اکبر الہ آبادی غزل: کس قدر بے فیض ان روزوں ہوائے دہر ہے

کس قدر بے فیض ان روزوں ہوائے دہر ہے
بوئے گل کو دامنِ بادِ صبا ملتا نہیں

ڈھونڈتے ہیں لوگ اس دنیا میں اطمینانِ دل
کچھ بھی لیکن داغِ حسرت کے سوا ملتا نہیں

نیشنل وقعت کے گم ہونے کا ہے اکبر کو غم
آفیشل عزت کا اس کو کچھ مزا ملتا نہیں

دل کی ہمدردی سے کچھ تسکین ہوتی تھی مگر
اب تو اس مظلوم کا بھی کچھ پتا ملتا نہیں

بیکسی میری نہ پوچھ اے جادۂ راہِ طلب
کارواں کیسا کہ کوئی نقشِ پا ملتا نہیں

اس کو اربابِ طریقت میں کروں میں کیا شمار
آپ کی زلفوں سے جس کا سلسلہ ملتا نہیں

جب کہا میں نے مرا دل مجھ کو واپس کیجیے
ناز و شوخی سے وہ بولے، کھو گیا ملتا نہیں

جب کہیں ملتا ہے کرتا ہے نہ ملنے کا گلہ
اور جو ملنے جاتا ہوں مردِ خدا ملتا نہیں

یوں کہو مل آؤں ان سے لیکن اکبرؔ سچ یہ ہے
دل نہیں ملتا تو ملنے کا مزا ملتا نہیں

٭٭٭
اکبر الٰہ آبادی
 
Top