غزل

نازک بہت ہیں پاؤں مرے نونہال کے
آنکھیں بچھائے حور تو پلکیں نکال کے
وہ سو رہے ہیں منہ پہ دوپٹہ جو ڈال کے
کن حسرتوں سے تکتے ہیں ارماں وسال کے
کیا کیا تھے شوق آج عروسِ جمال کے
اندھیر تو نے کر دیا گھو نگھٹ نکال کے
برسات میں یہ اُن کی ادا دے گئی مزا
چلنا اٹھا کے پائنچے دامن سنبھال کے
کم سِن ہیں ڈر نہ جائیں وہ شکل اس کی دیکھ کر
شب آئے منہ پہ چادرِ مہتاب ڈال کے
ہالہ میں چاند دیکھ کے یاد آگیا مجھے
کھڑکی سے جھانکنا وہ ترا منہ نکال کے
آیا جو چاند ابر میں آنکھوں میں پھر گیا
آنا وہ شب کو رُخ پہ نقاب اُن کا ڈال کے
یوں کوندتی ہیں ابر میں رہ رہ کے بجلیاں
یاد آئیں جیسے ہجرکی شب ،دن وصال کے
ابر سیہ میں برق منور نہیں حسن
آیا ہے مانگ کوئی پریرو نکال کے
 
Top