غزل 2 برائے اصلاح

کہتا رہا نا تجھ سے مجھے مت خدا بنا
بننا نہیں تھا مجھ کو تو کیوں کبریا بنا
ہستی کو بھی عدم کا کوئی نقشِ پا بنا
جو کچھ فنا بنا نہ بغیر از فنا بنا
بے معنی ایک لفظ کو مت آسرا بنا
گر پھر بنا مجھے تو بنامِ خدا بنا
وہ درد ہیں کہ جن کا بیاں بھی نہیں کوئی
رہتا ہے گھر ہمارا سدا کربلا بنا
اک زخمِ دل تھا سو تھا تمہارا دیا ہوا
یوں مت کہو کہ کیا ہوا بولو کہ کیا بنا
تھا اس جہان میں بھی تماشائی میں کوئی
وہ کیا ہے اس جہاں میں جو میرے بنِا بنا
تازہ ہیں خاک میں بھی وہی ولولے حکیم
اک زخم کہہ رہا ہے کہ دل ہے نیا بنا
 

الف عین

لائبریرین
کہتا رہا نا تجھ سے مجھے مت خدا بنا
بننا نہیں تھا مجھ کو تو کیوں کبریا بنا
... دوسرا مصرع سمجھ نہیں سکا

ہستی کو بھی عدم کا کوئی نقشِ پا بنا
جو کچھ فنا بنا نہ بغیر از فنا بنا
.... اس کا بھی دوسرا مصرع بے معنی لگ رہا ہے

بے معنی ایک لفظ کو مت آسرا بنا
گر پھر بنا مجھے تو بنامِ خدا بنا
... یہ مطلع محاورہ کے لحاظ سے درست ہے اگرچہ دو لختی اا میں بھی ہے یا دونوں مصرعوں کا ربط میں سمجھ نہیں سکا
باقی اشعار درست ہیں محاورہ وغیرہ کے تعلق سے لیکن دو لخت بھی محسوس ہو رہے ہیں
اس میں
اک زخمِ دل تھا سو تھا تمہارا دیا ہوا
'تھا تمہارا' میں تنافر کا عیب ہے
.. سو وہ تمہاری عطا ہی تھی
سے مصرع خوبصورت ہو جائے گا
 
بہت شکریہ، اس سے کافی مدد ہوئی۔
بے معنی ایک لفظ کو مت آسرا بنا
گر پھر بنا مجھے تو بنامِ خدا بنا
یہ شعر لفظِ کن کے بارے میں تھا کہ وہ بے معنی ہے اور صرف اللہ کا نام (بنامِ خدا) بامعنی ہے۔ شاید یہ مطلب ادا نہیں ہو سکا۔
 
Top