غزل ::کبھی کبھی وہ حال ہمارا یاد تمھاری کرتی ہے ::

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
آپ کا بھی مجھ پر کوئی حساب ہو تو من ہلکا کر لیجیے
میرے من میں ایسا کچھ نہیں، مجھے یہ غزل تو اچھی لگی۔ ارشد رشید صاحب کا کہنا تھا کہ چیری کا فارسی میں مطلب لونڈی بھی ہے۔ لیکن ایسا کون شریف آدمی ہے جو "چیری کے پیڑ" پڑھ کر بھی اس چیری کا مطلب لونڈی لے گا۔
لیکن ایک دو باتیں واضح کر دیں ۔
بچھڑ گئے جب اک دوجے سے ہم میں قرینہ آ ہی گیا
وقت پہ جاتا ہوں میں دفتر تو گھر داری کرتی ہے
کیا یہاں "تو" کی بجائے "وہ" نہیں آنا چاہیے۔
آخرِ شب میں اک سایہ سا ہم سے آکر کہتا ہے
یاد میں تیری اک دیوانی آہ و زاری کرتی ہے
دوسرا مصرع "تیری یاد میں اک دیوانی آہ و زاری کرتی ہے" یوں نثر سے زیادہ قریب ہے لیکن اس طرح نہ کہنے کی کیا وجہ ہے؟
 
محترمی و مکرمی سرور عالم راز صاحب
السلام علیکم -
آپ کے تبصرے پہ ابھی نظر پڑی ، پہلے تو میں سمجھ رہا تھا میری ہی پوسٹ کا آپ نے اقتباس لیا ہے -لیکن ایسا خفیہ تبصرہ ہے کہ اقتباس بھی نہیں لیا جا سکتا -
جزاک الله خیرا کہ آپ نے وقت دیا اور ایک شعر پہ صفائی کے نمبر دیے، یہ بھی غنیمت ہے -آپ کی باتیں میں نے نوٹ کر لی ہیں -
آپ غزل کی تقطیع پہ مفصّل بات کیجیے ،مجھے غزل چھپوانے کا خاص شوق نہیں کم از کم یوں کچھ سیکھنے کو ہی مل جائے گا آپ سے -
عزیزی یاسر صاحب: مجھ کو احساس ہے کہ میرا تبصرہ نا مکمل اور :غیر تبصری: قسم کا تھا اور آپ کی اس ضمن میں الجھن غلط نہیں ہے۔ معذرت قبول کیجئے۔ رہ گئی تقطیع تو اس بحر کی تقطیع خاصی الجھی ہوئی ہے اور عام شاعر ایسی نزاکتوں سے بھاگتا ہے۔ پہلے میں کر لوں اور اپنی حد تک اطمینان بھی کر لوں کہ کم وبیش صحیح ہے پھر حاضر ہوتا ہوں۔ صبر تو ویسے بھی اچھی چیز ہے۔ انشا اللہ۔ویسے آپ کی اس غزل پراپنی عمومی رائے پر میں برابر قائم ہوں۔ برا نہ مانیں۔ یہ اصولی بات ہے اور کچھ نہیں۔ جزاک اللہ خیرا۔ایک بات یاد آئی : اگر آپ مناسب جانیں تو اپنا ای میل مجھ کو ٹیکسٹ کر دیں؛ 8179179551 یہ تو آپ جانتے ہیں کہ امریکہ۱+ ہے۔
 
آخری تدوین:

یاسر شاہ

محفلین
عزیزی یاسر صاحب: مجھ کو احساس ہے کہ میرا تبصرہ نا مکمل اور :غیر تبصری: قسم کا تھا اور آپ کی اس ضمن میں الجھن غلط نہیں ہے۔ معذرت قبول کیجئے۔
ارے استاد محترم سرور صاحب آپ شرمندہ کر رہے ہیں مجھے ،آپ کو معذرت کی اصلا کوئی ضرورت نہیں -
دراصل آپ کی رائے کا مجھے کافی حد تک پہلے ہی اندازہ تھا کہ میں آپ کی فکر سخن اور طرز اصلاح و تنقید سے بخوبی واقف ہوں تبھی اوپر عراقی کا شعر بھی لکھا -
آپ کو شاید یاد بھی نہ ہو کہ ابتدا میں دو چار غزلیں میں نے آپ کی خدمت میں اصلاح کے لیے بھی پیش کی تھیں مگر جلد اندازہ ہو گیا کہ آپ کے خیالات بہت بلند ہیں اور آپ کے ہاں تہذیب و تمدن کی پاسداری بہت زیادہ ہے اور مجھے آپ کی طرح ہمیشہ عالی خیالات کی بجائے کبھی کبھی کچھ موالی طرز پہ بھی لکھنا تھا لہٰذا پھر اپنی اصلاح آپ کے تحت سفر شروع کیا اور کچھ کام چلاؤ استعداد پیدا کی جس میں آپ سے بے لاگ لکھنے کی تحریک ملی اور بہت کام آئی -
رہ گئی تقطیع تو اس بحر کی تقطیع خاصی الجھی ہوئی ہے اور عام شاعر ایسی نزاکتوں سے بھاگتا ہے۔ پہلے میں کر لوں اور اپنی حد تک اطمینان بھی کر لوں کہ کم وبیش صحیح ہے پھر حاضر ہوتا ہوں۔ صبر تو ویسے بھی اچھی چیز ہے۔ انشا اللہ۔
جی صبر کا دامن تھام رکھا ہے -
ویسے آپ کی اس غزل پراپنی عمومی رائے پر میں برابر قائم ہوں۔ برا نہ مانیں۔ یہ اصولی بات ہے اور کچھ نہیں۔ جزاک اللہ خیرا۔
جی آپ آئندہ بھی اسی طرح بے لاگ لکھتے رہیے کہ بقول جگر :

کوئی ترچھی نظر سے دیکھ لے یہ کس میں ہمّت ہے
مگر اُس جانِ محبوبی کو مستثنیٰ سمجھتے ہیں
ایک بات یاد آئی : اگر آپ مناسب جانیں تو اپنا ای میل مجھ کو ٹیکسٹ کر دیں
میں نے آپ کو ای میل ارسال کر دیا ہے -
 
محترم یاسرشاہ صاحب کی دو حالیہ غزلوں کے چنداشعارکا ایک تقابلی مطالعہ:

