غزل !!

صدف رباب

محفلین
ایک تصویر اک دیا شب بھر
خامشی سے مکالمہ شب بھر

جس کو اپنا پتہ نہ تھا شب بھر
تجھ کو کیسے وہ ڈھونڈتا شب بھر

کس کی خوشبو ہے میرے بستر میں
کیا مہکتا تھا باغ سا شب بھر

کون حیران کر کے چھوڑ گیا
ساتھ یہ کون تھا، رہا شب بھر

اڑتی پھرتی تھی ہر سو خاکِ وجود
ایسی چلتی رہی ہوا شب بھر

شب کا آسیب خوف کھانے لگا
تھی میرے ساتھ اک دعا شب بھر

آنکھ میں آنکھ ڈال کر دیکھا
مجھ سے ڈرتی رہی قضا شب بھر

دل کے ویران بام و در میں ایک
گونجتی رہ گئی صدا شب بھر

ایک جنگل میں کھو گئی تھی صدف
گھر کا رستہ نہیں ملا شب بھر
 

الف عین

لائبریرین
ردیف شب بھر میں ذرا صوتی تنافر ہے لیکن شاید گوارا ہو جائے. اور تو کوئی غلطی نظر نہیں آ رہی ہے
 
Top