شکیل بدایونی غزل

Safia kausar

محفلین
بیت گیا ہنگامِ قیامت زورِ قیامت آج بھی ہے
ترکِ تعلق کام نہ آیا، اُن سے محبت آج بھی ہے

سخت سہی ہستی کے مراحل عشق میں راحت آج بھی ہے
اے غمِ جاناں ! ہو نہ گریزاں، تیری ضرورت آج بھی ہے

گلشنِ حسنِ یار میں چلیے، ہے جو تلاشِ کیف و سکوں
لاکھ ہے برہم نظمِ دو عالم، زلف میں نکہت آج بھی ہے

وقت برا آتا ہے تو سب اللہ کو سجدے کرتے ہیں
سچ ہے اگر یہ بات تو شاید لطفِ عبادت آج بھی ہے

عرضِ تمنا کر کے گنوایا ہم نے بھرم خودداری کا
ہو گئی گو تکمیلِ تمنا، دل کو ندامت آج بھی ہے

صبحِ بہار آئی تھی لے کر رت بھی نئی، شاخیں بھی نئی
غنچہ و گل کے رخ پر لیکن رنگِ قدامت آج بھی ہے

کر کے ستم کی پردہ پوشی ہم نے انھیں بے عیب کیا
ورنہ شکیل اپنے ہونٹوں پر حرفِ شکایت آج بھی ہے

شکیل بدایونی
 
بیت گیا ہنگام ِ قیامت زور ِ قیامت آج بھی ہے
ترکِ تعلق کام نہ آیا ، اُن سے محبت آج بھی ہے

سخت سہی ہستی کے مراحل عشق میں راحت آج بھی ہے
اے غمِ جاناں ! ہو نہ گریزاں ، تیری ضرورت آج بھی ہے

گلشن ِ حسن ِ یار میں چلیے ، ہے جو تلاش ِکیف و سکوں
لاکھ ہے برہم نظم ِ دو عالم ، زلف میں نکہت آج بھی ہے

وقت برا آتا ہے تو سب اللہ کو سجدے کرتے ہیں
سچ ہے اگر یہ بات تو شاید لطف ِعبادت آج بھی ہے

عرض ِتمنا کر کے گنوایا ہم نے بھرم خوداری کا
ہو گئی گو تکمیل ِ تمنا ، دل کو ندامت آج بھی ہے

صبح ِ بہار آئی تھی لے کر رت بھی نئی ، شاخیں بھی نئی
غنچہ و گل کے رخ پر لیکن رنگ ِ قدامت آج بھی ہے

کر کے ستم کی پردہ پوشی ہم نے انھیں بے عیب کیا
ورنہ شکیل اپنے ہونٹوں پر حرف ِ شکایت آج بھی ہے

شکیل بدایونی
غزل میں جہاں کسرہ دیا ہے، وہ حرف سے ذرا آگے سرک گیا ہے، شاید کسرہ سے پہلے سپیس دیا ہے۔
محمد تابش صدیقی بھائی
خود داری
 
Top