کبھی کبھی وہ حال ہمارا یاد تمھاری کرتی ہے
رنگ جو چیری کے پیڑوں کا بادِ بہاری کرتی ہے
پہلے مصرعے میں توجہ شعر کی طرف مبذول ہوئی مگر دوسرے مصرعے میں ایک اجنبی اور غیر ملکی چیزسامنے آگئی ۔گو اُس کا تعارف،معلومات اور وضاحتیں بطور حواشی دیدی گئیں مگر بات بنی نہیں اور یوں یہ شعر شاعر تک محدود رہ گیا اور زیادہ سے زیادہ سفرنامے پڑھنے والے یا سیروسیاحت کے شوقینوں نے اِس کا حظ اُٹھایا۔اِسے ہر ایک کے لیے قابلِ قبول بنانے کے لیے کیاکیا جائے ؟قربانی دی جائے اور ایثار سے کام لیا جائے یعنی اپنا ذاتی تجربہ اور ذاتی پسند تھوپنے کی بجائے عام مشاہدے اور قریب کی بات سے بات سمجھانے کی کوشش کی جائے ،ہو سکے تو میرسے استفادہ کیا جائے :
قامت خمیدہ ، رنگ شکستہ ، بدن نزار
تیرا تو میر غم میں عجب حال ہوگیا
کبھی کبھی وہ حال ہمارا یاد تمھاری کرتی ہے
جی کو گھائل ، جان کو روگی ، جینابھاری کرتی ہے(جیسی چیز سے شاید بات سمجھ میں آجاتی )کبھی کبھی یہ حال ہمارا یاد تمھاری کرتی ہے

دل دیکھ رہے ہیں کبھی جاں دیکھ رہے ہیں
اٹھتا ہے کہاں سے یہ دھواں دیکھ رہے ہیں
عشق اور اُس کی کیفیات دیکھی بھالی ، سمجھی سمجھائی اور برتی برتائی چیزیں ہیں ۔جب پیار کہیں ہوجاتا ہے ، تب ایسی حالت ہوتی ہے ، محفل سے جی گھبراتا ہے ، تنہائی کی عادت ہوتی ہے اور غالب نے کیا خوب کہا تھا ’’دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے ،آخراِس درد کی دوا کی ہے ‘‘ گویا عشق میں مبتلاکا حال مبتلا خود نہیں جانتا کیا سے کیا ہوگیا ہے اور اِس کا مداوا کیا ہے۔
خزاں کی رت میں ہو جاتا ہے حَسیں چناروں کا جو رنگ
تیری جدائی یوں بھی ہماری خاطر داری کرتی ہے
یہاں بھی ایک اجنبی چیز کا سہارا لے کربات باور کرانے کی سعی ہے۔ کشمیر کا حسن دنیا میں مشہور ہے مگر وہاں کے چناروں کے پتوں کی یہ بات تو شاید سب جانتے ہوں کہ بیچ سے کٹ کر تین حصوں میں منقسم ہوتے ہیں اور جب ہوا انھیں متحرک کرتی ہے تو کبھی کبھی پتے کا ہر حصہ اپنے انداز،اپنی ادا اور اپنے حساب سے ہلتا معلوم ہوتا ہے مگر وہ سُرخی مائل زردی جس کی طرف آپ نےاشارہ کیا کہ خزاں کے ہاتھوں آخرِ دم اِس کے حصے میں آتی ہے اُس سے ہرکوئی واقف نہیں ،چنانچہ یہاں بھی شعر کی ترسیل اور تفہیم محدود ہوکر رہ گئی ۔
اک روزنِ زنداں سے جہاں دیکھ رہے ہیں
خود ہم ہیں کہاں اور کہاں دیکھ رہے ہیں
کل آپ نے اِس بات کو سمجھانے کے لیے پی ٹی وی کی مثال خوب دی تھی ۔اور ویسے اِس شعر کو سمجھنے کے لیے کسی ذہنی مشقت کی ضرورت بھی نہیں ۔ بات دل سے نکلی اور دل میں اُتر گئی۔
آتا ہے جب رنگ گلوں پر تیرا خیال آجاتا ہے
مدھر سروں میں تیری باتیں بادِ بَہاری کرتی ہے
جب میں نے شعر کا پہلا مصرع پڑھا تو مجھے بے اِختیار غالب کا سفرِ کلکتہ یاد آگیااور میں سمجھا اگلے مصرعے میں کوئی ایسی ہی ، دل ہلادینے والی نہیں تو چونکا دینے والی بات ہوگی مگر بات مدھر سُروں میں بادِبہاری کی طرف نکل گئی۔سچ پوچھیں تو محبوب سے دور ہوں ، ملنے کی کوئی سبیل نہ ہو، دنیا کے خطرناک تیور،رسم رواج کی ہولناک باتیں ہوں اور اسی اثنا میں فصل ِ بہار آجائے تو جتنی رنگیناں اور خوبصورتیاں اور دلکشیاں اور دلربائیاں یہ موسم لے کر آئے اُتنا ہی دل محبوب سے جدائی کے غم میں ڈوب ڈوب جاتا ہے حد تو یہ ہے ایسے میں زندگی سے اُنس اور لگاؤ تک جاتا رہتا ہے ۔ زندگی سے محبت ، اُنس اور لگاؤ محبوب کے وصل اگر نہیں تو قرب سے مشروط ہوکر رہ جاتاہے :
جب تُو نہیں تو کچھ بھی نہیں ہے بہار میں ، نہیں ہے بہار میں
جی چاہتا ہے منہ بھی نہ دیکھوں بہار کا ، آنکھوں میں رنگ بھر کے تیرے انتظار کا
آجا کہ اب تو آنکھ میں آنسو بھی آگئے ، آنسو بھی آگئے
ساغر چھلک اُٹھا ہے میرے صبر و قرار کا ، آنکھوں میں رنگ بھر کے تیرے انتظار کا​
گزشتہ مراسلے پر آپ کی محبت کے لیے دل سے ممنون ہوں ۔
اِس خیال سے کہ کہیں لائٹ نہ چلی جائے اور ٹیکسٹ تحلیل ہوجائے یہ تبصرہ یہیں تمام کرتا ہوں ۔
شکیل احمدخان
از کراچی۔​
 
آخری تدوین:

یاسر شاہ

محفلین
شکیل صاحب ممنون کرم ہوں کہ آپ نے وقت نکالا مگر اب کے آپ کے تبصرے سے پھر وہی فرج اور الماری والا قصّہ یاد آگیا -
یہاں آپ نے شعر کا شعر سے تقابلی جائزہ کیا ہے جو کہ بہت دور کی کوڑی ہے اور حاصل وصول کچھ نہیں، دراصل میں چاہ رہا تھا کہ آپ دونوں غزلوں کا بحیثیت مجموعی تقابلی جائزہ کرکے یہ بتائیں کہ وہ کونسے سرخاب کے پر تھے جو آپ کو دوسری غزل میں نظر آئے اور اس غزل میں نہ آئے، اس سے میں ایک بہت اہم نتیجہ اخذ کرنا چاہ رہا ہوں لیکن چلیں اب آپ کے علیحدہ علیحدہ کیے گئے تبصروں سے کام چلاتے ہیں -

دیکھیے دوسری غزل پہ جو واہ واہ کی گئی ہے ، سچی بات تو یہ ہے کہ اس واہ واہ کے مستحق یا تو میر ہیں یا داغ وغیرہ وغیرہ ، جیسا کہ آپ نے بھی داغ کا رنگ بھانپنے میں اپنی سخن فہمی کا ثبوت دیا باقی مطلع میر کے شعر سے ماخوذ ہے، یہ تو خیر سامنے کی بات ہے کہ بقول آپ کے بھی وہ شعر ان کے بہتّر نشتروں میں سے ایک ہے اور ہر صاحب ذوق نے سن ہی رکھا ہے -چنانچہ اقتباسات دیکھیے :
آپ کے مطلع میں میرکے اِس مطلع کا اثر تھا جس نے داد دینے پر مجبور کیا۔

