غزل

ثمین

محفلین
خوشبو کی آس پرہی جوبوئے تھے کچھ گلاب
ہاتھوں پہ یوں چبھے کہ سبھی زخم بھر گئے
دل پہ ترے جمال کا کچھ یوں ہوا اثر
وہ بھی سج سج سے گئے ہم بھی سنور سنور گئے
خوش فہمی تھی گماں تھا کہ خود فریبی تھی
سامان دل اٹھا کے جو ہم اس کے در گئے
محرم تھا دل کے راز کا دل کا مکین تھا
یوں بد گماں ہوا کہ ہم اس سے مکر گئے
دل پہ شب وصال کا اتنا ملال تھا
کٹ ہی گئی جدائی بھی کب یہ ہوا کہ مر گئے
آساں تو نہیں تھا کبھی مشق سخن ثمین
اس پر ہمارے شعر بھی بے اثر گئے
 

ثمین

محفلین
دل کے نگار خانے میں موسم ٹھہر گئے
اس رت کو بدلنے میں شام و سحر گئے
خوشبو کی آس پرہی بوئے تھے کچھ گلاب
ہاتھوں پہ یوں چبھے کہ سبھی زخم بھر گئے
دل پہ ترے جمال کا کچھ یوں ہوا اثر
وہ بھی سج سے گئے ہم بھی سنور سنور گئے
خوش فہمی تھی گماں تھا کہ خود فریبی تھی
سامان دل اٹھا کے جو ہم اس کے در گئے
محرم تھا دل کے راز کا دل کا مکین تھا
یوں بد گماں ہوا کہ ہم اس سے مکر گئے
دل پہ وصال شب کا کچھ ایسا ملال تھا
کٹ ہی گئی جدائی بھی کب یہ ہوا کہ مر گئے
لہجے میں شکوئے کا ایسا سوال تھا
اس پر ہمارے شعر بھی بے اثر گئے
 
Top