غمِ ہجر کو یوں زیادہ کیا ہے

نوید ناظم

محفلین
غمِ ہجر کو یوں زیادہ کیا ہے
اُسے بھولنے کا ارادہ کیا ہے

وہی ہے معانی کی گہرائی اب بھی
بس الفاظ کو تھوڑا سادہ کیا ہے

یہ صحرا کے دل سے نکالیں گے چشمہ
پیاسوں نے مل کے اعادہ کیا ہے

تِرے درد سے ہم نے غزلیں بنا لِیں
بڑا درد سے استفادہ کیا ہے

نوید اب کسی اور کا یہ نہ ہو گا
دلِ زخم خوردہ نے وعدہ کیا ہے
 
نوید بھائی ۔اگر محسوس نہ کریں تو
1--اعادہ ۔ دہرانے کے معانی میں استمال ہوتا ہے ۔۔پیاسوں نے مل کے اعادہ کیا ہے۔۔بات جمتی نہیں۔
2--تمام مصرعوں میں قوافی میں ( دہ ) سے پہلے الف ہے سوائے وعدہ کے۔ اس پر غور کر لیں
 

الف عین

لائبریرین
پیاسوں کا تلفظ غلط باندھا گیا ہے اعادہ سے قطع نظر
یہاں ارادہ قافیہ لانے میں بھی حرج نہیں
یوں ہو سکتا ہے
نکالیں گے صحرا کے سینے سے چشمہ
یہ پیاسوں نے مل کے ارادہ کیا ہے
باقی درست ہے غزل
ارشد چوہدری وعدہ صوتی قافیہ ہے جو آج کل جائز مانا جاتا ہے
 

نوید ناظم

محفلین
پیاسوں کا تلفظ غلط باندھا گیا ہے اعادہ سے قطع نظر
یہاں ارادہ قافیہ لانے میں بھی حرج نہیں
یوں ہو سکتا ہے
نکالیں گے صحرا کے سینے سے چشمہ
یہ پیاسوں نے مل کے ارادہ کیا ہے
باقی درست ہے غزل
ارشد چوہدری وعدہ صوتی قافیہ ہے جو آج کل جائز مانا جاتا ہے
بہت شکریہ سر، اللہ کریم آپ کو ہمیشہ سلامت رکھے۔
 
Top