یہاں مجھے داغ اور شاعری میں وہ ان کا گفتگوکا سا طرزِ بیان یا د آگیا

حالی نے کہا تھا :

کی مسلماں نے ترقی جو فرنگی ہو کر
یہ فرنگی کی ترقی ہے مسلماں کی نہیں

تو بھائی اگر بڑے شاعروں کی ترقی ، دبستان میرو داغ کے فروغ اور گروہ بندی پیدا کرنے ہی کے لیے شاعری کرنی ہے تو ایسی شاعری کرنے ہی کی کیا ضرورت ہے -محض مطالعے اور ان لوگوں کی شاعری کی تفہیم میں وقت صرف کرنا چاہیے کروڑوں غزلیں کہی جا چکی ہیں جن میں ان مشاہیر کے سخن کی بہترین نقالی ہے جن میں سے خال خال کو ہی مقبولیت مل سکی -

بقول جالب :

اپنے انداز میں بات اپنی کہو
میر کا شعر تو میر کا شعر ہے.

بہت سی کیفیات انسان کی خالص ذاتی ہوتی ہیں سانجھے کی نہیں اور شاعر بھی ایک انسان ہی ہے چنانچہ اس غزل میں میں نے اپنے انداز میں اپنی بات کی ہے جب کہ دوسری غزل میں بنیادی رنگ دیگر شعرا کا ہے جو کہ کہیں شعوری اور کہیں غیر شعوری طور پر اپنایا گیا ہے ،گو اس میں تصرف کر کے کچھ اپنا رنگ اور اسلوب پیدا کرنے کی کوشش بھی کی ہے مگر سچی بات تو یہ ہے کہ :حقیقی شاعرانہ خوشی : اپنے انداز میں اپنی بات کرنے ہی سے ملتی ہے جسے اوریجنلٹی بھی کہتے ہیں جیسے ماں کو سب بچے عزیز ہوتے ہیں مگر جو بچہ خود اس کی صورت و سیرت اختیار کرتا ہے اس کو دیکھ کر زیادہ خوش ہوتی ہے -

چنانچہ اس غزل پہ اس طرح کی باتیں میرے لیے داد کی حیثیت رکھتی ہیں اور ثبوت ہیں کہ میں اپنا انفرادی رنگ جھلکانے میں کامیاب ہوا ہوں :
آوارہ گردی کرتا ہوا اِدھر آنکلا تو آپ کی منفرد رنگ کی غزل دیکھی۔ سوچا کہ اس پر کچھ لکھوں لیکن مطلع میں ہی اپنی کم مائیگی پر ہاتھ ملتا رہ گیا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ کسی اور نے بھی اس پر اب تک خیال آرائی نہیں کی ہے۔ میری مشکل یہ ہے کہ مجھ کو معلوم نہیں کہ چیری کا پودا ہوتا ہے یا درخت اور باد بہاری اس کے ساتھ کیا چھیڑ کرتی ہے؟ دوسرے چنار کے درخت کا رنگ اول اول کیا ہوتا ہے اور پھر خزاں اس کا کیسا حلیہ کرتی ہے؟ اور یہ :نقد نگاری: کس چڑہا کا نام ہے؟

پہلے مصرعے میں توجہ شعر کی طرف مبذول ہوئی مگر دوسرے مصرعے میں ایک اجنبی اور غیر ملکی چیزسامنے آگئی ۔گو اُس کا تعارف،معلومات اور وضاحتیں بطور حواشی دیدی گئیں مگر بات بنی نہیں اور یوں یہ شعر شاعر تک محدود رہ گیا اور زیادہ سے زیادہ سفرنامے پڑھنے والے یا سیروسیاحت کے شوقینوں نے اِس کا حظ اُٹھایا۔اِسے ہر ایک کے لیے قابلِ قبول بنانے کے لیے کیاکیا جائے ؟

یہاں بھی ایک اجنبی چیز کا سہارا لے کربات باور کرانے کی سعی ہے

وہ سُرخی مائل زردی جس کی طرف آپ نےاشارہ کیا کہ خزاں کے ہاتھوں آخرِ دم اِس کے حصے میں آتی ہے اُس سے ہرکوئی واقف نہیں ،چنانچہ یہاں بھی شعر کی ترسیل اور تفہیم محدود ہوکر رہ گئی ۔

آتا ہے جب رنگ گلوں پر تیرا خیال آجاتا ہے
مدھر سروں میں تیری باتیں بادِ بَہاری کرتی ہے
جب میں نے شعر کا پہلا مصرع پڑھا تو مجھے بے اِختیار غالب کا سفرِ کلکتہ یاد آگیااور میں سمجھا اگلے مصرعے میں کوئی ایسی ہی ، دل ہلادینے والی نہیں تو چونکا دینے والی بات ہوگی مگر بات مدھر سُروں میں بادِبہاری کی طرف نکل گئی۔سچ پوچھیں تو محبوب سے دور ہوں ، ملنے کی کوئی سبیل نہ ہو، دنیا کے خطرناک تیور،رسم رواج کی ہولناک باتیں ہوں اور اسی اثنا میں فصل ِ بہار آجائے تو جتنی رنگیناں اور خوبصورتیاں اور دلکشیاں اور دلربائیاں یہ موسم لے کر آئے اُتنا ہی دل محبوب سے جدائی کے غم میں ڈوب ڈوب جاتا ہے حد تو یہ ہے ایسے میں زندگی سے اُنس اور لگاؤ تک جاتا رہتا ہے ۔
گو یہ سب باتیں بظاہر اظہار نقص کے لیے کی گئی ہیں لیکن صاحب بات یہ ہے کہ بقول غالب :

اپنی ہی ذات سے ہو جو کچھ ہو
آگہی گر نہیں غفلت ہی سہی
جی کو گھائل ، جان کو روگی ، جینابھاری کرتی ہے(جیسی چیز سے شاید بات سمجھ میں آجاتی )کبھی کبھی یہ حال ہمارا یاد تمھاری کرتی ہے
بھائی میں نے خود کشی نہیں کرنی ،یہ تو سب خود کشی کے آثار ہیں -
گزشتہ مراسلے پر آپ کی محبت کے لیے دل سے ممنون ہوں ۔

آخر میں ایک بار پھر آپ کا ممنون ہوں -الله تعالیٰ ہماری محبّت قائم و دائم رکھے اور اسے رقیبوں کی نظر سے بچائے -آمین
 

