غزل: کیا مذاقِ آسماں ہے ہم دل افگاروں کے ساتھ ٭ پروفیسر کرم حیدری

کیا مذاقِ آسماں ہے ہم دل افگاروں کے ساتھ
ذہن پھولوں سے بھی نازک، زندگی خاروں کے ساتھ

درد کم ہونے نہیں دیتے کہ ہم سے پھر نہ جائیں
کیا محبت ہے مسیحاؤں کو بیماروں کے ساتھ

جن کو سِم سِم کی خبر تھی ان پر دروازے کھلے
ہم الجھتے ہی رہے سنگین دیواروں کے ساتھ

اپنا اندازِ محبت بے نیازِ قرب و بعد
جسم زنداں میں سہی، دل ہے مگر یاروں کے ساتھ

ایک تم ہم سے گریزاں ہو نہ جانے کس لیے
ورنہ کتنے چاند ہیں تاریک سیاروں کے ساتھ

کشتیوں کا بچ نکلنا بھی تو ہے اک حادثہ
لڑ رہے ہوں جب بہم ملّاح پتواروں کے ساتھ

آنچ ہو جب تک لہو میں، مصلحت ممکن نہیں
پھول کھلتے ہیں ہمیشہ بجھتے انگاروں کے ساتھ

شب سے پہلے ہی کرو کچھ اہتمامِ روشنی
زرد ہوتی جا رہی ہے دھوپ کہساروں کے ساتھ

کیا خبر کس موڑ پر کیا حادثہ در پیش ہو
دوستو! گھر سے اگر نکلو تو غم خواروں کے ساتھ

کوئی رشتہ اور اے شیخ و برہمن سوچیے
دل بندھیں گے اب نہ تسبیحوں نہ زنّاروں کے ساتھ

دشتِ غربت میں لٹے ہیں قافلے اپنے کرمؔ
رو رہے ہیں ہم لپٹ کر گھر کی دیواروں کے ساتھ

٭٭٭
کرمؔ حیدری
 
Top