غزل

جب تری یاد کے آنگن میں اتر جاتا ہوں
مہک جاتا ہوں میں خوشبو سے نکھر جاتا ہوں

لوگ کیسے غمِ ہجراں میں اجڑ جاتے ہیں
میں ترے ہجر میں جلتا ہوں سنور جاتا ہوں

جب تری یاد کی سینے پہ شفق پڑتی ہے
تجھ میں کھو جاتا ہوں ایسا کہ میں مر جاتا ہوں

جن پہ اک ساتھ گزرتے تھے کبھی ہم دونوں
اب میں چپ چاپ انہی رستوں سے گزر جاتا ہوں

پھرتا رہتا ہوں میں راتوں کو بھی آوارہ جو ہوں
میں پرندہ تو نہیں لوٹ جو گھر جاتا ہوں

اس طرح درد دیئے مجھ کو مرے اپنوں نے
اب کوئ اپنا پکارے تو میں ڈر جاتا ہوں

ایسا بدلا ہوں ترے شہر میں آ کر باقرؔ
اب میں اپنی کہی باتوں سے مکر جاتا ہوں

مُرید باقرؔ انص۔اری
 

سدرہ نور

محفلین
دریا نے کل جو چپ کا لبادہ پہن لیا
پیاسوں نے اپنے جسم پہ صحرا پہن لیا

وہ ٹاٹ کی قبا تھی کہ کاغذ کا پیرہن
جیسا بھی مل گیا ہمیں ویسا پہن لیا

فاقوں سے تنگ آئے تو پوشاک بیچ دی
عریاں ہوئے تو شب کا اندھیرا پہن لیا

گرمی لگی تو خود سے الگ ہو کے سو گئے
سردی لگی تو خ
ود کو دوبارہ پہن لیا

بھونچال میں کفن کی ضرورت نہیں پڑی
ہر لاش نے مکان
کا ملبپہن لیا
ہ
بیدل لباسِ زیست بڑا دیدہ زیب تھا
اور ہم نے اس لباس کو الٹا پہن لیا
 
دریا نے کل جو چپ کا لبادہ پہن لیا
پیاسوں نے اپنے جسم پہ صحرا پہن لیا

وہ ٹاٹ کی قبا تھی کہ کاغذ کا پیرہن
جیسا بھی مل گیا ہمیں ویسا پہن لیا

فاقوں سے تنگ آئے تو پوشاک بیچ دی
عریاں ہوئے تو شب کا اندھیرا پہن لیا

گرمی لگی تو خود سے الگ ہو کے سو گئے
سردی لگی تو خ
ود کو دوبارہ پہن لیا

بھونچال میں کفن کی ضرورت نہیں پڑی
ہر لاش نے مکان
کا ملبپہن لیا
ہ
بیدل لباسِ زیست بڑا دیدہ زیب تھا
اور ہم نے اس لباس کو الٹا پہن لیا

پہلی بات تو مجھے کسی مشہور شاعر کا تخلص رکھنے والے لوگ بہت برے لگتے ہیں۔
دوسری بات یہ آپ ادھر کیوں پوسٹ کر رہی ہیں۔ پسندیدہ کلام میں کریں۔
 
Top