یاسر شاہ

محفلین
میرے من میں ایسا کچھ نہیں، مجھے یہ غزل تو اچھی لگی۔ ارشد رشید صاحب کا کہنا تھا کہ چیری کا فارسی میں مطلب لونڈی بھی ہے۔ لیکن ایسا کون شریف آدمی ہے جو "چیری کے پیڑ" پڑھ کر بھی اس چیری کا مطلب لونڈی لے گا۔
لیکن ایک دو باتیں واضح کر دیں ۔

کیا یہاں "تو" کی بجائے "وہ" نہیں آنا چاہیے۔

دوسرا مصرع "تیری یاد میں اک دیوانی آہ و زاری کرتی ہے" یوں نثر سے زیادہ قریب ہے لیکن اس طرح نہ کہنے کی کیا وجہ ہے؟
شکریہ روفی بھائی ۔
؛تو : سے دراصل ان کو مخاطب کر کے گلہ کیا گیا ہے کہ اگر ساتھ قرینے سے رہتے تو کیا جاتا۔

:یاد میں تیری اک دیوانی: یا: تیری یاد میں اک دیوانی: صحیح یا غلط کا مسئلہ نہیں بلکہ ذوق کی ترجیح کا تعین ہے۔اور میرے ذوق کو:یاد میں تیری : بھاتا ہے وجہ شاید اس کی آہنگ ہے کہ مصرع اولیٰ میں بھی ٹھیک اسی جگہ جھٹکا آتا ہے:آخر شب: کے مقام پر۔
 
محترم یاسرشاہ صاحب !
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرتہ ٗ:
محترم غزل پر تبصرہ کرنے سے پہلے میں داد دوں گا اِس بات کی کہ آپ غزل کی بُنت میں ہرگزہرگز اپنے رنگ سے ہٹنے پر آمادہ نہیں ،واللہ العظیم اِس بات نے مجھے بے حد متاثر کیا اور مجبور کیا کہ میں ایک بارپھر اِس نقطۂ نظر سے غزل کا مطالعہ کروں کہ مجھے شاعر کے ساتھ کوئی اور بھی نظر آتا ہے کہ نہیں ، جس کا رنگ شاعر نے اِختیار کیا ہو یا کہیں بے اختیاری میں مضمون کے بجائے انداز کا توارد اس غزل میں در آیا ہو تواُس کا کھوج مل جائے اور وہ کیا خوبی ہے جس پر آپ فرمارہے ہیں کہ یہ غزل بذاتِ خود آپ کو بہت پسند ہے تو میں نے اِس غزل کا انہی باتوں کو پیشِ نظر رکھ کر کئی بار مطالعہ کیا اور اس کاحاصل خدمت میں نذر کررہا ہوں:
کبھی کبھی وہ حال ہمارا یاد تمھاری کرتی ہے
رنگ جو چیری کے پیڑوں کا بادِ بہاری کرتی ہے
پہلے میں سمجھاتھا کہ ہجروفراقِ محبوب میں اُس کی یاد سے اپنی خستہ حالی ظاہر کرنا شاعر کا مقصود ہے مگر اب میں نے بغور پڑھا اور پھر غور کیا اور اُس لنک پر گیا جہاں چیری بلاسم پر مفصل مضمون موجود ہے تو مجھ پر منکشف ہوا کہ ایسا بالکل نہیں ہے اور جناب نے بھی اِس کی تشبیہ کو خستہ حالی بیان کرنے کے لیے استعمال نہیں کیا بلکہ محبوب کی یاد سے دلی اور روحانی فرحت و انبساط بیان کرنا آپ کا مقصودِ اصلی تھا۔ شاہ صاحب اگر میں صحیح سمجھا تو واقعی آپ روایتی شاعری سے ہٹ کر خالص اپنے انداز میں تصویر کا ایک اور رخ دکھانے میں بالکلیتااً کامیاب رہے ، واہ!
شعرنمبر2:
خزاں کی رت میں ہو جاتا ہے حَسیں چناروں کا جو رنگ
تیری جدائی یوں بھی ہماری خاطر داری کرتی ہے
یہاں بھی آپ نے زردی اور پژمردگی کی روایت (جو خزاں کے ہاتھوں ہر پتے کا مقدر ہے)کو ایک طرف رکھ کرسُرخی کو لیاہے جو زندگی، زندہ دلی ، تری اور تازگی کی علامت ہے ۔ اب ڈکشن کی طرف آئیں تو خزاں کی رُت ، چنار، رنگ، جدائی اور پھر خاطر داری ۔اِن الفاظ پر مبنی بیان کو ایک زندہ تشبیہ نے پڑھنے پڑھانے اور سننے سنانے کی بجائے دیکھنے دکھانے کی چیز بنادیا۔ یہاں آپ نے الفاظ کے ساتھ تشبیہ کو بھی ایک مرصع ساز کے طرح استعمال کیا ، واہ۔
شعرنمبر3:
آتا ہے جب رنگ گلوں پر تیرا خیال آجاتا ہے
مدھر سروں میں تیری باتیں بادِ بَہاری کرتی ہے
ظاہر ہے رونا رلانا اِس غزل میں اب تک کے کسی شعر کا مدعا اور مقصود نہیں رہا تو اِس شعر میں محبوب کا خیال آجانے سے کوئی کیسے اک تیرمیرے سینے میں مارا کہ ہائے ہائے کی توقع کرے اور یوں اِسے روایت کے بحرِ زخار میں دھکیل کر تبصرے کا حق چکتا کرے ،اِس شعر میں بڑے ہی خوبصورت اور بڑی ہی تکنیک سے اپنے محبوب کو سراپا بہار قرار دینا اِسے قابلِ تعریف شعر بنارہا ہے ، واہ۔
شعرنمبر4:
بچھڑ گئے جب اک دوجے سے ہم میں قرینہ آ ہی گیا
وقت پہ جاتا ہوں میں دفتر تو گھر داری کرتی ہے
سادہ سی بات ہے جو نوبیاہتا جوڑوں میں اکثر دیکھنے میں آتی ہے کہ نئی زندگی کے شروع کے دن الل ٹپ ہی گزارے جاتے ہیں ۔قاعدہ ،ضابطہ ،کلیہ، اصول کا دھیان دھیرے دھیرے آتاہےاور آگے چل کر بہرحال آہی جاتا ہے ،اسے وقت سے پہلے لانے میں چند دن کی دوری خاصا کام دکھاتی ہے ، اِس شعر میں یہی چھوٹی سی بات ہلکے پھلکے انداز میں یا یوں کہیں اپنے انداز میں بیان کی ہے۔

