حزیں صدیقی غم جو رعنائیء احساس میں ڈھل جاتے ہیں

مہ جبین

محفلین
غم جو رعنائیء احساس میں ڈھل جاتے ہیں
گیت بن کر لبِ شاعر پہ مچل جاتے ہیں

دوستو نیّتِ صیّاد پہ تم شک نہ کرو
بس یونہی تیر کمانوں سے نکل جاتے ہیں

محو رہتا ہوں تو ہے شورِ قیامت سر پر
چونکتا ہوں تو یہ خوابوں کے محل جاتے ہیں

وضع کرنے لگے تعمیرِ نشیمن کے اصول
وہ جو بجلی کے تصور سے دہل جاتے ہیں

زندگی بچ کے نکلتی ہے کدھر سے دیکھیں
جتنے رستے ہیں سبھی سوئے اجل جاتے ہیں

دیدہ و دل کو سلگتے ہوئے اشکوں سے بچا
یہ وہ شیشے ہیں جو پانی سے پگھل جاتے ہیں

راحتِ گریہء غم قلبِ حزیں سے پوچھو
اشک بہتے ہیں تو کانٹے سے نکل جاتے ہیں

حزیں صدیقی
 

نایاب

لائبریرین
واہہہہہہہہ کیا سچ کہا ہے

زندگی بچ کے نکلتی ہے کدھر سے دیکھیں
جتنے رستے ہیں سبھی سوئے اجل جاتے ہیں
 
Top