غزل

غزل
(مزمل شیخ بسمل)
دل سے ذکرِ خالقِ کون و مکاں جاتا رہا
میں گیا مسجد میں جب دل در دکاں جاتا رہا
وقتِ رفتہ کس طرف کو اور کہاں جاتا رہا
دیکھنے میں تو سنِ عمرِ رواں جاتا رہا
اپنے مرکز پر نہیں ہوں میں کہاں جاتا رہا
کیا کروںگا پھر جو ربطِ جسم و جاں جاتا رہا
پتی پتی ہو کہ گل نذرِ خزاں جاتا رہا
ٹکڑے ہو کے دل جگر یا مہرباں جاتا رہا
کس کو اس منظر سے ہے حاصل مسرت دیکھ لو
کیا بہار آئی کہ آدھا گلستاں جاتا رہا
ساتھیوں سے ساتھیوں کا کھنچ کےرہنا ہے برا
تیر تنہا چھوڑ کر کیوں اے کماں جاتا رہا
وہی عادت وہی فطرت وہی خوبدلی نہیں
کیا ہوئے کس بل وقارِ آسماں جاتا رہا
جس کو کہتے ہیں خزاں آہ نہ ہومظلوم کی
رک گیا ہے ظلم جب دورِ خزاں جاتا رہا
بد گمانی دوستوں ایسی بری شے ہے کہ ہاں
بے خطا تھا جو کہ اس پر ہی گماں جاتا رہا
مجھکو منزل کا پتا ایسے ملا ہے دوستوں
ہیں جہاں تک انکے قدموں کے نشاں جاتا رہا
ہو گیا وقتِ جماعت متحد مسلم رہو
یہ نہیں وقتِ اذاں وقتِ اذاں جاتا رہا
 
جناب آپ کی غزلیات میں مطلع کے علاوہ بھی ردیف اور قافیہ کی پابندی انتہاء کی ہوتی ہے. جس سے معلوم ہوتا ہے آپ کی قابلیت کا. وہ بھی اتنی چھوٹی عمر میں ماشااللہ
 
Top