شعرنمبر5:
آخرِ شب میں اک سایہ سا ہم سے آکر کہتا ہے
یاد میں تیری اک دیوانی آہ و زاری کرتی ہے
روایت تو کہتی ہے کہ محبوب کی باتیں سات پردوں میں چھپاکر کیجیے اور اپنے جذبات کے بیان میں زیادہ سے زیادہ بلکہ حدسے زیادہ شاعرانہ وسائل کا سہار لیں تاکہ آڑ رہے تب ہم اِسے غزل مانیں گے مگر اس غزل کی فضاء غم کا قصہ سنانے کی بجائے ہلکے پھلکے واقعات شیئر کرنے کی بنتی جارہی ہے اس لیے تھوڑی دیر کے لیے غزل کے روایتی تقاضوں کو ایک طرف رکھ کر ایک پاک طینت،کشادہ دل اور باعلم انسان کی باتیں دھیان سے سنیں ، یہی اِس شعر کا حسن ہےاور داد دجس کا حق ہے، واہ!
شعرنمبر 6:
حسن ہے کیا اور کون حَسیں ہے ہم سے آکر پوچھیں تو
طبع ہماری بہرِ نگاراں نقد نگاری کرتی ہے
اِس شعر کی تعریف اہلِ علم اور اصحابِ دانش ،نکتہ سنج اور نکتہ رس حضرات پہلے ہی فرماچکے ہیں ، میں اُن کی تائید کے سوا کچھ عرض نہیں کرسکتا۔
مقطع:
شؔاہ سنو! راحت سی راحت ہے چپ شاہ کے روزے میں
گرہ زباں کی کھلے تو پھر یہ دل آزاری کرتی ہے

یہ آپ کی اِس غزل کا پہلا اور آخری اور اکیلا شعر ہے جس پر اُردُو شاعری میں فلسفہ ، منطق اور حکیمانہ اقوال کی روایت کا گہرا اثر ہے،قلی قطب شاہ کے اکثر مقطعوں کی خُو بوُ اس شعر میں پائی جاتی ہے یعنی وہ پندو نصائح جو ٹھیٹھ عاشقانہ غزلوں تک میں اُس کے ہاں ملتے ہیں:

قطب شہ نہ دے مج دوانے کو پند
دوانے کوں کچ پند دیا جائے نا
 
آخری تدوین:
السلام علیکم

تمام اہالیان محفل کی خدمات میں ایک غزل پیش خدمت ہے -آپ سب کی بے لاگ رائے کا انتظار رہے گا -

یاسر



غزل

کبھی کبھی وہ حال ہمارا یاد تمھاری کرتی ہے
رنگ جو چیری کے پیڑوں کا بادِ بہاری کرتی ہے


خزاں کی رت میں ہو جاتا ہے حَسیں چناروں کا جو رنگ
تیری جدائی یوں بھی ہماری خاطر داری کرتی ہے


آتا ہے جب رنگ گلوں پر تیرا خیال آجاتا ہے
مدھر سروں میں تیری باتیں بادِ بَہاری کرتی ہے


بچھڑ گئے جب اک دوجے سے ہم میں قرینہ آ ہی گیا
وقت پہ جاتا ہوں میں دفتر تو گھر داری کرتی ہے


آخرِ شب میں اک سایہ سا ہم سے آکر کہتا ہے
یاد میں تیری اک دیوانی آہ و زاری کرتی ہے


حسن ہے کیا اور کون حَسیں ہے ہم سے آکر پوچھیں تو
طبع ہماری بہرِ نگاراں نقد نگاری کرتی ہے
یاسر بھائی ، اِس غزل كے اشعار میں مجھے ایک انفرادیت اور تازگی کا احساس ہوا . شاید اِس کی وجہ اِس میں مستعمل ساز و سامان ( چیری ، چنار ، دفتر ) ہے . البتہ ’نقد نگاری‘ کچھ عجیب لگا . ’نقد‘ کا استعمال بمعنی ’تنقید‘ میری نگاہ سے پہلے نہیں گزرا . آپ ’نکتہ نگاری‘ جیسا کچھ کہتے تو بہتر ہوتا .
اِس غزل میں آپ نے متقارب اور متدارک بحور كے ارکان ملا جلا کر استعمال کیے ہیں . جہاں تک مجھے علم ہے ، کلاسیکی شاعری میں ایسا نہیں ہوتا تھا ، لیکن بعد كے شعراء ، خاص طور وہ شعراء جو ہندی شاعری سے متاثر ہیں ، كے یہاں ایسا استعمال ہونے لگا ، مثلاً :
جنم جنم كے ساتوں دکھ ہیں اس كے ماتھے پر تحریر
اپنا آپ مٹانا ہو گا یہ تحریر مٹانے میں ( اِبْن انشا ء)
بہر حال ، غزل پسند آئی . داد حاضر ہے .
 

یاسر شاہ

محفلین
حترم یاسرشاہ صاحب !
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرتہ ٗ:
وعلیکم السلام -
محبی شکیل بھائی آپ کا محبّت نامہ مجھے لاجواب کر گیا، تبھی جوابی خط میں تاخیر ہو گئی ، معذرت خواہ ہوں -کون کس کے لیے اتنی مصروفیات میں وقت نکالتا ہے ،اور پھر کون اپنی رائے کسی کی خاطر سے بدلتا ہے-بڑی نوازش ہے ،عنایت ہے آپ کی -
محترم غزل پر تبصرہ کرنے سے پہلے میں داد دوں گا اِس بات کی کہ آپ غزل کی بُنت میں ہرگزہرگز اپنے رنگ سے ہٹنے پر آمادہ نہیں ،واللہ العظیم اِس بات نے مجھے بے حد متاثر کیا اور مجبور کیا کہ میں ایک بارپھر اِس نقطۂ نظر سے غزل کا مطالعہ کروں کہ مجھے شاعر کے ساتھ کوئی اور بھی نظر آتا ہے کہ نہیں ، جس کا رنگ شاعر نے اِختیار کیا ہو یا کہیں بے اختیاری میں مضمون کے بجائے انداز کا توارد اس غزل میں در آیا ہو تواُس کا کھوج مل جائے اور وہ کیا خوبی ہے جس پر آپ فرمارہے ہیں کہ یہ غزل بذاتِ خود آپ کو بہت پسند ہے تو میں نے اِس غزل کا انہی باتوں کو پیشِ نظر رکھ کر کئی بار مطالعہ کیا اور اس کاحاصل خدمت میں نذر کررہا ہوں:
رنگ سے نہ ہٹنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ شاعری میں جہاں کرافٹ ہوتا ہے، وہیں ایک آرٹ بھی ہوتا ہے -کرافٹ تو ہے اوزان ،تلفّظ ،زبان و بیان وغیرہ اور اس میں کئی جگہ پر دو اور دو چار کی منطق کارفرما ہوتی ہے اور اس منطق کو مان لینے میں ہی عافیت ہے نہ ماننا اور کہنا کہ نہیں دو اور دو پانچ ہوتے ہیں محض ہٹ دھرمی ہے لیکن جو شاعری کا آرٹ ہے اس کا مدار شاعر کے ذوق پہ ہوتا ہے جس پر دو اور دو چار کی منطق لاگو نہیں ہوسکتی اور ذوق لوگوں کا مختلف ہوتا ہے -پھر یہ دونوں غزلیں کچھ نہیں کچھ نہیں تین برس سے زائد مدّت تک میرے ساتھ رہی ہیں اور ہر زاویے سے دیکھ کر ،تراش خراش کے بعد یہاں پیش کی ہیں -پھر ہر کرم فرما آپ کی طرح کا نہیں ہوتا کہ اوروں کی کاوش پہ بھی اتنا وقت صرف کرے ،محض اپنی ذوقی رائے دے کر کے باذوق لوگ چلے جاتے ہیں سو ایسوں کے لیے خود کو بے ذوق کیا کرنا-
کبھی کبھی وہ حال ہمارا یاد تمھاری کرتی ہے
رنگ جو چیری کے پیڑوں کا بادِ بہاری کرتی ہے
پہلے میں سمجھاتھا کہ ہجروفراقِ محبوب میں اُس کی یاد سے اپنی خستہ حالی ظاہر کرنا شاعر کا مقصود ہے مگر اب میں نے بغور پڑھا اور پھر غور کیا اور اُس لنک پر گیا جہاں چیری بلاسم پر مفصل مضمون موجود ہے تو مجھ پر منکشف ہوا کہ ایسا بالکل نہیں ہے اور جناب نے بھی اِس کی تشبیہ کو خستہ حالی بیان کرنے کے لیے استعمال نہیں کیا بلکہ محبوب کی یاد سے دلی اور روحانی فرحت و انبساط بیان کرنا آپ کا مقصودِ اصلی تھا۔ شاہ صاحب اگر میں صحیح سمجھا تو واقعی آپ روایتی شاعری سے ہٹ کر خالص اپنے انداز میں تصویر کا ایک اور رخ دکھانے میں بالکلیتااً کامیاب رہے ، واہ!

