غزل: یہ اضطراب کا عالم کہاں سے آتا ہے؟ ٭ احمد حاطب صدیقی

یہ اضطراب کا عالم کہاں سے آتا ہے؟
خوشی ہے جاتی کہاں، غم کہاں سے آتا ہے؟

سوال کرتی ہیں رو رو کہ مجھ سے یہ آنکھیں
کہ دل میں گریہ پیہم کہاں سے آتا ہے؟

گر اپنے خوں سے شگوفے کھلاتی ہیں شاخیں
تو زرد پتوں کا موسم کہاں سے آتا ہے؟

شجر جو خاک سے افلاک کو لپکتے ہیں
یہ خاک زادوں میں دم خم کہاں سے آتا ہے؟

جو فرطِ غم سے اگر نطق گنگ ہو جاتا
تو شورِ نالہ و ماتم کہاں سے آتا ہے؟

اگر ہے زخم رسانی ہی تحفۂ تقدیر
تو پھر یہ زخم کا مرہم کہاں سے آتا ہے؟

ہُوں دم بخود کہ سرشتِ وجودِ خاکی میں
مزاجِ شعلہ و شبنم کہاں سے آتا ہے؟

جو دستِ ناز میں شوخی حنا سے آتی ہے
حنا میں جان کا جوکھم کہاں سے آتا ہے؟

کوئی بتائے کہ حاطبؔ یہ عقلِ حیراں میں
نیا سوال دمادم کہاں سے آتا ہے؟

٭٭٭
احمد حاطب صدیقی
 
Top