لیاقت علی عاصم غزل ۔ عشق بھی اک بے بسی تھی بے بسی میں کیا کیا ۔ لیاقت علی عاصم

محمداحمد

لائبریرین
غزل
عشق بھی اک بے بسی تھی بے بسی میں کیا کیا
ہم نے مرنے کے علاوہ زندگی میں کیا کیا
بس یوں ہی جوشِ سفر میں چلتے چلتے ایک دن
گھر بنا کے رہ گئے آوارگی میں کیا کیا
مصحفی کی طرح ہم بھی شام کرنے آئے تھے
اِس سے اُس سے بات کی تیری گلی میں کیا کیا
میر و غالب، ناسخ و آتش، فراز و فیض سے
نسبتِ شعری نبھائی، شاعری میں کیا کیا
لیاقت علی عاصم
 
Top