محسن نقوی غزل- یہ کہہ گئے ہیں مسافر لٹے گھروں والے- محسن نقوی

غزل- یہ کہہ گئے ہیں مسافر لٹے گھروں والے- محسن نقوی

یہ کہہ گئے ہیں مسافر لٹے گھروں والے
ڈریں ہوا سے پرندے کھلے پروں والے

یہ میرے دل کی ہوس دشتِ بیکراں جیسی
وہ تیری آنکھ کے تیور سمندروں والے

ہوا کے ہاتھ میں کاسے ہیں زرد پتوں کے
کہاں گئے وہ سخی سبز چادروں والے؟

کہاں ملیں گے وہ اگلے دنوں کے شہزادے؟
پہن کے تن پہ لبادے گداگروں والے

-پہاڑیوں میں گھرے یہ بجھے بجھے رستے
کبھی ادھر سے گزرتے تھے لشکروں والے

اُنہی پہ ہو کبھی نازل عذاب، آگ، اجل
وہی نگر کبھی ٹھہریں پیمبروں والے

ترے سُپرد کروں آئینے مقدر کے
ادھر تو آ مرے خوش رنگ پتھروں والے

کسی کو دیکھ کے چپ چپ سے کیوں ہوئے محسن
کہاں گئے وہ ارادے سخنوروں والے؟

محسن نقوی​
 
Top