غزل : کس کی عطا ہے کس کی یہ دولت ہے دی ہوئی - علامہ رشید ترابیؔ

غزل
کس کی عطا ہے کس کی یہ دولت ہے دی ہوئی
آیا جہاں اندھیرا وہیں روشنی ہوئی

حدِ نظرہے اور ، ہے کچھ اور حدِ علم
ہرشے میں کوئی شے ہے یقیناََ چھپی ہوئی

بازارِ زیست میں ہے امانت ہر ایک جنس
فی الحال ایک جان ہے وہ بھی بِکی ہوئی

جس کو خزاں میں صبر و سکوں سے ملا قرار
آئی بہار ان کا پتہ پوچھتی ہوئی

ساتھی اگر جہاد کا ہے بے وفا نہیں
اس راہ میں خدا کے لیے دوستی ہوئی

یہ حال ہے گزشتہ اندھیرے بھی ساتھ ہیں
یہ ضد ہے شمع ہاتھ میں ہو اور بجھی ہوئی

نیت بخیر ختم سفر ہے خدا گواہ
اک زندگی کی فکر میں یہ زندگی ہوئی

اپنی اضافتوں سے ہے کچھ تازگی رشیدؔ
انسان سن رہا ہے کہانی سنی ہوئی
علامہ رشید ترابیؔ
 
Top