غزل

تمہاری دل میں صورت ہے مگر ہم کہہ نہیں سکتے
ہمیں تم سے محبت ہے مگر ہم کہہ نہیں سکتے

شب فرقت کا یہ عالم ہے کہ کاٹے نہیں کٹتی
عجب کچھ دل کی حالت ہے مگر ہم کہہ نہیں سکتے

نظر کی وسعتوں میں حسن کے جلوؤں کا یہ عالم
جو ہے تیری بدولت ہے مگر ہم کہہ نہیں سکتے

گلوں کی شوخیاں تیرے لب و رخسار پہ مچلیں
بہاروں کی تو جنت ہے مگر ہم کہہ نہیں سکتے

جمالِ یار کی رعنائیوں میں کھو گئیں آنکھیں
وہی جانِ بصارت ہے مگر ہم کہہ نہیں سکتے

جہانِ عشق کی رنگینیوں میں گم نہ ہوجانا
تمہیں کچھ اور حاجت ہے مگر ہم کہہ نہیں سکتے

ہمارے دل میں بھی کلیاں مسرت کی کھلیں آسؔی
بہاروں کی ضرورت ہے مگر ہم کہہ نہیں سکتے

عثمان غنی آسؔی
 

الف عین

لائبریرین
تیسرے چوتھے پانچویں شعر میں ردیف معنی خیز نہیں لگتی
شب فرقت کا یہ عالم ہے کہ کاٹے نہیں کٹتی
کہ محض ک تقطیع ہونا چاہیے اسے یوں کہیں
شب فرقت کا یہ عالم کہ اب کاٹے نہیں کٹتی
پھر اگلے ہی شعر میں ' یہ عالم ' دہرایا گیا ہے دونوں اشعار میں فاصلہ رکھیں
گلوں کی شوخیاں تیرے لب و رخسار پہ مچلیں
بہاروں کی تو جنت ہے مگر ہم کہہ نہیں سکتے
'پہ' ایک حرفی ہو تو اچھا لگتا ہے اور جہاں 'پر' مکمل آ سکے وہاں پر ہی استعمال کرنا چاہیے
شعر کا مفہوم بھی واضح نہیں
 
Top