جزاک الله خیر -آپ نے درست سمجھا -پہلے آپ کی جو رائے تھی اس کے پیچھے بھی ایک معقول وجہ تھی اور وہ یہ کہ جب ہم کہتے ہیں:" تمھاری یاد ہمارا وہ حال کرتی ہے ...."تو عموماً خستہ حالی کو بیان کرنے کے لیے کہتے ہیں -جیسا کہ غالب نے بھی کہا ہے :

مت پوچھ کہ کیا حال ہے میرا ترے پیچھے
تو دیکھ کہ کیا رنگ ہے تیرا مرے آگے

مگر یہاں میری مراد :حال: سے محض کیفیت ہے جو کہ آگے بیان کی گئی -
شعرنمبر2:
خزاں کی رت میں ہو جاتا ہے حَسیں چناروں کا جو رنگ
تیری جدائی یوں بھی ہماری خاطر داری کرتی ہے
یہاں بھی آپ نے زردی اور پژمردگی کی روایت (جو خزاں کے ہاتھوں ہر پتے کا مقدر ہے)کو ایک طرف رکھ کرسُرخی کو لیاہے جو زندگی، زندہ دلی ، تری اور تازگی کی علامت ہے ۔ اب ڈکشن کی طرف آئیں تو خزاں کی رُت ، چنار، رنگ، جدائی اور پھر خاطر داری ۔اِن الفاظ پر مبنی بیان کو ایک زندہ تشبیہ نے پڑھنے پڑھانے اور سننے سنانے کی بجائے دیکھنے دکھانے کی چیز بنادیا۔ یہاں آپ نے الفاظ کے ساتھ تشبیہ کو بھی ایک مرصع ساز کے طرح استعمال کیا ، واہ۔
آداب عرض ہے -جزاک الله خیر -
آتا ہے جب رنگ گلوں پر تیرا خیال آجاتا ہے
مدھر سروں میں تیری باتیں بادِ بَہاری کرتی ہے
ظاہر ہے رونا رلانا اِس غزل میں اب تک کے کسی شعر کا مدعا اور مقصود نہیں رہا تو اِس شعر میں محبوب کا خیال آجانے سے کوئی کیسے اک تیرمیرے سینے میں مارا کہ ہائے ہائے کی توقع کرے اور یوں اِسے روایت کے بحرِ زخار میں دھکیل کر تبصرے کا حق چکتا کرے ،اِس شعر میں بڑے ہی خوبصورت اور بڑی ہی تکنیک سے اپنے محبوب کو سراپا بہار قرار دینا اِسے قابلِ تعریف شعر بنارہا ہے ، واہ۔
آداب-الله جل شانہ خوش و خرّم اور عافیت سے رکھے آپ کو -آمین
شعرنمبر4:
بچھڑ گئے جب اک دوجے سے ہم میں قرینہ آ ہی گیا
وقت پہ جاتا ہوں میں دفتر تو گھر داری کرتی ہے
سادہ سی بات ہے جو نوبیاہتا جوڑوں میں اکثر دیکھنے میں آتی ہے کہ نئی زندگی کے شروع کے دن الل ٹپ ہی گزارے جاتے ہیں ۔قاعدہ ،ضابطہ ،کلیہ، اصول کا دھیان دھیرے دھیرے آتاہےاور آگے چل کر بہرحال آہی جاتا ہے ،اسے وقت سے پہلے لانے میں چند دن کی دوری خاصا کام دکھاتی ہے ، اِس شعر میں یہی چھوٹی سی بات ہلکے پھلکے انداز میں یا یوں کہیں اپنے انداز میں بیان کی ہے۔
دیکھیے ایک تسلسل ہے ،پہلے جدائی میں رنگوں کا لطف اٹھایا گیا، پھر باد بہاری کا اور اب قرینے کا -ایک المیے کا ذکر ہے کہ انسانیت کے ایک بڑے گروہ نے طے کر رکھا ہے کہ ٹھوکھر کھا کر ہی سدھرنا ہے -
شعرنمبر5:
آخرِ شب میں اک سایہ سا ہم سے آکر کہتا ہے
یاد میں تیری اک دیوانی آہ و زاری کرتی ہے
روایت تو کہتی ہے کہ محبوب کی باتیں سات پردوں میں چھپاکر کیجیے اور اپنے جذبات کے بیان میں زیادہ سے زیادہ بلکہ حدسے زیادہ شاعرانہ وسائل کا سہار لیں تاکہ آڑ رہے تب ہم اِسے غزل مانیں گے مگر اس غزل کی فضاء غم کا قصہ سنانے کی بجائے ہلکے پھلکے واقعات شیئر کرنے کی بنتی جارہی ہے اس لیے تھوڑی دیر کے لیے غزل کے روایتی تقاضوں کو ایک طرف رکھ کر ایک پاک طینت،کشادہ دل اور باعلم انسان کی باتیں دھیان سے سنیں ، یہی اِس شعر کا حسن ہےاور داد دجس کا حق ہے، واہ!
آداب عرض ہے -
شعرنمبر 6:
حسن ہے کیا اور کون حَسیں ہے ہم سے آکر پوچھیں تو
طبع ہماری بہرِ نگاراں نقد نگاری کرتی ہے
اِس شعر کی تعریف اہلِ علم اور اصحابِ دانش ،نکتہ سنج اور نکتہ رس حضرات پہلے ہی فرماچکے ہیں ، میں اُن کی تائید کے سوا کچھ عرض نہیں کرسکتا۔
جزاک الله خیر -

