غزل: کیا کریں تن کو لباسوں میں چھپانے والے

احباب گرامی، سلام عرض ہے!
انڈیا میں اکثریت کا انتہا پسند طبقہ آج کل مسلمانوں کو طرح طرح سے پریشان کر رہا ہے . اِس سلسلے میں حال ہی میں ایک کڑی اور جڑی جب مسلمان بچّیوں کو اسکولوں میں حجاب پہننے سے روکا جانے لگا . اِس کا ایک مقصد تو مذہبی نفرت بھڑکانا ہے، لیکن اصل میں یہ لوگ مسلمانوں کو تعلیم سے محروم کر كے ان کا مستقبل تاریک کر دینا چاہتے ہیں . اِس صورت حال پر ذہن سے ایک شعر برآمد ہوا جس سے پِھر ایک غزل کی ترغیب ملی . اِس تمام غزل میں ان ہی شر پسند عناصر كے کارناموں کا ذکر ہے . لیکن اگر آپ غزل کو اِس پس منظر كے بغیر بھی دیکھیں گے تو مجھے امید ہے کہ اشعار آپ تک پہنچ جائینگے انشاء اللہ . وجہ یہ ہے کہ بد قسمتی سے برّ صغیر میں ہم سب کی کہانی تقریباً ایک جیسی ہے . بس ا سٹیج، کردار اور اداکار بَدَل جاتے ہیں . بہر حال غزل ملاحظہ فرمائیے .

کیا کریں تن کو لباسوں میں چھپانے والے
نوچ لیتے ہیں ردا سَر سے زمانے والے

ذاتِ نسواں کی ترقی کا اٹھاتے ہیں سوال
شبِ تاریک میں بیٹی کو جلانے والے!

تاج ایمان ہے اور تخت دھرم ہے جن کا
آج بن بیٹھے ہیں مذہب کو بچانے والے

لکھ كے سو جھوٹ وہ اک سچ کو بَدَل سکتے ہیں
جن كے قبضے میں ہوں اخبار چلانے والے

اور جو بھی ہوں، چمن ساز نہیں ہو سکتے
صحنِ گلشن سے گل و برگ چرانے والے

کیا مٹائینگے کسی کو یہ، مگر ممکن ہے
خود ہی مٹ جا ئیں محبت کو مٹانے والے

ایک اک ذرّے سے پھوٹےگی کرن سورج کی
یاد رکّھیں یہ چراغوں کو بجھانے والے

ان سے لازم ہے کہ محتاط رہیں اہلِ وطن
ماہرِ مکر ہیں یہ خواب دکھانے والے

خود ہی لڑنا ہے مصائب سے تجھے اے عابدؔ
تیری قسمت کے ستارے نہیں آنے والے

نیازمند،
عرفان عابدؔ
 
آخری تدوین:

محمداحمد

لائبریرین
بہت خوب عمدہ غزل ہے عرفان بھائی!

لکھ كے سو جھوٹ وہ اک سچ کو بَدَل سکتے ہیں
جن كے قبضے میں ہوں اخبار چلانے والے

اور جو بھی ہوں، چمن ساز نہیں ہو سکتے
صحنِ گلشن سے گل و برگ چرانے والے

ایک اک ذرّے سے پھوٹےگی کرن سورج کی
یاد رکّھیں یہ چراغوں کو بجھانے والے
کیا کہنے!

بہت داد
 

یاسر شاہ

محفلین
کیا مٹائینگے کسی کو یہ، مگر ممکن ہے
خود ہی مٹ جا ئیں محبت کو مٹانے والے

ایک اک ذرّے سے پھوٹےگی کرن سورج کی
یاد رکّھیں یہ چراغوں کو بجھانے والے

ان سے لازم ہے کہ محتاط رہیں اہلِ وطن
ماہرِ مکر ہیں یہ خواب دکھانے والے

خود ہی لڑنا ہے مصائب سے تجھے اے عابدؔ
تیری قسمت کے ستارے نہیں آنے والے
واہ علوی صاحب -بہت خوب
 

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
احباب گرامی، سلام عرض ہے!
انڈیا میں اکثریت کا انتہا پسند طبقہ آج کل مسلمانوں کو طرح طرح سے پریشان کر رہا ہے . اِس سلسلے میں حال ہی میں ایک کڑی اور جڑی جب مسلمان بچّیوں کو اسکولوں میں حجاب پہننے سے روکا جانے لگا . اِس کا ایک مقصد تو مذہبی نفرت بھڑکانا ہے، لیکن اصل میں یہ لوگ مسلمانوں کو تعلیم سے محروم کر كے ان کا مستقبل تاریک کر دینا چاہتے ہیں . اِس صورت حال پر ذہن سے ایک شعر برآمد ہوا جس سے پِھر ایک غزل کی ترغیب ملی . اِس تمام غزل میں ان ہی شر پسند عناصر كے کارناموں کا ذکر ہے . لیکن اگر آپ غزل کو اِس پس منظر كے بغیر بھی دیکھیں گے تو مجھے امید ہے کہ اشعار آپ تک پہنچ جائینگے انشاء اللہ . وجہ یہ ہے کہ بد قسمتی سے برّ صغیر میں ہم سب کی کہانی تقریباً ایک جیسی ہے . بس ا سٹیج، کردار اور اداکار بَدَل جاتے ہیں . بہر حال غزل ملاحظہ فرمائیے .

کیا کریں تن کو لباسوں میں چھپانے والے
نوچ لیتے ہیں ردا سَر سے زمانے والے

ذاتِ نسواں کی ترقی کا اٹھاتے ہیں سوال
شبِ تاریک میں بیٹی کو جلانے والے!

تاج ایمان ہے اور تخت دھرم ہے جن کا
آج بن بیٹھے ہیں مذہب کو بچانے والے

لکھ كے سو جھوٹ وہ اک سچ کو بَدَل سکتے ہیں
جن كے قبضے میں ہوں اخبار چلانے والے

اور جو بھی ہوں، چمن ساز نہیں ہو سکتے
صحنِ گلشن سے گل و برگ چرانے والے

کیا مٹائینگے کسی کو یہ، مگر ممکن ہے
خود ہی مٹ جا ئیں محبت کو مٹانے والے

ایک اک ذرّے سے پھوٹےگی کرن سورج کی
یاد رکّھیں یہ چراغوں کو بجھانے والے

ان سے لازم ہے کہ محتاط رہیں اہلِ وطن
ماہرِ مکر ہیں یہ خواب دکھانے والے

خود ہی لڑنا ہے مصائب سے تجھے اے عابدؔ
تیری قسمت کے ستارے نہیں آنے والے

نیازمند،
عرفان عابدؔ
واہ واہ واہ۔ بہت خوب۔
 
Top