ کر پایا
ہزار کام کیا ''میں'' کو ''ہم'' نہ کر پایا

مجھے سراب میں منزل دکھائی دیتی تھی
سو گرتے پڑتے بھی رفتار کم نہ کر پایا

وہ دن بھی دیکھے ہیں میں نے کہ ایک لقمۂ تر
دہن تک آیا سپرد شکم نہ کر پایا

مجھے یہ دکھ کہ بچھڑنے کا وقت تھا ہی نہیں
اسے ملال کہ اظہار غم نہ کر پایا

نہ پاس کوہ ندا تھا نہ ہاتھ میں بندوق
سو لوح وقت پہ دکھڑا رقم نہ کر پایا

کسی کا ملنا، بچھڑنا اور ایک دو باتیں
تمام سلسلہ زیب قلم نہ کر پایا

خدا کا عکس اور اس پر جمال یار کا عکس
فقیر مر گیا پانی پہ دم نہ کر پایا

طالب حسین طالب
 
Top