مقطع:
شؔاہ سنو! راحت سی راحت ہے چپ شاہ کے روزے میں
گرہ زباں کی کھلے تو پھر یہ دل آزاری کرتی ہے

یہ آپ کی اِس غزل کا پہلا اور آخری اور اکیلا شعر ہے جس پر اُردُو شاعری میں فلسفہ ، منطق اور حکیمانہ اقوال کی روایت کا گہرا اثر ہے،قلی قطب شاہ کے اکثر مقطعوں کی خُو بوُ اس شعر میں پائی جاتی ہے یعنی وہ پندو نصائح جو ٹھیٹھ عاشقانہ غزلوں تک میں اُس کے ہاں ملتے ہیں:

قطب شہ نہ دے مج دوانے کو پند
دوانے کوں کچ پند دیا جائے نا
بجا فرمایا- پوری غزل منفرد ہو یہ محال ہے -

شکیل بھائی آپ نے جو یہ تفہیم سخن کا سلسلہ شروع کیا ہے ،اسے جاری و ساری رکھیے گا ،مجھے یاد ہے مجھ میں شاعری کا ذوق پیدا کرنے میں میٹرک میں ہماری اردو کی استاذہ کا بڑا کردار ہے ،ہم کلاس کی پیچھے کی بینچوں پر بیٹھ کرپڑھاکو بچوں پہ فقرے کسا کرتے تھے ،جب وہ کسی نظم یا غزل کی شروعات کرتیں تو اکثر مجھے کھڑا کر دیتیں کہ تم کرو تشریح اس شعر کی ،بس اب خود پہ فقرے کسے جانے کا ڈر کچھ نہ کچھ بلوا دیتا تھا اور پہلے سے کچھ تیّاری بھی کر لیتا تھا - آپ نے بھی جو اصلاح سخن میں مصرعوں پہ مصرعے کسے ہیں، اس کا کفّارہ ہے کہ تفہیم سخن کی طرف اپنی توجہ قائم و دائم رکھیں - :)


الله تعالیٰ آپ کو عافیت دارین سے نوازے -آمین
 

یاسر شاہ

محفلین
اسر بھائی ، اِس غزل كے اشعار میں مجھے ایک انفرادیت اور تازگی کا احساس ہوا
غزل پسند آئی . داد حاضر ہے .
برادر مکرم آپ کی ذرہ نوازی پہ آپ کا ممنون ہوں -جزاک الله خیر
شاید اِس کی وجہ اِس میں مستعمل ساز و سامان ( چیری ، چنار ، دفتر ) ہے
نہیں علوی بھائی محض الفاظ سے کیا ہوتا ہے -اوپر کے ایک مراسلے میں شکیل صاحب نے غزل کی انفرادیت کا کھوج لگایا ہے ،اسے دیکھ لینے میں حرج نہیں -
’نقد‘ کا استعمال بمعنی ’تنقید‘ میری نگاہ سے پہلے نہیں گزرا . آپ ’نکتہ نگاری‘ جیسا کچھ کہتے تو بہتر ہوتا .

تنقید کا مفہوم
تنقید نقد سے ماخوذ ہے ، جس کا معنی ہے کھرے اور کھوٹے میں تمیز کرنا اور اصطلا حاً کسی تعلیمی یا علمی مسئلے یا کتاب پر اس انداز سے غور کرنا کہ اس کتاب کے قوی اور کمزور پہلو نمایاں ہوجائیں۔​


لفظِ تنقید باب تفعیل کے وزن پر ہے جس سے عموم اً یہ تاثر ملتا ہے کہ یہ لفظ عربی زبان کا ہے حالانکہ عربی میں تنقید نام کا کوئی لفظ نہیں بلکہ اس کے لئے نقد اور انتقاد کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔ اردو والوں نے ان کی رعایت سے تنقید کا لفظ وضع کر لیا جو اب اتنا رائج ہو گیا ہے کہ اس کی جگہ نقد اور انتقاد کے الفاظ اجنبی سے لگتے ہیں۔

اِس غزل میں آپ نے متقارب اور متدارک بحور كے ارکان ملا جلا کر استعمال کیے ہیں . جہاں تک مجھے علم ہے ، کلاسیکی شاعری میں ایسا نہیں ہوتا تھا ، لیکن بعد كے شعراء ، خاص طور وہ شعراء جو ہندی شاعری سے متاثر ہیں ، كے یہاں ایسا استعمال ہونے لگا ، مثلاً :
جنم جنم كے ساتوں دکھ ہیں اس كے ماتھے پر تحریر
اپنا آپ مٹانا ہو گا یہ تحریر مٹانے میں ( اِبْن انشا ء)
رہ گئی تقطیع تو اس بحر کی تقطیع خاصی الجھی ہوئی ہے اور عام شاعر ایسی نزاکتوں سے بھاگتا ہے۔ پہلے میں کر لوں اور اپنی حد تک اطمینان بھی کر لوں کہ کم وبیش صحیح ہے پھر حاضر ہوتا ہوں

یہ اشعار دیکھ لیجیے :


بہت کیا تو پتھر میں سوراخ کیے ہیں در فشوں نے
چھید جگر میں کر دینا یہ کام ہے محزوں نالوں کا


بڑے بڑے تھے گھر جن کے یاں آثار ان کے ہیں یہ اب
میر شکستہ دروازے ہیں گری پڑی دیواریں ہیں


میں نے جو کچھ کہا کیا ہے حدو حساب سے افزوں ہے
روز شمار میں یا رب میرے کہے کیے کا حساب نہ ہو


جس شب گل دیکھا ہے ہم نے صبح کو اس کا منھ دیکھا
خواب ہمارا ہوا ہوا ہے لوگوں کا سا خواب نہ ہو

حوصلہ داری کیا ہے اتنی قدرت کچھ ہے خدا ہی کی
عالم عالم جہاں جہاں جو غم کی ہم میں سمائی ہوئی


آگے اس متکبر کے ہم خدا خدا کیا کرتے ہیں
کب موجود خدا کو وہ مغرور خود آرا جانے ہے

سنی سنائی بات سے واں کی کب چیتے ہیں ہم غافل
دونوں کان بھرے ہیں اپنے بے تہ یاں کے فسانے سے
-------------
میر تقی میر


اس طرح کے میر کے کئی اور بھی اشعار ہیں
=================

اب ایک شعر میر کے ہم عصر :جرات : کا دیکھیے :

ننگ ہے یا اب نام سے ایسا جہاں لکھا ہو مٹوا دو
یا پڑھنے کو جرّات کے شعر لکھائے جاتے تھے



=============

اجل نے عہد میں تیرے ہی تقدیر سے یہ پیغام کیا
ناز و کرشمہ دے کر اس کو مجھ کو کیوں بدنام کیا

چمن میں آتے سن کر تجھ کو بادِ سحر یہ گھبرائی
ساغر جب تک لاویں ہی لاویں توڑ سبو کو جام کیا

لذّت دی نہ اسیری نے صیّاد کی بے پروائی سے
تڑپ تڑپ کر مفت دیا جی، ٹکڑے ٹکڑے دام کیا

