غزل

سحر کائنات

محفلین
لوگ جب زعم کے جنجال میں آ جاتے ہیں
اوج افلاک سے پاتال میں آ جاتے ہیں

تو بھی اے زندگی! کیا یاد کرے گی ہم کو
آج خود چل کے ترے جال میں آ جاتے ہیں

زیر انگشت کسی حرف کا آنا جیسے
شعر کچھ یوں بھی مری فال میں آجاتے ہیں

تو بھی سادہ ہے کبھی چال بدلتا ہی نہیں
ہم بھی سادہ ہیں اسی چال میں آجاتے ہیں

اے اجل اپنے اصولوں کے فسانے نہ سنا
''جن کو آنا ہو وہ ہر حال میں آجاتے ہیں''

جتنے غم پالے ہیں اے دامن دنیا تو نے
اتنے غم تو مرے رومال میں آجاتے ہیں

ایسے نا کردہ گناہوں کا برا ہو افضل
جو مرے نامہ اعمال میں آجاتے ہیں

افضل خان
 
Top