غزل: کیسے بھولوں میں مقدر کی ستم رانی کو: محمد حفیظ الرحمٰن

غزل
محمد حفیظ الرحمٰن
کیسے بھولوں میں مقدر کی ستم رانی کو
جامہ خوش زیب دیا چاک گریبانی کو
گھِر کے آئی تھی گھٹا ، کھل کے برستی بھی رہی
تشنہ لب پھر بھی ترستے ہی رہے پانی کو
کِس قدر لرزہ براندام عدو ہوتا ہے
ناتواں ہاتھ جب اٹھتے ہیں نگہبانی کو
میں نے ہر ایک خطا دل سے بھلا دی تیری
تو نے بخشا نہ مری ایک ہی نادانی کو
عمر تو صرف ہوئی کارِ زیاں میں اپنی
اب فقیری میں چھپاتے ہیں تن آسانی کو
 

محمداحمد

لائبریرین
گھِر کے آئی تھی گھٹا ، کھل کے برستی بھی رہی
تشنہ لب پھر بھی ترستے ہی رہے پانی کو

عمر تو صرف ہوئی کارِ زیاں میں اپنی
اب فقیری میں چھپاتے ہیں تن آسانی کو
واہ واہ، بہت خوب!
کیا ہی اچھی غزل ہے۔ بہت خوب ۔ خوش رہیے محترم
 
استادِ محترم ، یہ میرے چھوٹے بھائی ہیں، اور ادبی اور شعری ذوق ماشاء اللہ مجھ سے بہتر پایا ہے۔ میں ہی انھیں کھینچ کر محفل میں لایا ہوں۔ کل ان سے سن کر میں نے ہی ان کی غزل ٹائپ کی ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
خوبصورت غزل ہے حفیظ صاحب، کیا کہنے بہت داد قبول کیجیے محترم۔

اور خلیل صاحب کا شکریہ آپ کو ادھر کی راہ دکھانے کیلیے، امید ہے تشریف لاتے رہیں گے۔

والسلام
 

الف عین

لائبریرین
حفیظ واقعی اچھی غزل ہے، مجھے غلط فہمی تھی کہ تمہارے بھائی جان پوسٹ کر رہے ہیں!!
خلیل، شکریہ کہ حفیظ میاں کو یہاں لے آئے۔
 
خوبصورت غزل ہے حفیظ صاحب، کیا کہنے بہت داد قبول کیجیے محترم۔

اور خلیل صاحب کا شکریہ آپ کو ادھر کی راہ دکھانے کیلیے، امید ہے تشریف لاتے رہیں گے۔

والسلام
شکریہ اور جزاک اللہ وارث صاحب
حفیظ واقعی اچھی غزل ہے، مجھے غلط فہمی تھی کہ تمہارے بھائی جان پوسٹ کر رہے ہیں!!
خلیل، شکریہ کہ حفیظ میاں کو یہاں لے آئے۔
شکریہ اور جزاک اللہ استادِ محترم
 

امین عاصم

محفلین
گھِر کے آئی تھی گھٹا ، کھل کے برستی بھی رہی
تشنہ لب پھر بھی ترستے ہی رہے پانی کو
بہت خوب محترم محمد حفیظ الرحمان صاحب، دلی داد قبول کیجیے،
والسلام
امین عاصمٓ
 
Top