غلام محمد قاصر

چراغاں کا ہوا آغاز دل میں
فروزاں ہے نگاہِ ناز دل میں

تمناؤں کے ہر موسم سے پہلے
اترتی ہے تری آواز دل میں

نظر میں مسکراتے عکس تیرے
کیے ہیں اشک پس انداز دل میں

کہو تو دھڑکنیں بھی بے خبر ہوں
چھپا لوں یوں وفا کا راز دل میں

پکارا جا رہا تھا ایک ہی نام
ہوئے تقسیم جب اعزاز دل میں

زمین و آسماں سے بچ نکلتے
مگر بیٹھا ہے تیر انداز دل میں

مکاں خالی کہاں رہتے ہیں قاصر
کبھی شہلا، کبھی شہناز دل میں

غلام محمد قاصر
 
Top