غزل : کُھلتے ہیں جُستجو کے یہ دَر ، کس کے واسطے ؟ -اقبال ساجد

کُھلتے ہیں جُستجو کے یہ دَر ، کس کے واسطے ؟
نکلی حصارِ شب سے سحر ، کس کے واسطے ؟

خوابیدہ بستیوں میں نہ جائے شعاعِ مَہر
کس کس کا کھٹکھٹائے گی در ، کس کے واسطے ؟

چُنتے ہیں گلستانِ اُفق سے ، گُلِ شفق
مہتاب خُو ستارہ نظر ، کس کے واسطے ؟

یہ کون پانیوں کے سفر پہ نکل پڑا ؟
پڑتے ہیں موج موج بھنور ، کس کے واسطے ؟

لکھوں میں جاگنے کا عمل کیوں وَرق وَرق
ترتیب دوں کتابِ ہُنر ، کس کے واسطے ؟

پھر جمع کر رہے ہیں بُرائی کے شہر میں
لوگ اپنی نیکیوں کا ثمر ، کس کے واسطے ؟

ہے جاہلوں کے سامنے تخلیق کا زیاں
رکھوں میں نمائشوں میں ہُنر ، کس کے واسطے ؟

اچھا نہیں ہے دل میں عمل ٹُوٹ پُھوٹ کا
جذبوں کو کر رہا ہوں کھنڈر ، کس کے واسطے ؟
اقبال ساجد
نقوش جنوری 1976ء
 
Top