غزل

سیمل

محفلین
اس سے ملے،درد مسیحائی کے
چرچے ہوئے ،میری رسوائی کے

اب درودیوار کو تکتے ہیں تنہا
گئے دن، تیری شناسائی کے

تنہائی میں میلا، تنہا میلے میں
ہم عجب مارے ہوئے، تنہائی کے

ہر چہرہ ڈھکا ہوا مصلحت سے
میں دیکھوں ؟ گر کچھ دکھائی دے

بہت ابتداء میں بچھڑے ہم
بیچ میں رہ گئے مرحلے آشنائی کے

دانستہ چنی کٹھن راہِ محبت
کیا ملا؟ عبث آبلہ پائی کے

سنا ہے انا میں روک رکھا ہے خود کو
ورنہ وہ بھی ہجر میں روتا دکھائی دے

جانے دید کے کس مرحلے میں ہوں
دیکھا کروں اور کچھ نہ دکھائی دے

سسکتے ہوئے ہونٹوں پہ، زندگی کی فریاد
یہ کیسے مسیحا ہیں، جنھیں نہ سنائی دے

شکستہ مکانوں تلے، نا مکمل لاشے
خدایا! ایسوں کو تو نہ خدائی دے

یہ کس خطا کی سزا ہے امبر
جب بھی دے مجھے،جدائی دے
 
Top