ادب دیا ہے ہاتھ سے اپنے کبھو بھلا مے خانے کا
کیسے ہی ہم مست چلے پر سجدہ ہر اک گام کیا

میں یہ سماجت دیا ہے دل کو، جور و جفا کا شکوہ کیا
ان نے کب لینے پر اُس کے، قاضی کا اعلام کیا

سودا


میر سودا اور جرات ہم عصر ہیں مگر نہ جانے کیوں اس بحر کو میر کی ایجاد کہا جاتا ہے حالانکہ سودا اور جرات نے بھی اسی بحر میں طبع آزمائی کی ہے اور یہ غیر روایتی تصرف جس کی وجہ سے اس بحر کو ہندی بھی کہا جاتا ہے وہ بھی باقی دو شعرا کے اشعار میں موجود ہے جس کی اوپر مثالیں بھی ہیں -
 
برادر مکرم آپ کی ذرہ نوازی پہ آپ کا ممنون ہوں -جزاک الله خیر

نہیں علوی بھائی محض الفاظ سے کیا ہوتا ہے -اوپر کے ایک مراسلے میں شکیل صاحب نے غزل کی انفرادیت کا کھوج لگایا ہے ،اسے دیکھ لینے میں حرج نہیں -

تنقید کا مفہوم​

تنقید نقد سے ماخوذ ہے ، جس کا معنی ہے کھرے اور کھوٹے میں تمیز کرنا اور اصطلا حاً کسی تعلیمی یا علمی مسئلے یا کتاب پر اس انداز سے غور کرنا کہ اس کتاب کے قوی اور کمزور پہلو نمایاں ہوجائیں۔​


لفظِ تنقید باب تفعیل کے وزن پر ہے جس سے عموم اً یہ تاثر ملتا ہے کہ یہ لفظ عربی زبان کا ہے حالانکہ عربی میں تنقید نام کا کوئی لفظ نہیں بلکہ اس کے لئے نقد اور انتقاد کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔ اردو والوں نے ان کی رعایت سے تنقید کا لفظ وضع کر لیا جو اب اتنا رائج ہو گیا ہے کہ اس کی جگہ نقد اور انتقاد کے الفاظ اجنبی سے لگتے ہیں۔




یہ اشعار دیکھ لیجیے :


بہت کیا تو پتھر میں سوراخ کیے ہیں در فشوں نے
چھید جگر میں کر دینا یہ کام ہے محزوں نالوں کا


بڑے بڑے تھے گھر جن کے یاں آثار ان کے ہیں یہ اب
میر شکستہ دروازے ہیں گری پڑی دیواریں ہیں


میں نے جو کچھ کہا کیا ہے حدو حساب سے افزوں ہے
روز شمار میں یا رب میرے کہے کیے کا حساب نہ ہو


جس شب گل دیکھا ہے ہم نے صبح کو اس کا منھ دیکھا
خواب ہمارا ہوا ہوا ہے لوگوں کا سا خواب نہ ہو

حوصلہ داری کیا ہے اتنی قدرت کچھ ہے خدا ہی کی
عالم عالم جہاں جہاں جو غم کی ہم میں سمائی ہوئی


آگے اس متکبر کے ہم خدا خدا کیا کرتے ہیں
کب موجود خدا کو وہ مغرور خود آرا جانے ہے

سنی سنائی بات سے واں کی کب چیتے ہیں ہم غافل
دونوں کان بھرے ہیں اپنے بے تہ یاں کے فسانے سے
-------------
میر تقی میر


اس طرح کے میر کے کئی اور بھی اشعار ہیں
=================

اب ایک شعر میر کے ہم عصر :جرات : کا دیکھیے :

ننگ ہے یا اب نام سے ایسا جہاں لکھا ہو مٹوا دو
یا پڑھنے کو جرّات کے شعر لکھائے جاتے تھے



=============

اجل نے عہد میں تیرے ہی تقدیر سے یہ پیغام کیا
ناز و کرشمہ دے کر اس کو مجھ کو کیوں بدنام کیا

چمن میں آتے سن کر تجھ کو بادِ سحر یہ گھبرائی
ساغر جب تک لاویں ہی لاویں توڑ سبو کو جام کیا

لذّت دی نہ اسیری نے صیّاد کی بے پروائی سے
تڑپ تڑپ کر مفت دیا جی، ٹکڑے ٹکڑے دام کیا

ادب دیا ہے ہاتھ سے اپنے کبھو بھلا مے خانے کا
کیسے ہی ہم مست چلے پر سجدہ ہر اک گام کیا

میں یہ سماجت دیا ہے دل کو، جور و جفا کا شکوہ کیا
ان نے کب لینے پر اُس کے، قاضی کا اعلام کیا

سودا


میر سودا اور جرات ہم عصر ہیں مگر نہ جانے کیوں اس بحر کو میر کی ایجاد کہا جاتا ہے حالانکہ سودا اور جرات نے بھی اسی بحر میں طبع آزمائی کی ہے اور یہ غیر روایتی تصرف جس کی وجہ سے اس بحر کو ہندی بھی کہا جاتا ہے وہ بھی باقی دو شعرا کے اشعار میں موجود ہے جس کی اوپر مثالیں بھی ہیں -
یاسر بھائی ، تفصیلی جواب کا شکریہ ! اِس غزل کی بحر کی جو مثالیں آپ نے فراہم کی ہیں ، وہ میرے علم میں نہیں تھیں . زحمت كے لیے ممنون ہوں . یہاں ایک غلطی کا اعتراف بھی کرتا چلوں . میں نے عرض کیا تھا کہ آپ نے متقارب اور متدارک بحور كے اركان ملا کر استعمال کیے ہیں . دَر اصل مجھے کہنا یہ تھا کہ فعلن فعلن اور فعل فعولن كے ساتھ آپ نے فعول فعلن استعمال کیا ہے ، جس کی مثالیں میری نگاہ میں نہیں تھیں . خیر ، آپ میرا موقف سمجھ گئے .
 

یاسر شاہ

محفلین
یاسر بھائی ، تفصیلی جواب کا شکریہ ! اِس غزل کی بحر کی جو مثالیں آپ نے فراہم کی ہیں ، وہ میرے علم میں نہیں تھیں . زحمت كے لیے ممنون ہوں . یہاں ایک غلطی کا اعتراف بھی کرتا چلوں . میں نے عرض کیا تھا کہ آپ نے متقارب اور متدارک بحور كے اركان ملا کر استعمال کیے ہیں . دَر اصل مجھے کہنا یہ تھا کہ فعلن فعلن اور فعل فعولن كے ساتھ آپ نے فعول فعلن استعمال کیا ہے ، جس کی مثالیں میری نگاہ میں نہیں تھیں . خیر ، آپ میرا موقف سمجھ گئے .
علوی بھائی آپ کی باتوں سے بزرگی کی خوشبو آتی ہے --الله جل شانہ آپ کو صحت و عافیت سے رکھے - آمین
 
Top