محمد یوسف صدیقی
محفلین
نازک بہت ہیں پاؤں مرے نونہال کے
وہ سو رہے ہیں منہ پہ دوپٹہ جو ڈال کے
کیا کیا تھے شوق آج عروسِ جمال کے
برسات میں یہ اُن کی ادا دے گئی مزا
کم سِن ہیں ڈر نہ جائیں وہ شکل اس کی دیکھ کر
ہالہ میں چاند دیکھ کے یاد آگیا مجھے
آیا جو چاند ابر میں آنکھوں میں پھر گیا
یوں کوندتی ہیں ابر میں رہ رہ کے بجلیاں
ابر سیہ میں برق منور نہیں حسن
آنکھیں بچھائے حور تو پلکیں نکال کے
کن حسرتوں سے تکتے ہیں ارماں وسال کے
اندھیر تو نے کر دیا گھو نگھٹ نکال کے
چلنا اٹھا کے پائنچے دامن سنبھال کے
شب آئے منہ پہ چادرِ مہتاب ڈال کے
کھڑکی سے جھانکنا وہ ترا منہ نکال کے
آنا وہ شب کو رُخ پہ نقاب اُن کا ڈال کے
یاد آئیں جیسے ہجرکی شب ،دن وصال کے
آیا ہے مانگ کوئی پریرو نکال کے